تابوت میں لاش (پہلی قسط)

"خوش آمدید کرنل فریدی "
ایک اور لاش،وہی تابوت لاش کی وہی کریہہ حالت، وہی نامعلوم شاطر قاتل مگر اس بار تفتیش دنیاکے مشہور سراخ رساں کرنل فریدی کے ہاتھ میں۔ساگا لینڈ کے جدید ترین ائیرپورٹ کے دوسرے فلور پر رن وے پہ کھڑے ایک مسافر طیارے کے اندر ایک تابوت کی اطلاع نے پورے ائیر پورٹ کے عملے اور دیگرمسافروں کو خوف میں مبتلا کردیا تھا۔کوئی دیدہ دلیری سے طیارے کے بزنس کلاس میں پچھلی سیٹوں کے درمیان ایک لاش کو تابوت میں رکھ کرخود غائب ہوگیا تھا۔قاتل جو کوئی بھی تھا چالاک اور بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیات کے علم میں بھی مکمل عبوررکھتا تھا۔

یہ اب تک کی تابوت میں پانچویں لاش تھی اور مقامی پولیس کا سربراہ مہان سنگھ جوکرنل فریدی کابہترین دوست تھا، جس کے ذمے ساگالینڈ کے درالحکومت مغل آبادکے امن وامان کی مکمل ذمہ داری تھی۔اس نے چوتھی لاش کے بعد ہاتھ کھڑے کردیئے تھے اور کرنل فریدی سے مدد طلب کرلی تھی۔لاش کی حالت دیکھ کر ہی قے آنے لگ جاتی تھی۔لیکن اگراسی طرح ہر پولیس والے کو قے آنے لگ جائے تو پھر پولیس کا سارا سسٹم ہی ٹھپ ہوجائے۔ہاتھ کھڑے کرنے کی بنیادی وجہ تمام لاشوں کا گمنام ہوناتھا۔کسی کے بارے میں تھوڑی سی بھی معلومات نہیں ملی تھیں کہ وہ لاشیں کن کی ہیں اور اس پر مجرم کی دیدہ دلیری کہ وہ ہر لاش باقاعدہ تابوت میں سجاکر کسی نہ کسی پبلک ایریا میں رکھ کرچلا جاتاتھا۔پولیس کے ریکارڈ میں پہلی چار لاشوں کا ریکارڈ موجود نہیں تھا۔اخبارات اور میڈیا میں باقاعدہ اشتہارات بھی چلائے گئے تھے مگر کسی نے بھی پولیس سے ان لاشوں کے حوالے سے رابطے نہیں کئے تھے۔ یا تو قاتل کا خوف تھایالاشیں اس قدر بگاڑ دی گئی تھیں کہ انکی شناخت میں دقت ہوتی تھی۔اشتہارات کے علاوہ خود میڈیا سنسنی پھیلانے میں پیش پیش تھا جس سے خود ہی تمام واقعات کی تشہرہوجاتی تھی۔

پہلی برہنہ لاش جس کے سارے جسم پر کلہاڑے سے کٹ لگا کراسے تابوت میں سجاکرمقامی بچوں کے ہائی اسکول کے مین گیٹ پر رکھاگیاتھا۔قریب کے تھانے میں اطلاع دی گئی تو انسپکٹرنے آکر لاش دیکھی۔ابتدائی رسمی تفتیش کے بعد وہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ اخذنہ کرسکا کیونکہ کسی نے بھی تابوت کو لاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔جس سے واقعے کی سنسنی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ہسپتال سے پوسٹ مارٹم کروایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ ایک چالیس پینتالیس سال کا مرد تھا جسے گزشتہ ہفتے بجلی کے جسمانی کرنٹ دیئے گئے۔بعد ازاں وہ زندہ تھا کہ جب مسلسل کلہاڑے کے کٹ نہایت سفاکی سے اس کے پورے جسم پر لگائے گئے۔اس کے بعداسے گلاگھونٹ کر ماردیاگیا اور لاش ہفتے بعد مل رہی تھی۔کیساظالم اور بھیڑیا صفت قاتل تھا۔

