حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی نیکی اور بدی کا آغاز ہوگیا۔ ابلیس نے
بارگاہ خدا وندی میں مہلت طلب کی کہ وہ تا قیامت بنی نوع انسان کو گمراہ
کرتا رہے گا ۔ رب تعالیٰ نے مہلت دی اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ جو میرا
بندہ ہو گا وہ کبھی تمہاری پیروی نہیں کرے گا۔ اس مہلت کے نتیجے میں دو الگ
الگ رستے وجود پزیر ہوئے ایک رحمٰن کا راستہ اور ایک شیطان کا راستہ۔
اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے صحائف مقدسہ کا
نزول فرمایا اور اس الہامی پیغام کو سمجھانے ، سکھانے اور عملی نمونہ بنا
کر پیش کرنے کے لئے اپنے مقرب بندوں کو منتخب فرمایا اور ان کو نبوت سے
سرفراز فرما یا ۔ ان انبیاء کرام نے رب کا پیغام مخلوق تک پہنچایا اور یہ
سلسلہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰﷺ تک پہنچا ۔ بعثت نبوی کی صورت میں
اس الوہی پیغام کو کاملیت نصیب ہوئی اور رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا(المائدہ:۳)
اختتام سلسلہ نبوت کے بعد تربیت امت کی ذمہ داری اولیاء اﷲ اور صلحاء امت
پر آئی ۔ گوکہ تربیت کا جو سلسلہ نبوت کی شکل میں اختتام پزیر ہوا تھا اس
کو جاری رکھنے کے لئے رب تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو چن لیا۔ یہ اہل اﷲ
دین مبین کی ترویج و اشاعت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور تا قیامت نبھاتے
رہیں گے۔
ان ہی ذمہ داریوں کو لیکر 1930ء میں جسگراں میں ایک ولی کامل کی ولادت ہوئی
۔جس کا نام’’ رحمت اﷲ‘‘ رکھا گیا آپ کے والد کا نام حضرت محمد اکبر ؒ تھا۔
جن کا تعلق زمیندار تنولی قبیلہ سے تھا۔آپ ولی کامل اور درویش خدا مست تھے
۔ آپ قلندرِ دوراں ، مخدوم زماں ،کے القابات سے سرفراز ہوئے ۔حضرت رحمت اﷲ
بابا جی سرکارؒ کو ’’دھنکے والی سرکار ‘‘بھی کہا جاتا ہے اورآپ نے اسی نام
سے شہرت پائی۔
جیسے کہ مخلوق خدا کی بھلائی اہل اﷲ اولین مقصد ہوا کرتا ہے کیونکہ وہ
جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ اپنی مخلوق سے کتنی محبت کرتا ہے ۔ قیام پاکستان کے
وقت باباجی لاہور میں قیام پذیرتھے۔ پاکستان بننے کے ساتھ ہی برصغیر پاک و
ہند میں انسانی ہجرت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ مسلمان مہاجرین کے لٹے
ہوئے قافلے، صعوبتیں برداشت کرتے، بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان کے
مختلف علاقوں میں آ رہے تھے۔ ہندو بلوائیوں نے ایک آفت مچائی ہوئی تھی۔
قبلہ باباجیؒ دیگر نوجوانوں کے ساتھ مل کر ان بلویؤں کے خلاف دفاعی
کاروائیوں میں حصہ لیتے۔ فسادات سے متاثرہ افراد کی ہرممکن مدد کرتے۔ قبلہ
بابا جی نے مہاجرین کی آبادکاری میں ایک نوجوان کی حیثیت سے حتی المقدور
خدمات سرانجام دیں۔
بعد ازاں آپؒ جسگراں تشریف لے آئے ۔حضرت بابا جیؒ نے لوگوں کی فلاح و بہبود
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ دور و نزدیک سے آتے مسافروں کے لئے پانی کی سبیل
لگانا ، راستوں سے رکاوٹیں دور کرنا اور ان کو کشادہ کرنا ، مساجد میں پانی
بھرنا تا کہ آنے والے نمازیوں کو وضو میں دشواری نہ ہو آپ کا معمول تھا ۔آپ
دن بھر مخلوق خدا کو آسانیاں فراہم کرنے کے لئے کوشاں رہتے اور رات رب
تعالیٰ کے حضور ایک عاجز عبد بن کے پیش ہو جاتے، سجدے میں جا کر رب کی عظمت
و بڑھائی کی تسبیحات پڑھتے تو قرب خدا وندی کی منازل طے ہوتی جاتیں۔
