اگر آپ سرکاری ملازم ہیں تو آپ
کے سامنے دو ہی راستے ہیں ۔اول یا تو اصول پال کر اپنے نصیب کو روزانہ خود
ہروانے کا فن ٹھیک اسی طرح سیکھ لیں جیسا کہ ہماری قومی ٹیم نے نہ صرف
سیکھا ہوا ہے بلکہ حد درجہ ایکسپرٹ بھی ہو چکی ہے۔دوسرا راستہ سکھ ،راحت
اور ترقی کا ہے۔بات ابھی کچھ الجھی ہوئی ہے۔کچھ باتیں کلیئر لکھ دینے سے آپ
پر منٹو کی طرح تہذ یب سے ناآشنا ہونے کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔صاف صاف نہ
یہاں کوئی پڑھنا پسند کرتا ہے۔نہ ہی کوئی لکھنا پسند کرتا ہے۔جھوٹ کا جہان
ہے ۔آپ یقینا ٹھیک سوچ رہے ہیں میں خوشامد کے بارے ہی میں کچھ لکھنا چاہ
رہا ہوں۔یہ ٹاپک اتنا خشک ہے کہ قلم بار بار سلپ ہو جاتا ہے۔اس لچھے دار
لفظ کو لکھنے کے ساتھ ہی کئی درباری قسم کے دوست میرے ذہن کے گوشوں میں سر
اٹھانے لگے ہیں۔کچھ تو باقاعدہ مجھے یہ تحریر لکھنے سے روک بھی رہے
ہیں۔چیزوں نے موجودہ صدی میں بلاشبہ بے تحاشہ ترقی کی ہے۔دنیا نے سائنس و
علوم میں ترقی کی ہے ہم نے بحثیت قوم خوشامد کے میدان میں ترقی کی ہے۔چیزوں
کو ہم نے پہلے اسٹیپ میں خوشامد اور احترام کے درمیان امتیازی لائن کھینچ
کر الجھایا ۔اگر ہم کسی کی نظروں کا التفات حاصل کرنے کی کوشش میں مگن ہیں
یا ہم کسی سینئر کا دل لبھانے کے لئے لچھے دار حرکتیں کر رہے ہیں تو یہ
قطعی خوشامد کے زمرے میں نہیں آتا ۔خدا غارت کرے ایسے لوگوں کو جو ہماری دل
موہ لینے والی حرکات کو خوشامدانہ حربوں سے تعبیر کر رہے ہیں۔یہ جاہل کیا
جانیں کہ ادب و احترام آج کی مہذب دنیا میں کس قدر نایاب ہو چکا ہے۔ایسے
موقع پر اسلام کا سہار نہ ا لینا بھی بیوقوفی ہو گی۔اسلام نے بھی عمر رسیدہ
بزرگ نما باسز کے ساتھ پیار اور احترام کے ساتھ پیش آنے کا حکم دے رکھا
ہے۔ہمارے سینئرز کا بھی دور و قریب سے یہی نظریہ ہے کہ ہماری تمام حرکات
احترام کا مظہر ہیں با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب۔اس احترام کے لبادے میں
لپٹی خوشامد کے بدلے میں اگر وہ کچھ ٹافی نما مفادات ہماری جھولی میں ڈال
دیتے ہیں تو یہ ہماری خدمت کا ثمر ہے۔اور دعا ہے کہ اس ثمر کو کسی قسم کی
نظر بد نہ لگے یہ تو تھی تعریف ادب واحترام کی۔ اب تصویر کا دوسرا بھیانک
رخ بھی دیکھئے۔اگر ہمارا کوئی کولیگ یا جونیئر سبقت لے جاتے ہوئے بڑوں کے
ادب واحترام میں ہر حد عبور کر جانے پر تلا ہو تو ہمیں ایک آنکھ نہیں
بھاتا۔ہم فورا لغت کی ڈکشنری کھولتے ہیں اور اس کی مذموم حرکات کے لئے
مناسب الفاظ ڈھونڈنے لگتے ہیں ۔خوشامد تو ایسے نامراد لوگوں کے لئے بہت
ہلکا پھلکا سا لفظ ہے۔لغت کی وادی میں بھٹکتے ہوئے ہم بے ضمیر کا لفظ ڈھونڈ
نکالتے ہیں۔یہ لفظ کچھ مناسب اور موقع بر محل محسوس ہوتا ہے۔ ہم ہر مجلس
میں اپنے رقیب کے خلاف اپنے دل کا غبار اس لفظ کے بے دریغ استعمال سے
نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔کچھ دن تک تو اس لفظ کا کثیر استعمال دلی سرور
دیتا ہے۔اگر ہمارا ہدف تڑپتا چیختا چلاتا ہمارے پاس آن پہنچے اپنی شہرت کو
بٹا لگانے کا الزام ہم پر لگائے تو ہمیں مطلوبہ اہداف حاصل کر لینے پر دلی
مسرت و شادمانی ہوتی ہے۔ہم اسے اوقات یاد دلاتے ہیں۔اس کی حرکات کی نشاندہی
کر کے رہے سہے القابات سے بھی نواز دیتے ہیں۔ہمارے اس ایکشن کے دو ری ایکشن
متوقع ہوتے ہیں ۔یا تو وہ صاحب کھلم کھلا ادب و نیاز ترک کر کے خلوت میں
کاروائی ڈالنے لگ جاتے ہیں یا پھر وہ سب کی جلن اگنور کر کے پاکستانی