ابھی اس تابوت اور لاش کو دو دن نہیں گزرے تھے اور پولیس قاتل کا سراغ بھی نہیں لگا سکی تھی کہ دوسرا تابوت اور پھراس میں موجود بھیانک لاش حیرت انگیز طور پر مغل آباد کے ایک اور علاقے کے مشہورروہت بینک میں ایک بڑے سے لاکر کے اندر سے برآمد ہوئی۔اتفاق سے کرائم رپوٹر انور اور رشیدہ اپنا ایک مشترکہ بینک اکاؤنٹ کھلاوانے کے لئے روہت بینک میں موجود تھے۔بینک کا منیجراور انور دونوں کلاس فیلو تھے لحاظہ اس اعتبار سے بہترین دوست تھے۔اسی بینک منیجرکے بے حد اصرارپر انور رشیدہ کو اس دن بینک لے آیاتھا تاکہ مشترکہ بینک اکاؤنٹ کھلواسکے۔اکاونٹ کے علاوہ رشیدہ نے اپنامہنگا سونے کا سیٹ بینک لاکر میں رکھوانا تھا۔ اس کے مطالبے پر اسے بینک منیجرنے الاٹ کردیا،اس کی چابی لیتے ہی وہ اٹھ کر بڑے لاکرز والی سائیڈ پر آگئی۔ اس کا لاکر دوسو چوبیس تھا۔یہاں بینک لاکرز عام سائز سے زیادہ چوڑے اور لمبے ہوتے تھے۔چابی گھوماتے ہی جوں ہی اس نے اپنے لاکر کھولا تو وہ ایک تابوت کو دیکھ کر چونک گئی۔اپنے تجسس کو مٹانے کے لئے اس نے تابوت نیچے اتار لیا اور پھر جوں ہی اسے کھولا اسے کسی کی مکروہ برہنہ لاش نظرآئی۔وہ کوئی معمولی عورت نہیں تھی کہ لاش دیکھ کر ڈر جاتی اور چیخ مار کربے ہوش ہوجاتی۔ وہ بڑی نڈر اور بے خوف عورت تھی، تنہاہی مجرموں کی ٹھکائی لگانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھی۔ ایک وقت تھا جب وہ ایک پراسرار جزیرے کی ملکہ رہ چکی تھی اور انور کی خاطر وہ ملکہ کا عہدہ اور اپنا آبائی جزیرہ چھوڑ کرساگالینڈ میں آکر بس گئی تھی۔اس نے تابوت اور لاش کی اطلاع بینک انتظامیہ اور انور کودی۔انور کرائم رپوٹرہونے کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ جاسوس بھی تھا۔ایسے موقوں پراکثراسکی سراغ رسانی کی رگ پھڑک جاتی تھی اور وہ خود ہی تفتیش کرنا شروع کردیتا تھا۔

سب لوگ دوڑتے ہوئے لاش کے پاس آئے،انور مختلف زاویوں سے لاش کا معائنہ کرنے لگا۔اسے دو دن قبل ہی اسی قسم کی لاش اور تابوت کی ایک چھوٹی سی خبرایک چینل پر پٹی کی صورت میں ملی تھی۔ جس میں لاش کے حوالے سے چیدہ چیدہ باتیں لکھی تھیں۔مگر چونکے خبر چھوٹی تھی اس لئے میڈیا نے اس کی زیادہ کورج نہیں کی تھی۔لاش میں سے شدید بدبو اٹھ رہی تھی اور لاش کو بالکل اسی طر ح سے کلہاڑے سے کٹ لگا کرتابوت میں رکھا ہوا تھا۔وہاں کسی عام آدمی کے لئے دو پل کھڑا رہنا محال تھا۔سب لو گ منہ پر رومال اور ٹشوپیپر رکھے لاش کو دیکھتے ہی بری بری شکلیں بناتے ہوئے اِدھر اُدھر ہونے لگے۔مگر اس معاملے میں بینک کا منیجر کافی مضبوط اعصاب کا مالک لگا تا تھا۔ وہ گہرے سبز رنگ کا رومال نکالے اسے اپنی ناک پرسجائے وہیں پر کھڑا رہا۔ تابوت اور اس میں لاش کی موجود گی کئی سوالات کو جنم دیتی تھی اور چند اشارے بھی دیتی تھی کہ ضرور اس میں بینک کے اپنے ہی لوگ ملوث ہونگے۔ اگر وہ نہیں تو اس میں بینک کے گارڈز ملوث ہوسکتے تھے۔ کوئی نہ کوئی بینک کا اپنابندہ ضرورقاتل کے ساتھ شامل تھا۔جب انور نے اس نکتے کو ذہن میں رکھ سب سے مختلف سوالات کئے تو اس کی توقع کے عین مطابق سب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

