دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ،نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دِلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے نصب العین کی مثال دیتے ہوئے نئی نسل کو
متوجہ کیا ہے کہ وہ تن آسانی ترک کریں اور ان کے طرزِ زندگی کی تقلید کریں
۔علامہ اقبال نے واضح کیا ہے کہ انھوں نے زندگی بسر کرنے کا جو طریقہ اپنا
یا وہ امیرانہ ٹھاٹ باٹھ،نمود و نمائش،جاہ و جلال،شان و شوکت،کرو فراور عیش
و عشرت کا مظہر نہیں بل کہ انھوں نے درویشی اور فقیری کو زادِ راہ بناتے
ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کی۔انھوں نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ نگاہِ فقر میں
تو شانِ سکندری بھی ہیچ ہوتی ہے اور خراج کی گدا سے حاصل ہونے والی قیصری
کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔وہ مردِ فقیر تو دار و سکندر سے بھی بلند مقام
رکھتا ہے جس کی فقیری میں شیرِ خدا کی فقیری کی مہک قریہء جاں کو معطر کر
دے۔علامہ اقبال نے فقیرانہ مسلک ،عاجزانہ رویے ،دردمندانہ سلوک،اور
منکسرانہ طرزِ حیات کو ہمیشہ بہ نظرِ تحسین دیکھا اوراسے عملی زندگی میں
مقیاس العمل قرار دیا ۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ
اپنی حقیقت سے آشنا ہونے ،اپنی خودی کی پہچان،اپنی انا کے تحفظ،اور خود
داری کی شان کو ہر صورت میں بر قرار رکھا جانا چاہیے۔اپنے افکار میں انھوں
نے متاعِ خودی کا سودا کرنے والوں پر شدید گرفت کی ہے اورانھیں غریبی میں
اپنے جوہر دکھانے اور اپنی صلاحیتوں کو لوہا منوانے کی جانب متوجہ کیا
ہے۔ہمارے معاشرے کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ کئی طالع آزما ،مہم جُو ،موقع
پرست ،حریص،ابن الو قت ،چڑھتے سورج کے پُجاری،تھالی کے بینگن ،بگلا بھگت،
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے، جو فروش گندم نما اور عقل کے اندھے مسخرے
اپنی خودی اور قومی وقار کو نیلام کرنے کی غرض سے درِ کسریٰ پر صدا کرتے
ہیں اور ان کھنڈرات میں حنوط شدہ لاشوں ،جامد و ساکت مجسموں اور ابوالہول
کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔محض حقیر ذاتی مفادات کے حصول کی ہوس میں اپنی
خودی بیچ کر وہ جس طرح انسانیت کی توہین ،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری کرتے
ہیں،وہ ان کی کور مغزی ،بے بصری اور ذہنی افلاس کی دلیل ہے ۔ قحط الرجال کے
موجودہ دور کا یہ ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ ہے کہ بے ضمیری اور بے
حسی کے کُچلے ہوئے خارش زدہ سگانِ راہ نے کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے
جاہ و منصب اور گھٹیا ذاتی مفادات کے استخواں نو چنے اور بھنبوڑنے کی جو
قبیح روش اپنا رکھی اس نے خود انھیں اس دنیا کے آئینہ خانے میں تماشا بنا
دیا ہے۔
خودی اور عزتِ نفس کی پاس داری اور تحفظ کے اعجاز سے انسانی شخصیت میں ایسا
سوز،تڑپ اور شان پیدا ہوتی ہے جس کے معجز نما اثر سے فقر بھی شہنشاہی کے
جاہ و جلال کا مظہر بن کر قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔اپنی خودی کو ارفع
مقام عطا کرنے والے بوریا نشیں فقیر کو عزت و احترام کا جو اعلا منصب نصیب
ہوتا ہے وہ سنجر و طغرل سے کہیں بڑھ کر ہے۔جس مردِ خود آگاہ نے اپنی خودی
کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا وہ سیل ِ زماں کے مہیب
تھپیڑوں کے سامنے سینہ سِپر ہو کر ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب
بن گیا اور تقدیر ِ یزداں کا شاکی بننے کے بجائے خود تقدیرِ یزداں بن کر
فراخی ء افلاک میں خوار و زبوں ستاروں کی گردش کا محتاج بننے کے بجائے اپنے
مقدر کے ستارے کی خود ہی جستجو کرنا اس کا مطمحِ نظر قرار پاتا ہے ۔علامہ
اقبال نے خبردار کیا ہے کہ خودی کو سیم و زر کے عوض نیلام کرنا بے بصری کی
دلیل ہے یہ تو ایسا عمل ہے جیسے ایک ہمہ وقت ضو فشاں اور تپش آمادہ شعلے کو
راکھ کے ڈھیر میں ٹمٹماتی ہوئی کوئی دم کی مہماں چنگاری کے عوض فروخت کر
دیا جائے ۔ یہ خودی ہے جو جبر کے سامنے سِپر انداز ہونے سے روکتی ہے اور
حریت ضمیر سے جینے کی راہ دکھاتی ہے ۔یہ خودی ہے جو زیرِ تیغ بھی لا الہ
کہنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ذکرِ نیم شبی ،مراقبے
،سجود اور عبادات اگر خودی کے نگہباں نہیں ہو سکتے تو ان کی کوئی حیثیت ہی
نہیں۔اگر خودی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو جائے تو ہر لحظہ نیا طُور نئی
برقِ تجلی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے اور مرحلۂ شوق کی جانب ہمہ وقت سفر
جاری رہتا ہے۔اپنی خودی کی پہچان کی صلاحیت سے متمتع انسان ید بیضا کا
معجزہ دکھانے پر قادر ہوتے ہیں۔یہ خودی ہی ہے جس کی جلوتیں مصطفائیﷺ شان
لیے ہوئے ہیں اور جس کی خلوتوں میں کبریائی عظمت پورے جاہ و جلال کے ساتھ
موجود ہے۔
جہد للبقا کے موجودہ دور میں اقوام اور ملل کی حیات ِ دوام کے چراغ خودی کے
سوز سے رخشندہ و تاباں ہیں۔خودی کے سوز سے شخصیت و کردار میں جو نکھار پیدا
ہوتا ہے اس سے فکری انقلاب کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔ یہ بات بلا خوفِ
تردید کہی جا سکتی ہے کہ یہ کائنات ابھی نا تمام ہے اور زمین و آسمان و
کرسی و عرش سب کچھ خودی کی زد میں ہے ۔علامہ اقبال نے اُن لوگوں کو متنبہ
کیا ہے جنھوں نے اپنی خودی کو بیچ کر فکر وخیال اور ذہن و ذکاوت کو زمان و
مکان کی زُناری بنانے کی مذموم روش اپنا رکھی ہے۔انھوں نے ان لوگوں کے ذہنی
افلاس پر کڑی تنقید کی ہے اور یہ بات بر ملا کہی ہے کہ یہ مال و دولتِ دنیا
اور سب کے سب رشتہ و پیوند نقش بر آب ثابت ہوں گے ۔سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے
کی دیر ہے اس کے ساتھ ہی تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو
جائیں گے۔صر ف انسانی خودی ہی وہ جوہر ہے جو فصیلِ دِل کے کلس پر سدا ستارہ
جُو رہے گا ۔عزتِ نفس اور خودی کی لے تا ابد نے بہ لب رہے گی۔انسانیت کے
وقار اور سر بلندی کی یہ دُھن فصلِ گُل و لالہ کی احتیاج سے بے نیاز ہے بل
کہ بہار ہو یا خزاں ہر رُت اسی سے ثمر بار ہے ۔ انسان کو عملی زندگی میں
عزت و احترام اور خودی کا علم بلند رکھتے ہوئے جاوداں ،پیہم رواں اور ہر دم
جواں زندگی کے فیوض و برکات سے مستفید ہونے کے سیکڑوں مواقع میسر آتے
ہیں۔اس لیے اُسے کبھی اپنی متاعِ خودی کا سودا کرنے کا خیال اپنے دِل میں
نہ لانا چاہیے ۔ابتلا اور آزمائش کی گھڑی میں بھی یہ یقین رکھنا چاہیے کہ
ظلم کی شب یقیناً ڈھلے گی اور طلوعِ صبح ِ بہاران کی راہ میں جو دیوار بنے
گا نہیں رہے گا ۔ |