ہیروئنوں کی طرح بیباکی سے برہنہ خوشامد پر اتر آتے ہیں۔ہمارے پاس پھر سے
اردو لغت میں سر جھونکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ان صاحب کی طرح
جذبہ رقابت سے مغلوب ہو کر ہم بھی حد سے گذر جاتے ہیں اور ایسے ایسے
القابات سے نوازنے لگتے ہیں جن کا کا احاطہ کرنا مناسب نہیں۔ایپل پالشر کا
مطلب جو گوگل میں سرچ کیا تو یقین مانئے ہنسی چھوٹ گئی۔گوروں کے بچے
استادوں کو خوش کرنے اور ان کا منظور نظر بننے کے لئے لال چمکتے سیب ان کو
گفٹ کرتے تھے۔ وہیں سے یہ لفظ زبان زد عام ہوا۔ویسے مندرجہ بالادو کے علاوہ
تیسری قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کا تمام فوکس کام پر ہوتا ہے۔ان کے
پاس سے باس تو کیا اوبامہ بھی گذر جائے یہ محض اپنے کام سے کام رکھنے میں
مگن رہتے ہیں ۔ان کے لئے باسز بالعموم بدتمیز کا لفظ استعمال کر کے خوشی
محسوس کرتے ہیں۔یہ وقت بے وقت ڈائمنڈ مارکیٹ کی گرلز کے طرز پر باسز کو
جھوٹی سمائلز پاس کر کے جبڑے تھکانے کے دردسے آزاد ہوتے ہیں۔یہ اپنا دال
ساگ اپنی ٹیبل پر کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔جھک کر کمر دوہری کر کے سلام کرنے
کے فن سے بھی نابلد ہوتے ہیں۔یہ کورنش بجا لانا نہ سیکھنا چاہتے ہیں نہ
سیکھ پاتے ہیں ۔لوگوں کو جھک کر رفعتیں حاصل کرتے دیکھ کر ان کو بھی وقتی
ابال چڑھتا ہے یہ بھی خودی بلند کرنا ترک کر کے ایپل پالشنگ کی کوشش میں
لگتے ہیں۔یہ ٹھیک اسی طرح ناکام و نامراد لوٹتے ہیں جیسا کہ ہمارے حکام اکژ
امریکا کے دوروں سے بے نیل ومرام منہ لٹکائے واپس آتے ہیں۔ان کا اصولوں کے
پاتھ سے ڈیٹریک ہونا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کہ شیر کچھ دن اپنی جبلت چھوڑ کر
کتے جیسی حرکات اپنا لے۔جلد ہی یہ واپس ٹریک پر لوٹ آتے ہیں۔خدا سے توبہ
تائب ہوتے ہیں دوبارہ اسی کو اپنا خالق و رازق مان کر اپنے کام سے لو لگا
کر دل کا چین پاتے ہیں۔وقت سے پہلے اور نصیب سے زیادہ کسی کو کچھ نہیں
ملتا۔خوشامد کا مکروہ کھیل اسکولوں کالجز سے لے کر سرکاری و پرائیوٹ دفاتر
اداروں سے ہوتا ہوا اقتدار کے ایوانوں تک دن رات جاری رہتا ہے۔خوشامدی
افراد کی کی فہرست میں حالیہ ایک اور کیٹیگری کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔یہ
لوگ اخلاق سے گرے لطائف کا سہارا لے کر عمر رسیدہ باسز کو دن رات جذباتی
ہیجان میں مبتلا رکھ کر منظور نظر بنے رہتے ہیں۔اس سلسلے میں whatsapp نے
ان کی بھرپور مدد کی ہے۔ان کی سالانہ انکریمنٹ اور پروموشن میں ان کی بھیجی
ہوئی ہوشربا ویڈیوز بھر پور کردار ادا کرتی ہیں۔یہ اپنے اس مکروہ دھندے کو
job tact کا نام دیتے ہیں۔آپ اگر مجھے غلط سمجھ رہے ہیں یہ سوچ رہے ہیں کہ
میں احترام بزرگاں سے ناواقف ہوں تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آج
تک آپ نے اپنے دفتر میں ،سڑک پر کراسنگ کرتے ہوئے اپنے باس کے عمر میں ہم
پلہ کتنے بزرگوں کی ہیلپ کی ہے۔اگر آپ کو ٹوٹی پھوٹی پنجابی بولتا باس
سیکسپیئر نہ صرف محسوس ہوتا ہے بلکہ فرط جذبات میں آپ اسے چارلس ڈکن ثانی
قرار بھی دے دیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ فٹ پاتھ پر کھڑا عمر رسیدہ کنپٹی پر
سفید بالوں کی جھالر والا بوڑھا فقیر آپ کو سقراط کیوں محسوس نہیں ہو
پاتا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں سقراط او ر شیکسپیئر کا فرق بھی نہیں معلوم
۔باقی کہانی پھر سہی۔ |