بسم اﷲ الرحمن الرحیم
چو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
وحی لغت عرب میں اشارہ، کتابت، مکتوب، رسالت، الہام ،القا کو کہتے ہیں اور
اصطلاح اور عرف میں اُس کلام اور پیام کا نام ہے جو حضرت ربّ العزت کی طرف
سے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہو ہر چند واسطہ، بلاواسطہ کے تفاوت اور
وسائط کے اختلاف سے اُس کی متعدد اقسام ہوں مگر کلام الٰہی ہونے میں سب
شریک ہیں۔ زید کا کلام بلا واسطہ سنو یا بواسطہ ہیلو گراف یا کتاب یا پیغام
زبانی ہر حال میں اُس کو کلام زید کا کہنا درست ہوگا۔ گلستان کوئی پڑھے،
کوئی لکھے کلامِ شیخ ہی سمجھا جائے گا بلکہ صرف مضمون جس کا ہوتا ہے اُسی
کا کلام شمار کیا جاتا ہے الفاظ خواہ دوسرے کے ہوں اگر ہم کوئی مضمون کسی
کو بتلا دیں اور وہ اُس کو زبانی اپنے الفاظ میں یا تحریراً اپنی عبارت میں
بیان کرے اور دوسرے کو پہنچائے تو وہ ہمارا کلام اور ہمارا پیغام ضرور
سمجھا جائے گا، گو دوسری وجہ سے اُس کو دوسرے کی طرف منسوب کرنا بھی غلط نہ
ہو خلاصہ یہ کہ اصل کلام مضمون و معنی ہیں، الفاظ و حروف اُس کے لئے عنوان
اور اُس پر دالّ ہیں۔ اب انشاء اﷲ تعالیٰ یہ بات بھی بسہولت سمجھ میں آجائے
گی کہ قرآن شریف اور احادیث قدسیہ اور دیگر احادیث و اقوال نبویہ علی
صاحبہا الصلوٰة و التسلیم سب کلام الٰہی اور وحی من اﷲ ہیں، عوارض خاصہ اور
بعض احکام میں گو اُن میں باہم امتیاز ہو اور ضرور ہونا چاہئے مگر کلام
الٰہی ہونے میں کوئی خفا نہیں چنانچہ جملہ اکابر کے نزدیک بھی مسلم ہے کہ
احادیث رسول علیہ السلام حتیٰ کہ اُن کا خواب بھی وحی ہی سمجھا جاتا ہے۔
جب وحی کا مفہوم اور اُس کا مصداق اور اُس کے اقسام معلوم اور معین ہوچکے
تو اب اُس کی عظمت اور صداقت میں کون کلام کرسکتا ہے جو دلیل کی حاجت ہو جب
کسی کو حاکم یا سلطان مان لیا جائے تو گنوار سے گنوار بھی اُس کا یہی مطلب
سمجھتا ہے کہ اُس کے احکام واجب التسلیم ہیں، ہاں اگر کوئی سلطان اور حاکم
کے معنی ہی نہ سمجھے یہ دوسری بات ہے۔ یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا کہ کوئی خدا
کا تو قائل ہو اور اُس کے احکام کو واجب التسلیم نہ سمجھے اور بالفرض کوئی
ایسا ہو تو اس کو ایمان کے ساتھ آدمیت سے بھی نکالنا پڑے گا بلکہ نکالنے سے
پہلے خود نکل جائے گا کہ وہ حقیقت میں خدا ہی کا منکر ہے۔ اس کے بعد یہ
التماس ہے کہ وحی کے واجب التسلیم ہونے کے ساتھ یہ امر بھی ضروری اور بدیہی
ہے کہ جملہ ذرائع علم میں وحی کے برابر کوئی نہیں، جہل و خطا و نسیان کا
اُس میں شائبہ تک نہیں، اُس کے مقابلہ میں افلاطون و بقراط کے کلام کو کسی
جاہل کو دن طفل مکتب کے کلام پر ہرگز فوقیت نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کلام
کی عظمت اور اُس کی متابعت، فصاحت و بلاغت، واقعیت و صداقت، تطابقِ حکمت و
