س۔ اکثر لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ
جب آپ کا باطن یعنی دل صاف ہے تو ظاہر یعنی جسم کو ستر کے بقدر چھپانے کی
کیا ضرورت ہے؟
ج۔ دین اسلام کے احکام روح پر بھی عائد ہوتے ہیں اور جسم پر بھی عائد ہوتے
ہیں ظاہر پر بھی عائد ہوتے ہیں اور باطن پر بھی۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی
تعالیٰ ہے کہ : ظاہر کے گناہ بھی چھوڑ دو اور باطن کے گناہ بھی چھوڑ
دو،(سورہ الانعام ؛١٢٠) یہاں صرف یہ حکم نہیں دیا کہ باطن کے گناہ چھوڑ دو
بلکہ دونوں چیزوں کا حکم فرمایا، یہ تو شیطان کا دھوکہ ہے جو وہ انسانوں کو
ہدایت کی راہ سے بہکانے کے لیے دے رہا ہے۔ لہٰذا ظاہر و باطن دونوں کا درست
کرنا ضروری ہے۔ لباس ہو، کھانا ہو یا آداب معاشرت ہوں اگرچہ ان سب کا تعلق
ظاہر سے ہے لیکن ان سب چیزوں کا گہرا اثر باطن پر واقع ہوتا ہے، اگر یہ بات
نہ ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لباس کے بارے میں کوئی ہدایت
نہ فرماتے کوئی تعلیم نہ دیتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لباس کے
بارے میں بڑی معتدل تعلیمات عطا کی ہیں اس لیے ان اصولوں پر اور ان تعلیمات
پر اہتمام کے ساتھ عمل ضروری ہے۔
س۔ کیا اہل علم یعنی عالم و عالمات پر لازم ہے کہ وہ سادہ زندگی بسر کریں
اور کیا ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی قسم کا فیشنی لباس استعمال کریں؟
ج۔ لباس میں چار درجات ہیں ضرورت، زیبائش، آرائش اور آسائش، یہ چار درجات
جائز ہیں یعنی اہل علم عالم یا عالمہ ان درجات اور لباس کی شرائط کے اندر
رہتے ہوئے فیشن کرے تو اس کے لیے یہ جائز ہے بلکہ اہل علم کو تو اچھا لباس
استعمال کرنا چاہیے کیونکہ ظاہر کا اثر انسان کے دل پر بھی پڑتا ہے اور
حدیث مبارکہ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ جس کو اللہ رب العزت نے توفیق دی تو
وہ اچھا لباس پہن سکتا ہے البتہ نمائش و دکھاوا وہ کسی بھی حال میں کسی کے
لیے بھی جائز نہیں ہے خواہ وہ اہل علم ہو یا عام انسان ہو، اگر کسی کا مقصد
عمدہ لباس پہننے سے یہ ہو کہ لوگ اس کی تعریف کریں تو یہ ناجائز ہے، خلاصہ
یہ ہے کہ اہل علم شریعی حدود کے اندر رہتے ہوئے فیشن کر سکتے ہیں مگر سادہ
زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔ ارشاد نبوی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ، یعنی اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اپنی
نعمت کا اثر اپنے بندوں پر دیکھے، لہٰذا دین اسلام نے انسان کو اچھا اور
عمدہ لباس پہننے سے نہیں روکا بلکہ یہ تعلیم دی ہے کہ صرف چند اہم اور
معمولی باتوں کا لحاظ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور
اس کی ناراضگی سے بچ کر فلاح دارین حاصل کی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہیں کہ
لباس حسب توفیق خریدا جائے، اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کر کے پریشانی میں
نہ پڑا جائے، اس کو حلال ذریعہ سے حاصل کیا جائے اس کا فیشن شریعت کے خلاف
نہ ہو، لباس کو دکھاوے یا نمود و نمائش کی نیت سے استعمال نہ کیا جائے خواہ
لباس قیمتی ہو یا معمولی ہو اور لباس پر ستر ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے
نزدیک وہ ہی لباس اچھا اور سراسر خیر ہے جو خدا ترسی اور پرہیزگاری کے اصول
سے مطابقت رکھتا ہو، ایسے ہر لباس کا استعمال شکر کے ساتھ بلاشبہ قرب الہی
کا وسیلہ ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی رضا و قرب سے نوازیں (آمین)۔ |