حضرت بابا جیؒ نے آنے والے کسی بھی سائل کو کبھی مایوس نہ لوٹایا۔ جو کبھی
بھی اخلاص نیت سے آپ کے پاس حاضر ہوتا آپ اُس کی حاجت روائی کرتے ۔ ہر آنے
والے کو اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے کا درس ضرور دیتے اور یہی اولیاء
کاملین کا طریق ہے ۔وہ کبھی کسی امر کی نسبت اپنی جانب نہیں کرتے وہ ہمیشہ
خود کو ایک عاجز انسان کہتے ہیں اور مخلوق کو خالق سے ملانے کی کوشش میں
مصروف رہتے ہیں۔ اپنے پاس آنے والے ہر شخص کو نماز کی نصیحت لازمی فرماتے
تھے۔ ہر خاص و عام کو اﷲ نبی وارث کی دعاء دینا آپ کا معمول ہوتا تھا۔ بے
شک جس کے وارث اﷲ کریم اور اُس کے نبی علیہ الصلوۃ و السلام ہوں اُسے کوئی
ڈر نہیں ہو سکتا۔
بابا جی سرکارؒ 1967ء میں دھنکہ تشریف لے آئے ۔ اور اسی مقام کو اپنا مسکن
بنایا۔ یہاں سے آپ نے دھنکے والی سرکار کے نام سے شہرت پائی ۔ آپ نے دھنکے
کی ایک پہاڑی کی چوٹی پر اپنا مسکن بنایا اور پھر اسی پر مستقل قیام کیا۔
آپ کے عقیدت مندملک کے طول و عرض میں کثیر تعداد میں موجود تھے۔ ان کی
ہمیشہ خواہش رہی کہ قبلہ باباجیؒ ان کے یہاں تشریف لائیں لیکن آپ نے کسی کے
یہاں جانے کو مناسب نہ سمجھا۔ وقت کے بڑے نوابوں اور جاگیر داروں نے بابا
جی سرکارؒ کو اپنے علاقے میں آنے کی دعوتیں دیں۔ نواب زادہ صلاح الدین سعید
کے والدریاست تناول کے نواب زادہ سعید خان اور ان کے خاندان کے دیگر افراد
کو آپؒ سے خاص عقیدت تھی۔ انہوں نے متعدد مرتبہ نے بابا جی اپنے علاقے میں
آنے کی دعوت دی لیکن سرکارؒ نے اپنے پتھر کے چبوترے کو ہی پسند فرمایا۔اسی
طرح پنجاب سے کئی بڑے زمینداروں خاص طور پر سرگودھا کے رانجھا اور پاکپتن
شریف کے غلام احمد مانیکا خاندان نے آپؒ کو اپنے علاقوں میں رہائش اور زمین
و جائداد تک کی پیشکش کی لیکن آپؒ نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنے مستقر کو
چھوڑنا بے وفائی گردانا۔آپ کبھی کسی کے جاہ وحشمت سے مرعوب نہ ہوئے اور نہ
ہی کسی کا مال و زر کی وجہ سے اُس کی تعظیم کی ۔ ہمیشہ سب انسانوں سے یکساں
سلوک کیا حتیٰ کہ کوئی نواب بھی آپ سے ملنے آیا تو کبھی تعظیم نہ کی ۔
دھنکہ شریف آمد کے ساتھ ہی آپ نے وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں
ایک وسیع و عریض جامع مسجد اور پھر اسی میں ایک اسلامک کمپلیکس بھی تعمیر
کیا گیا جہاں بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے
نبھائی جا رہی ہیں۔ مخلوق خدا کی دین سے رغبت اور تعلیم و تربیت کے ساتھ
اُن کے لئے لنگر کا خصوصی اہتمام کرنا بھی مردان خدا کا شیواہ رہا ہے اس
مقصد کے پیشِ نظر ایک مستقل لنگر بھی موجود ہے جہاں آنے والے ہر خاص و عام
کو لنگر پیش کیا جاتا ہے ۔
حضرت بابا جی سرکار ؒ نے اپنی اس حیاتِ مستعار کو مخلوق خدا کے لئے وقف کیے
رکھا اور شب و روز فقط اﷲ کی خوشنودی کے طلبگار رہے ۔ 21فروری2008ء بروز
جمعرات آپ کو وصال حق کا پیغام آیا ۔ چہرے پر طمانیت کے آثار نمایا ں تھے
رخِ مبارک نور سے جگمگا رہا تھا ۔ آپ نے اپنے صاحبزادے ، حضرت صاحبزادہ عبد
الستار صاحب کو پاس بلایا اور فرمایا’’ہماری ڈیوٹی ختم ہو چکی اور آپ کی
ڈیوٹی شروع ہوگئی‘‘اس کے بعد ذکر الٰہی کرتے آپ کی خالق حقیقی سے جا ملے ۔
دھنکہ شریف میں آپ کی چلہ گاہ پر ہی آپ کی آخری آرام گاہ تعمیر کی گئی۔ جو
مرجع خاص و عام ہے ۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال ماہ صفر میں منعقد کیا جاتا ہے
جس میں ملک بھر سے ہزاروں عقیدت مند شریک ہوتے ہیں ۔
|