عملی ثبوت

اونچی آواز میں نعت پڑھتے ہوئے عریبہ کی نظر جیسے ہی دروازے میں داخل ہوتی ہوئی سعدیہ پر پڑی ۔
وہ دوڑکر خالہ جانی کہتے ہوئے لپٹ گی۔سعدیہ اسے لپٹائے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئیں۔امی کہاں ہیں
(انہوں نے اپنی بہن فوزیہ کے بارے میں پوچھا)امی آپی کے ساتھ بازار گئی ہیں،ابو آفس اور راشد بھائی نے ہی تو دروازاہ کھولا ہو گا۔پتہ ہے خالہ جانی!میں آپ کو آج بہت یاد کر رہی تھی،عریبہ نے جلدی جلدی سب گھر والوں کے بارے میں بتا کر محبت سے بولا۔
اچھا تو آپ کے ذہن میں کچھ سوال ہونگے۔انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔جی خالہ جانی !آپکو پتہ
ہے آج اسکول میں کیا ہوا؟ ارے بھئی تم بتاؤ گی تو پتہ چلے گا نہ۔۔۔۔
ہمارے اسکول میں سیرت النبیﷺ کا پروگرام ہے۔میں یسی لئے تو نعت کی تیاری کر رہی تھی۔آجکل ہم روز آخر کے دو پریڈ پروگرام کی تیاری کرتے ہیں۔ہماری مِس ثناء ،جو بلکل آپ کی طرح باتیں کرتی ہیں؛میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا نہ؟اس نے رکتے ہوئے کہا۔ھم۔۔خالہ جانا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔پھر۔۔؟
مِس ثناء ہمیں بتا رہی تھیں،کہ ربیع لاول کے اس ماہ میں ہم میلاد بھی کرتے ہیں،درود شریف کی محفلیں بھی کرتے ہیں۔لیکن ایک دن میں ہم نبیﷺ کی محبت کا حق ادا نہیں کر سکتے۔اصل میں تو ہمیں اس راستے پر چلنا ہے ۔جو پیارے نبی ﷺ نے بتایا۔اور آج ہماری محبت کا عملی ثبو ت یہ ہے کہ ہم ناموسِ
رسالتﷺ کے لئے متحد ہو جائیں۔مِس راشدہ بولیں !ثناء یہ لوگ ہر دفعہ ان واقعات سے ہمیں
اشتعال دلانا چاہتے ہیں۔تو کیوں نہ ہم ہی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں،یا معاف کر دیں۔آخر نبی ﷺ نے بھی تو ہمیشہ معاف کیا ہے۔سب غور سے سننے لگے۔ابھی مِس ثناء جواب دیتیں کہ چھٹی کی گھنٹی بج گئی۔انہوں نے ہکا کہ اب پیر کو بات ہو گی۔آج جمعہ ہے،درمیان میں پورے ۲ دن باقی ہیں اس لئے میں آپ کو یاد کر رہی تھی۔خالہ جانی جو بڑی توجہ سے اسکی بات سن رہی تھیں۔بولیں۔۔یہ سچ ہے بیٹا ،آج
فتنوں کا دور ہے۔اور یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ ہم میں کچھ لوگ کم علمی یا اپنے مفاد کے خاطر چاہتے ہیں کہ ہم معاف کر کے یا انکو انکے حال پر چھوڑ کے کڑوے گھونٹ پی لیں۔ جواز یہ دیتے ہیں کہ نہ ہم مشتعل ہونگے نہ وہ دوبارہ ایسی حرکت کرینگے۔اس رائے کو ہموار کرنے کے لئے دجالی فتنے کا سر غنہ میڈیا بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔جبھی راشدہ جیسے لوگوں کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا ہوتے ہیں
لیکن حقیقتاََ یہ رائے صرف اور صرف دین سے دوری ہے۔
خالہ جانی کیا قرآن ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا؟
نا صرف قرآن بلکہ احادیث اور خلفائے راشدین،صحابہ کرام کے دور میں بھی ہمیں توہینِ رسالت ﷺ
کے مرتکب ملعون کے لئے (کیا سزا تجویز کی جائے )کا قانون ملتا ہے۔
خالہ جانی !قرآن میں کس جگہ ذکر ہے ،مجھے بھی بتایئے۔
بیٹا کسی ایک جگہ نہیں۔۔قرآن اہل ِایمان کو بہت جگہ حکم دیتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی عزت و توقیر و تعظیم کریں۔اورقوت،قلم وزبان سے انکے وقار اور عزت کی حفاظت کریں۔ہمیں نبیﷺ کے آگے پیش قدمی نہ کرنے اور انکی آواز سے اپنی آواز بلند نہ رکھنے کی تاکید ہے۔ورنہ ہمارے سارے اعمال غارت ہو جائیں گے۔جو لوگ نبی ﷺکو اذیت دیں گے،ان پر اﷲ کی لعنت، دنیا و آخرت میں رسوا کن انجام اور دردناک عذاب تیار ہے۔
