ہر شہر کی کوئی نہ کوئی پہچان
ہوتی ہے جیسے کراچی میں سی ویوپوأنٹ ملتان کا سوہان حلوہ سیالکوٹ کے کھیلوں
کا سامان بہت مشہور ہے اسی طرح حیدرآباد کی چوڑیاں بھی بہت مشہور ہیں۔ لیکن
اب یہ صنعت زوال پزیر ہے۔ ویسے چوڑی پر کئی گانے، لوک گیت اور کہانیاں بھی
موجود ہیں۔ حیدرآباد کی چوڑی کوخاص مقام اس کے کانچ کی وجہ سے حاصل ہے۔یہ
کانچ حیدرآباد کے سائٹ ایریا کے کانچ فیکٹریوں میں تیار کیا جاتا ہے۔ چوڑی
میں دو اقسام کے کانچ استعمال ہوتے ہیں ایک کچا کانچ اور دوسرا پکا کانچ
کہلاتا ہے ۔پکے کانچ سے مراد وہ چوڑی ہے جس پر نقش کاری اور کام کندہ ہوتا
ہے۔ پکے کانچ کی چوڑی پرجو کام ہوتے ہیں اُن میں موڑائی،ہاف مینا ،سونا
بائی،چھپائی، ریشم پلائی،ناموالی چوڑی شامل ہیں ۔اور سادہ چوڑی کو کچی چوڑی
کہا جاتا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو ایک چوڑی بہت سے کاریگروں کے ہاتھ سے نکل
کر تیار کی جاتی ہے۔مگر ایک ہی جھٹکے میں ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے۔
کانچ کی چوڑی کے علاوہ سونے،چاندی،دھات ،پلاسٹک،لاکھ،کندن،اور لکڑی کی
چوڑیاں تیار کی جاتی ہیں ۔ چوڑی خواتین کے سنگار میں سے ایک ہے۔ بننا
سنورنا عورت کی فطرت ہے۔ اس سنگار کے لیے چوڑی ایک اہم جزسمجھی جاتی ہے ۔چوڑی
مشرقی خواتین کے ہاتھ کی زینت سمجھی جاتی ہے
حیدرآباد کی چوڑی مارکیٹ تقریباً پچاس سال قدیم ہے لیکن اب اسکی پرُانی
عمارت منہدم کرکے نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ جس میں تقریباًچالیس کے قریب
دکانیں موجودہیں۔ پہلے حیدرآباد کی چوڑیاں پاکستان کے علاوہ ڈھاکہ،انڈیا،
افغانستان ،سعو دی عرب اور دیگر ممالک میں بھی برآمد ہوتی تھی۔ لیکن اب اِس
کا کام صرف حیدرآباد اور ملک کے دیگر چند شہروں تک ہی رہ گیا ہے۔شاہی
بازارا، ریشم گلی اور کوہِ نورپلازہ میں یہ چوڑیاں باآسانی دستیاب ہیں۔
چوڑی مارکیٹ حیدرآباد میں چوڑی پر نام لکھنے والے کاریگرظہیراحمدعرف پپو نے
بتایاکہ اب یہ کام کرنے والے صرف بارہ کاریگرموجود ہیں۔یہ انتہائی کم اجرت
پر کام کرتے ہیں ایک چوڑی پر نام کندہ کرنے کے صرف ۵روپے معاوضہ کماتے ہیں
یہ کام انتہائی گرم آگ پرکیاجاتا ہے۔اس کام سے منسلک ہونے کی وجہ سے بہت سے
گھر یلوخواتین بھی بہتر ذریع معاش کما لیتی تھی لیکن کام میں کمی اورکم
اجرت کے باعث یہ کام ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ایک خاتون بے بی نے بتایا کہ اب
اس کام میں گزرے ہوئے زمانے سی بات نہیں ہم کو ایک توڑے کے صرف بارہ روپے
ملتے ہیں ایک توڑے میں تین سو چوڑیاں ہوتی ہیں لیکن چوڑی کے کام میں کمی نے
یہ روزگار بھی ہم سے چھین لیاہے۔ اب صرف عید تہوار اور شادی بیاہ کے موقع
پر یہ کام ملتاہے۔
صدرچوڑی مارکیٹ شاہد قریشی مہنگائی کو ہی اس کا سب سے بڑا سبب قرار دیتے
ہیں اوربتاتے ہیں کہ خواتین کے تیزی سے بدلتے ہوئے خیالات فیشن اور اسٹائل
میں سے چوڑی کا رواج ختم ہوتا جارہاہے۔آج سے چند سال پہلے تک خواتین اور
بچیاں چوڑی کو ترجح دیتی تھی۔ مگر اب بریسلیٹ،بینڈ،گھڑی،پلاسٹک کے کڑے اور
اسی طرح کی دیگر لوازمات کو ترجح دیتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کانچ کے خام
مال میں ملاوٹ اور بد دیانتی کو اس کا خمیازہ بتاتے ہیں۔ |