خیر اس نے اپنی جیب سے موبائل فون نکاتے ہوئے لاش کی دو تین فوٹوزاتار کرتابوت کا کور بند کردیا۔پھر تابوت کی مختلف زاویوں سے فوٹو نکالیں اور اس کے بعد اس نے انہیں مقامی تھانے کے انسپکٹر اور اپنے چینل کو ضروری معلومات کے ساتھ ایم ایم ایس کردیں۔بس یہی وہ دن تھاجب میڈیا نے یہ خبر اٹھا کر مغل آباد کی پولیس آئی جی مہان سنگھ کولتاڑناشروع کردیا۔میڈیا کاموقف یہ تھا کہ شہری اپنے آپ کو شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کے آگے بے بس سمجھ رہے ہیں،پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہے اور قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔آئی جی پولیس اپنی ڈیوٹی دینے میں بری طرح سے ناکام رہے ہیں۔لحاظہ انہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ان کی جگہ کسی اور کو آئی جی ہوناچاہیے جو آکر پولیس کا پورا نظام دیکھے اور شہریوں کو جس بری طرح سے قتل کیا جارہا ہے اس کاکچھ نہ کچھ سدباب ضرور ہونا چاہیے۔اگر اسی طرح ہی شہری مرتے رہے تو مغل آباد کاتو پھر اوپر والا ہی حافظ ہے۔

تیسری لاش مغل آباد کے مشہورومعروف جیک اینڈجِل شاپنگ مال کی پانچویں منزل پرایک دکاندارکو اس وقت ملی جب وہ اپنی دکان پر ایک شوکیس سے کپڑا ہٹارہاتھا تو اچانک ایک تابوت دھڑام سے نیچے گرا اور اس میں سے ایک گندی بدبودار اور برہنہ لاش نکل کرقالین پر ڈھیر ہوگئی۔دکاندار تو اس کی تاب لائے بغیر وہیں پر گر کربے ہوش ہوگیا۔آس پاس سے لوگ اور دکاندار اکھٹے ہوگئے انہوں نے مقامی پولیس کو فون کیا۔پھراس کے بعدبے ہوش دکاندار کو اٹھا کر اسے ہوش میں لانے کرلئے جڑگئے۔کسی نے برہنہ لاش پر ایک کپڑا لاکرڈال دیا۔پولیس سے پہلے میڈیا والے آگئے،کیونکہ یہ مشہور و معروف شاپنگ مال تھا اور یہاں پر ملک کی کئی اہم شخصیات آکر شاپنگ کیا کرتی تھیں۔میڈیا نے پھرآئی جی پولیس مہان سنگھ کی دھلائی شروع کردی۔

مہان سنگھ کو مجبوراًدارلحکومت مغل آباد کے تمام سینئرپولیس آفیسرز کی ایک اہم میٹنگ کال کرناپڑی اور اس میٹنگ میں پولیس کے محکمے کے حوالے سے کئی اہم فیصلے کئے گئے اور قاتل کو پکڑنے کے لئے اس نے مغل آباد کے سب قابل آفیسرز کی ایک خصوصی ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا جس کی سربراہی براہ راست خود اس نے اپنے ذمے لے لی۔

ابھی میٹنگ جاری تھی کہ میڈیا نے ایک اورتابوت اور اس میں ملنے والی ایک اور لاش کا واویلا مچادیا۔اس بار لاش ساگالینڈ کی سب سے بڑی ٹرین" ساگالینڈ ایکسپریس" کے بزنس کلاس جس میں ملک کے سب سے بڑے بیوروکریٹس،سیاست دان،بزنس مین اور دیگر اہم غیر ملکی شخصیات سفر کرتی تھیں۔اس کا واش روم جو انتہائی حیرت انگیز طوراندر سے بند تھا۔کئی گھنٹے گزرنے کے بعد تک بھی جب واش روم کا دروزاہ نہ کھلا تو ٹرین کے عملے کو تشویش ہوئی۔کئی دفعہ دروازے کو پیٹنے کے بعد بھی اندر سے کوئی جواب موصول نہ ہوا تو انہوں نے دروازے کو توڑ کرجب اندر قدم رکھا تو انہیں یہ جان کر انتہائی حیرت ہوئی کہ اندر وہی تابوت موجود تھا جو اس سے قبل تین وارداتوں میں ا ستعمال ہوچکا تھا۔جوواش روم کی ایک دیوار سے لگاکرکھڑا گیا تھا۔اس کے شیشے میں واضح کسی کی لاش نظرآرہی تھی۔جب اسے اتار کر کھولا گیا تو ویسی ہی ایک برہنہ لاش جس کے جسم پر لاتعداد کٹ کے نشان تھے برآمد ہوئی۔