مصلحت کا مدار اُس کے متکلم پر ہوتا ہے جس درجہ کا متکلم ہو اُس درجہ کا
کلام و قدر الشہادة قدرالشہود چنانچہ حضرت فخر عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا کہ کلام الٰہی کو تمام مخلوقات کے کلام پر وہی فضیلت حاصل ہے جو
حق جلّ و علیٰ شانہ کی ذات پاک کو تمام مخلوقات پر، کلام الملوک ملوک
الکلام کے قاعدے سے تو کلام الالٰہ الٰہ الکلام کہنا ضرور ہوگا، پھر کلام
الٰہی کے برابر یا اُس سے زائد مخلوقات کا کلام کیسے ہوسکتا ہے بلکہ جیسے
اُس کے مقابلہ میں کسی کی کچھ حقیقت نہیں ایسے ہی اُس کے کلام کے مقابلہ
میں کسی کے کلام کی کچھ حقیقت نہ ہوگی، سقراط اور ارسطو کے کلام کے روبرو
پاگل دیوانہ کے کلام کی جتنی وقعت ہوسکتی ہے ربّ العزت کے کلام مقدس کے
روبرو تمام مخلوقات کے کلام کی اتنی وقعت بھی نہیں ہوسکتی، بالجملہ یہ امر
بدیہی ہے کہ کلام الٰہی کے برابر ہرگز ہرگز کسی کا کلام قابل تسلیم اور
واجب التعمیل نہیں ہوسکتا اور اِس پر کوئی حُجتی بہت سے بہت کہے تو یہ کہہ
سکتا ہے کہ ہم کو وحی الٰہی بلا واسطہ تو پہنچتی نہیں بیچ میں وسائط ضرور
ہیں تاوقتے کہ اُن وسائط کی طرف سے اطمینان تامّ نہ ہو کلام الٰہی ہونے پر
کیسے وثوق ہوسکتا ہے۔ صرف قائل کی صداقت کافی نہیں ہوسکتی اُس کے ساتھ ناقل
کا صادق ہونا بھی ضرور ہے۔ تو وسائط کل دو ہیں ایک وحی لانے والا یعنی
فرشتہ، دوسرے جس پر وحی لے کر آیا یعنی نبی اور رسول، سو ان دونوں فریق کی
صداقت اور عصمت باتفاق اہل عقل و نقل ایسی ظاہر و مُسلّم ہے کہ اصلاً حاجتِ
بیان نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ملائکة الرحمن اور انبیائے کرام مقربین
بارگاہ الٰہی سے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مقرب اور خواص بننے
کے لئے سراپا اطاعت ہونا ضرور ہے اپنے مخالفوں کو اپنی بارگاہ میں کون
گُھسنے دیتا ہے اور مسند قرب پر کون قدم رکھنے دیتا ہے اس لئے ضرور ہے کہ
وہ مقرب جن پر اپنے اسرار اور مافی الضمیر آشکارا کئے جائیں اور منصب سفارت
پر مقرر فرمائے جائیں اور سلسلہ ہدایتِ عالم اُن کے ساتھ وابستہ کیا جائے
اور لایعصون اﷲ ما امرھم اور ماآتکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتھوا
فرما کر حق تعالیٰ نے اس کی صداقت کی کفالت فرمائی ہو، معصوم اور ظاہر و
باطن میں مطیع و فرماں بردار ضرور ہوں گے۔ سو اب ملائکہ اور حضرات انبیاء
کی شان میں کوئی بے ہودہ خیال کرنا ہرگز اُنہیں تلک نہ رہے گا بلکہ اُس کی
نوبت دور تک پہنچے گی۔ علاوہ ازیں حضرات ملائکہ کی طرف سے سوءِظنی تو اتنا
بعید امر ہے کہ عاقل سے متوقع نہیں جو اُن کی اصلیت اور اُن کی حالت سے
مطلع ہوگا جان لے گا کہ اُن میں رذائل کا مادہ ہی نہیں اُن کی طرف کذب کا
خیال ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی ناواقف اُن کی طرف اکل و شرب و توالدوتناسل
کا خیال خام پکانے لگے۔
تحریر:شیخ الہند مولانا محمود حسن |