خالہ جانی جب نبی ﷺ نے مکہ میں توحید کی دعوت دی تو کفار آپ ﷺ کا مذاق اڑاتے تھے،اس وقت ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا تھا۔
۱۳ سالہ مکی زندگی میں مسلمان مغلوب تھے لہذا انہیں تلوار اٹھانے کے بجائے انتہائی صبر کا حکم دیا گیا تھا۔لیکن اﷲ کا وعدہ تھا کہ نبیﷺ کا مذاق اڑانے والوں کے لئے اﷲ ہی کافی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ابو لہب کی اولاد نے بھی اسے دفنایا نہیں بلکہ غلام سے گڑھے میں پھنکوا دیا۔باپ کے نقشِ قدم پر چلنے والے بیٹے کو شیر نے پھاڑ کھایا۔جس جس نے یہ حرکت کی اذیت ناک بیماریوں سے ان کی موت واقع ہوئی۔
۱۰ سالہ مدنی دور جب مسلمان غالب تھے۔قوت و اقتدار انکے ہاتھ میں تھا۔تو نبیﷺ نے خود توہین ِرسالت کرنے والوں کے قتل کا حکم دیا۔(شاعر)کعب بن اشرف ،(باندھی)امِولد اور گستاخ یہودیہ کو توہین رسالت کے مرتکب ہونے پر مختلف صحابیوں نے قتل کیا۔اور آپ ﷺ نے فرمایا ،لوگو!گواہ رہو یہ خون بے بدلا ہے۔
اسکے علاوہ فتح مکہ کے بعد سب کو امان مل گئی،صرف ,,ہجو ،،کرنے والوں کو قتل کیا گیا۔ابنِ خطل کعبے کے پردوں سے لپٹا رہا پھر بھی نبی ﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا ۔کیونکہ یہ قرآن و سنت کا قانون ہے کہ توہینِ
رسالت کا مرتکب ملعون کی سزا موت ہے۔
تو۔۔۔تو خالہ جانی ہمیں کیا کرنا چاہئے۔۔۔ہم کیسے کریں وہ بے بس انداز میں بولی
بیٹا کیا ،کیوں اور کیسے کے لئے ہی تو قانون بنتے ہیں۔اور ,,قانون ،، صرف اﷲ کا ہے۔وہ مسکراتے ہوئے بولیں میں تمہیں آسانی سے سمجھاتی ہوں۔ہمارے ماں باپ نبی ﷺ پر قربان جب ان سے گستاخی کی جاتی ہے تو فطری ردعمل سامنے آئے گا۔قانون نہیں ہے ،تو ہی اشتعال پھیلتا ہے۔جب قانون ہو گا تو ہر ملعون کوفوری سزا دی جائے گی پھر ہمارے سینے خود ٹھنڈے ہو جائیں گے۔
خالہ جانی۔۔ہماری حکومت تو مذمتی بیان دے کر مطمئن ہو جاتی ہے۔حکومت کو کچھ کرنا چاہئے نہ۔۔۔
بالکل،حکومت کو فوراََ اس طرف توجہ دینی چاہئے۔(او۔آئی۔سی) مسلم تنظیم برائے تعاون،کا اجلاس بلا کر تمام مسلم ممالک اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور ملعون ممالک کی مصنوعات کا بائکاٹ اور سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا جائے تو دیکھو کیسے نہ معافی مانگیں۔اسکے علاوہ آئندہ ایسے ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے ناموس رسالتﷺ کیلئے عالمی قانون بنانے کی جدوجہد کی جائے۔ جس میں نبی ﷺکی ذات،کتاب،مذہب یا انبیا کے ساتھ گستاخی کرنے والے کو سزائے موت ،کا قانون ہو۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بنی بنائی( او،ایس،آئی)غفلت کی نیند سو رہی ہے جس کو میٹھی لوری دینے میں یقیناََ مغرب کا ہاتھ ہے۔کاش!۵۷ مسلم ممالک ہر تعصب کو بالائے طاق رکھ کر ،اپنے ذاتی مفادات پس ِپشت ڈال کر متحد ہو جائیں۔ہمارے مسلم حکمرانوں کی غیرت کا جاگنا،انشااﷲ امتِ مسلمہ کے عروج کی طرف پہلا قدم ہو گا۔انشااﷲ عریبہ نے دل سے کہا۔

Nadia Usmani
About the Author: Nadia Usmani Read More Articles by Nadia Usmani: 3 Articles with 2567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.