رب کریم نے نبی مکرم ؐ کی بعثت فرماتے ہوئے پہلی وحی جو نازل کی اس میں
تعلیم کی اہمیت ،اس کے مقاصد اساسیہ،اس کے حصول کے ذرائع کو شاندار انداز
میں بیان کردیا ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جو پیداکرنے والا ہے،پیداکیا انسان
کو جمے ہوئے خون سے ،پڑھ عزت والے رب کے نام سے ،وہ جس نے تعلیم سیکھائی
قلم کے ذریعہ سے ،انسان کو وہ تعلیم دی جس کو وہ نہیں جانتاتھا‘‘۔سورہ علق
کی ان پانچ آیات میں تعلیم اور اس کے مشتقات اور اس کے اغراض و مقاصد کو
کھولے انداز میں بیان کردیا گیا۔ امت محمدیہ کا رشتہ علم کے ساتھ ایسا
وابستہ کردیا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی چھوٹ نہیں سکتا بالاضافہ اس بات کے کہ
اﷲ نے انسان کو کائنات کی تمام مخلوقات پر جو فضیلت دی اس کا بنیادی سبب
بھی علم سے واقفیت کی وجہ سے ہی ہے۔فرشتوں کو(جو کہ نورانی اور معاصیات سے
پاک مخلوق ہے ) انسان(باوجود اس بات کے رب ذوالجلال کے علم میں تھا کہ
انسان دنیا میں انتشار و فسادات کو بپاکرنے کے ساتھ گناہوں کا مرتکب ہوگا)
کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا گیا ۔سورہ البقرہ میں اس مکالمہ کا ذکر
موجود ہے جو اﷲ تعالیٰ اور فرشتوں کے مابین ہوا ۔اﷲ رب العزت نے جب فرشتوں
کا امتحان لیا وہ عاجز ہوگئے اور حضرت آدم علیہ السلام کامیاب ٹھہرے بالآخر
فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا۔یہ فضیلت و منزلت علم ہی کی وجہ سے حاصل ہوئی کہ
انسان مسجود ملائک بنا۔
سورہ علق کی آیا ت میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ علم وہی علم ہے جس میں
رب کائنات کی رضا کا حصول مضمر ہو ،دنیا کا کوئی علم فی نفسہ مضر یا نقصان
دہ نہیں ہے ہاں جب اس کی ٹہنی کو غیر اﷲ کی جانب سے حرکت دی جائے گی اور اس
کو حاصل کرنے کا مقصد دنیا میں خود کومستعلی کرنے کی کوشش کی جائے گی ،ظلم
و ستم کا راستہ اختیار کرکے کمزور و ناتواں لوگوں پر مصائب ڈھائے جائیں گے
،یا علم کو حاصل کرنے کے بعد انسانیت کے حقوق کو غصب کیا جائے گا،یا علم کے
آجانے کے بعد مادر پدر آزادی کی لہر کو فروغ دیاجائے گا،یا پھر اسلامی
تعلیمات اور اس کے تہذیب و ثقافت کو کمتر جانتے ہوئے غیراﷲ کی اندھی تقلید
کی جائے گی تو ایسے میں لازم ہوگا کہ یہ علم فائدہ دینے کی بجائے انسانیت
کو ہلاکت کی تہوں میں داخل کرنے کا موجب ہوگا ۔جیساکہ عصر حاضر کا مشاہدہ
بتاتاہے کہ انسان نے خود ہی اپنی ہلاکت کا سامان تیار کرلیا ہے۔پہلی و
دوسری جنگیں اس بات کی شہادت ہیں اور اسی طرح ایٹمی مواد کے تیار ہوجانے کے
بعد دنیا کا ہر گوشہ غیر محفوظ ہوچکا ہے۔اسی وجہ سے سورہ علق کی پہلی
دوآیات میں علم کے حصول اور اس کے رب عظیم کے ساتھ رشتہ و تعلق کی اہمیت کے
ساتھ انسان کو بتادیا گیا ہے کہ انسان کو متکبر و گھمنڈ کارویہ اختیار کرنے
کی چنداں حاجت نہیں کیوں کہ انسان کی اصل و اساس پانی کے ایک گندے قطرے کے
