اردو کا تعارف

اردوکی آپ بیتی بندہ ناچیز کے قلم سے اردو زبان کہاں سے آئی اور ساتھ ہی قومی زبان کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے -

اردو آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہے چونکہ نام اردو جوکہ ترکی زبان سے لیا گیا ہے جس کے معنی’’ شاہی یا لشکر گاہ‘‘ کے ہے چونکہ اردو بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے اس لیے اس کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے شروع میں ان کو ’’ہندی ‘‘یا ’’ہندوی‘‘ بھی کہا جاتا تھا مشہور شاعر مصحفی نے اردو کے بارے ایک تذکرہ لکھا ہے جس کا نام تذکرہ ہندی ہے اس طرح اردو زبان کو ریختہ بھی کہا جاتا ہے جو کہ فارسی زبان کا لفظ ہے اور مشہور شاعر مرزا غالب کے عہد تک استعمال ہوتا رہا ہے -

پاکستان بننے سے قبل ان کے دشمن ان کے خون کے پیاسے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ اردو پھلوں ،پھولوں ،لیکن میٹھی آواز کے رس لطافت اور ملاحت کے جادو نے ان دشمنوں سے بھی اردو کے دوست پیدا کر دیئے اور آج بھی ہندوستان میں اردو اپنے مہک پھیلا رہی ہے اس کے علاوہ اردو کہ وہ دوست جو شروع ہی سے اردو کہ اسیر تھے انہوں نے اردو کی ترقی میں ان کا ساتھ دیا اس میں کوئی شک نہیں کے حالی، مولوی عبدالحق ،سرسید احمد خان اور نہ جانے کتنوں نے اردو کی بقا کے لیے اپنے تن کی با زی لگائی اور اس کے بعد اردو کو وہ درجہ دیا گیا جو کہ اس کا حق تھا-

پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کے ارشادات کے مطابق اردو کو قومی زبان بنایا قائد اعظم محمد علی جناح نے 21مارچ 1968کو اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا کی پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس پر کوئی عمل نہیں ہوا․․․․․․․․․ اردو کی اہمیت مسلم تھی کیونکہ اردو میں ملکی و قومی زبانیں ہونے کی تمام صلاحیتیں موجود تھی اردو کو کتابوں ،ریڈیو،ٹی وی پر آنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اردو کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ہوتا ہے غیر ملکی بھی اردو کو شوق سے سیکھتے ہے اردو کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی ایک علاقے صوبہ یا کسی ایک گرہ سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ ہی اس کا کسی اور زبان کے ساتھ جھگڑا رہتا ہے -

لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اردو اپنے گھر میں بھی اجنبی سی ہے اپنوں نے ہی اردو کو جینے نہیں دے رہے اپنے ہی اردو کو دفاتر ،سکول،کالج، یونیورسٹیز ودیگر عوامی مقامات پر اردو کو بھول جاتے ہیں ا سکے علاوہ ان بیچاروں پر بھی ظلم ہوتا ہے جو کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بناتے ہے پھر آگے چل کر ان کو نوکریاں نہیں ملتی اور اردو میڈیم کہہ کر ان پر سے روزی کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں -

قوم کے لوگ انگریزی زبان سے اتنے متاثر ہے کہ اردو کے سامنے شرمندگی سے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرتے ہے کہ انہیں ایک غیر ملکی زبان پر عبور حاصل نہیں اردو انگریزی زبان کو بھی اپنا دوست سمجھتی ہے لیکن بحثیت قومی زبان کے دفاتر ودیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ پورے ملک میں اردو کا رائج ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ انگریزی کے بجائے دیگر علاقائی زبانوں کو بھی بھر پور اہمیت دی جائے انہیں اپنے علاقوں میں بنیادی تعلیم کا زریعہ بنایا جائے اور انگریزی کو صرف ایک زبان کی حیثیت سے سیکھا جائے لیکن المیہ تو یہ ہے کہ میرے ملک میں بچہ بولنے کے قابل ہوتا ہے تو والدین اسے انگریزی سکھانے کے لیئے بے چین ہو جاتے ہیں -

امی ابو کی جگہ ممی ڈیڈی کانوں کو ایئر آنکھوں کو آئیز کہلوا کر بڑے شوق سے سب کو سناتے ہیں حالانکہ ممی کسی مردہ لاش کو کہا جاتا ہے جبکہ ڈیڈی ،ڈیڈ سے نکلتا ہے اور ڈیڈ کا مطلب تو سب کو معلوم ہو گا جسے ناکارہ چیز کہتے ہیں ․․․․․․․․․․حالانکہ ان پڑھے لکھے والدین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انگریزی بھی اس وقت تک برتری حاصل نہیں کر سکی جب تک وہاں کے لوگوں نے سوچنا اور تجربہ کرنا شروع نہیں کیا ورنہ ایک زمانہ میں انگریزی کا حال مجھ کم نصیب سے بھیز یارہ برا نہ تھا -

امام غزالی فرماتے ہیں کسی اور کی زبان میں تعلیم آدھی تعلیم ہوتی ہے دنیا میں آج جتنی بھی اقوام نے ترقی کی ہے ان کا ذریعہ تعلیم ان کی اپنی ہی قومی زبان ہوتی ہے ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یے ہے کہ انگریزی کو علم اور کمال کا معیار سمجھ لیا گیا ہے ہم اپنی قومی زبان اردو میں انگلش کی ملاوٹ کرنا حق سمجھتے ہیں مگر یہ حق اور معیار کو ختم کرنا ہو گا بین الاقوامی زبان ہونے کے ناطے انگریزی سیکھنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس کو سر پر اتنا بھی سوار نہیں کرنا چاہیے کہ تعلیمی نظام میں بھی بگاڑ پیدا ہو جائے ․․․․ ․․․․․․․․․․․․․․․․․․ ( زندگی باقی ملاقات باقی)
 

Muhammad Muaaz
About the Author: Muhammad Muaaz Read More Articles by Muhammad Muaaz: 19 Articles with 17244 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.