بعد خون کے لوتھڑے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تاوقتیکہ وہ اپنی بعثت و تخلیق کے
مقصد پر اپنی زندگی بسر کرنا شروع نہ کردے ۔قرآن میں بیان ہواہے کہ ’’ہم نے
پیدانہیں کیا انسان کو مگر اپنی عبادت کی خاطر‘‘۔احادیث مبارکہ میں بھی
حصول کی اہمیت اور اس کے مقصد و مطلب کو واضح کیا گیا ہے۔’’علم حاصل کرناہر
مسلمان پر فرض ہے‘‘و’’میں معلم بناکر بھیجا گیاہوں‘‘و’’اے اﷲ علم نافع
عطافرما‘‘ جیسی بے شمار احادیث نبویؐ اور دعائیں موجود ہیں۔
تیسری آیت میں بیان کردیا گیا ہے کہ پڑھنے کے بعد واجب ہے کہ ہم انسانیت کے
ساتھ متواضع کے رویہ کواختیار کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھلائی و ہمدردی اور
نیکی و تکریم کا تعلق استوار کریں۔کیوں کہ جو علم اسے دیا گیا ہے یہ علم
کریم و عزت والے رب کی جانب سے ملا ہے ۔اس علم کو انسانیت کی خدمت اور ان
کی دست گیری کا ذریعہ بناناچاہیے نہ کہ اس کے بعد انسان مارے غرور کے
حیوانیت کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے صرف اپنے مفادات کے تحفظ کو تو یقینی
بنائے چاہے اس کے سبب دوسروں کے گھر ویران و تاریک ہوتے ہوں۔گویا کہ اس آیت
میں اﷲ رب العزت انسان کاتزکیہ فرمارہے ہیں کہ علم کے حصول کے بعد مادہ
پرستی کا دامن نہ تھام لینا اور اس کے ساتھ سرکشی و بڑائی کو اپنا شعار نہ
بنالینا کیوں کہ اسی کے سبب شیطان کو تاقیامت مردود اور جن و انس اور
کائنات کی تمام مخلوقات کی لعنت کا مستحق بنادیا گیا۔
چوتھی اور پانچویں آیت میں اول تو علم کے حاصل ہونے کے اہم ترین ذریعہ کا
ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ آگے واشگاف الفاظ میں اﷲ نے انسانیت کی
استعداد و صلاحیت کی بنیاد کو بیان کردیا کہ جوکچھ تم جانتے ہو وہ ہمی نے
تم کو بتایا اور سیکھلایا وگرنہ تم تو جانتے ہی نہ تھے ۔اس بات کے بعد واضح
ہوجاتا ہے کہ انسان کو اپنا سینہ اس بات پر چوڑا کرنا چاہیے جو اس کی اپنی
تخلیق ہو اور وہ چیز کسی اور کے پاس موجود نہ ہو اور اس نے یہ کسی کی مدد و
نصرت کے بغیر حاصل کیا ہو ۔اور یہ امر ایسا ممکن ہی نہیں تو لٰہذا امر واقع
ہے کہ انسان کو عاجزی کو اپناچاہیے۔
مندرجہ بالاگذار شات کودرج کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام وہ دین متین ہے جس
نے نہ صرف علم کی اہمیت کو ببانگ دہل بیان کیا اور اس کے حصول پر زور دیا
بلکہ اس کے حدود اربع کو بھی متعین کردیا کہ یہ حد فاصل ہے علم رحمانی اور
علم شیطانی کے مابین جو علم رحمانی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے گا وہ
ہمیشہ کے لیے کامیاب ہوجائے گا وگرنہ ابدی لعنت اور ناکامی کا مستحق ٹھہرے
گا۔
اﷲ جل جلالہ نے قرآن میں حضورؐ کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ’’
ہم نے امیین (ان پڑھ)میں رسول بناکر بھیجا انہیں میں سے ہیں وہ تلاوت کرتے
ہیں آیات کی ،اور تزکیہ کرتے ہیں،تعلیم دیتے ہیں کتاب و حکمت کی ۔۔۔۔۔الخ‘‘اس
آیت میں اور اس جیسی دیگر آیات میں اﷲ نے نبی کریم ؐ کی چار صفات کا ذکر
کیا ہے جن کی تعلیم دینا آپؐکے فریضہ میں شامل تھا۔اول ۔آیات کی
تلاوت۔ثانی۔تعلیم کتاب۔ثالث۔ تعلیم حکمت و دانشمندی ۔رابع ۔تزکیہ ۔علم کا
رشتہ جب تک تزکیہ کے ساتھ استوار و قائم رہے گا اس علم کے ذریعہ انسان عروج
کے اقبال تک پہنچے گا اور جب علم سے تزکیہ کے رشتہ کو کاٹ دیا جائے گا تو
یہ علم ضلالت و گمراہی اور انسانیت کی کشتی کو ڈبودینے کا سبب بھی بن جائے
گا اور اس کے ساتھ ہی اﷲ کی ناراضگی ہمیشہ کا مقدر بن جائے گی۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج کل کے تمام تعلیمی ادارے بالخصوص حکومتی و
عصری تعلیمی اداروں کا رشتہ تزکیہ سے کٹا ہوا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ طالب
علم استاذ پر دست درازی ، والدین ،اساتذہ ،بڑوں ،دوستوں اور رشتہ داروں کی
عزت و تکریم سے تہی دامن ہوچکا ہے ۔اور اسی کابدیہی ومشاہداتی نتیجہ ہے کہ
معاشرہ عدم اطمینان کی کیفیت سے دوچار ہے اور کرپشن،لوٹ مار ،چوربازاری،دھوکہ
دہی و بددیانتی کا رواج عام جاری و ساری ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ علمی چوری ،مالی
خیانت کو عزت و منزلت کے حصول کے لئے گنہونے جرم کو بھی کر گذرنے میں کوئی
حجاب نہیں کرتے ۔آئے روز اخبارات و ٹی وی پر خبریں چلتی ہیں کہ فلاں مقام
پر فلاں طالب علم یا فلاں طالبہ نے خودکشی کرلی ہے او ر اس کے متعدد اسباب
بیان کیے جاتے ہیں کہ محبت میں ناکامی پر یا گھریلوناچاقی پر،شادی بالجبر
کے اندیشے پر خودکشی کی گئی ہے مگر ایک اہم نقطہ کو ہمیشہ نظروں سے اوجھل
رکھاجاتاہے کہ اس حدتک پہنچنے کا ذریعہ کونسا سبب بناہے شاید کبھی کسی نے
اس پر غور کرنا مناسب نہیں سمجھا جبکہ یہ امر مسلتزم ہے کہ جب آپ بانجھ و
غیر مؤثر اور ناکارہ تعلیم جو تزکیہ و تربیت سے خالی ہوگئی کو حاصل کرنے
والے طالب علم یا طالبہ سے یہ کسیے امید رکھ سکتے ہیں کہ اس میں اخلاقیات
سے عاری سرگرمیاں ،یورپ و مغرب کی تقلید میں مشغول ہوتے ہوئے عشق و معاشقہ
کی لعنت سے دور رہ سکتے ہیں ۔ تعلیم وہ مطلوب ہے جو تزکیہ و تربیت کے ساتھ
مربوط ہو اور استاذ صرف کتاب کو رٹوانے یا ازبر کروانے اور امتحانات میں
کامیابی کے چور راستے بتانے کا مکلف نہیں بلکہ یہ وہ منصب ہے کہ جس پر فائز
ہونے والے کی ابدی کامیابی کا انحصار اور معاشرے کی ترقی و فلاح کا منبع
تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں ۔اگر ان کی خط مستقیم پر
رہنمائی و نگہبانی نہیں کی گئی تو مسلم معاشرہ ہمیشہ کی ذلت و رسوائی میں
مبتلا ہوجائے گاجس کا آغاز بڑی سرعت کے ساتھ پروان چڑھ رہاہے اس کے سامنے
بندھ باندھنے کا واحد ذریعہ تعلیم ہے اوروہ تعلیم جس کا تعلق و رشتہ تزکیہ
و تربیت کے ساتھ اٹوٹ ہو۔ |