سب کو یہی حیرت تھی کہ ایک مردہ انسان نے خود کوکیسے واش روم کادروازہ بند کرکے تابوت میں بند کرلیا۔ یہاں پر ایک روشن دان جس پر لوہے کی جالیاں لگی ہوئی تھیں اور اس کے علاوہ ایک ایگزاسٹ فین لگا ہواتھا۔روشن دان میں سے ایک انسان گزر تو سکتا تھا مگر وہ لوہے کی مضبوط جالیوں سے بند تھا۔پھر آخر یہ تابوت اندر کیسے آیا۔اتنی دیر میں میڈیا والے وہاں پہنچ گئے اور مہان سنگھ کو پھر وہی لعن طعن شروع ہوگئی۔
مہان سنگھ میٹنگ درمیان میں چھوڑ کر موقعہ واردات پر پہنچ گیا۔اس نے اپنی سربراہی میں تابوت دیکھ کر اس کی خوب اچھی طر ح جانچ پڑتال کے بعد پھر اسے پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوادیا۔بعدازاں اس نے میڈیا کے سخت سوالوں کا سامنا نہایت خندہ پیشانی سے کیا اور پھر اس نے میڈیا کے توسط سے صدر صاحب سے اپیل کی کہ وہ یہ کیس کرنل فریدی کودے دیں۔کیونکہ شہریوں کے تحفظ میں فی الحال وہ اور ان کا ادارہ ناکام رہا ہے۔یہ واقعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی سنگین تھے۔

اسی شام اس نے کرنل فریدی کوخود ہی فون کردیااور کیس لینے کی باقاعدہ درخواست کردی۔

درخواست اس لیئے کہ اس ملک میں طاقت ور ترین اشخاص میں صدرصاحب کے بعد کرنل فریدی کا نمبر آتاتھا اور بعض کاتو یہ بھی خیال تھا کہ وہ صدر صاحب سے بھی زیادہ پاورفل ہے۔کیس لینے کے لئے صرف اسے صدر صاحب ہی کہہ سکتے تھے اور اگر کرنل فریدی چاہتا تو وہ صدر صاحب کی درخواست بھی مسترد کردیتا۔تو اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا کہ اس نے کیوں انکار کیا۔یہاں کا میڈیا بھی کرنل فریدی کی بہت عزت کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کرنل فریدی نے ساگالینڈ کے لئے اتنی خدمات دی تھیں کہ اس ملک کے لوگ اسے دیوتا کا درجہ دیتے تھے۔اس کے ایک اشارے پر پورے ملک کی حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی تھی۔اس کے علاوہ کرنل فریدی او رکیپٹن حمید کو بے تحاشہ سرکاری اعزازت سے نوازہ گیاتھا۔ درجنوں فوجی اعزازت اور میڈلز بھی اس کے پاس تھے۔کئی دفعہ اسے خصوصی گارڈ آف آنر بھی دیا جاچکاتھا۔

مہان سنگھ کی کال پر تو اس نے اسے کہاکہ وہ سوچ کر بتائے گا مگر پھر کچھ دیر بعدہاٹ لائن پر صدر صاحب کی کال کے بعد اسے وہ کیس لینے کی حامی بھرنی پڑی۔فریدی ان دنوں اپنی کوٹھی پر پرائیویٹ طور پر بلیک فورس کے پورے سیٹ اَپ کے ساتھ رہتا تھا۔چونکہ پولیس کے لئے کام چھوڑے اسے کافی عرصہ گزرگیا تھا۔اس لئے وہ حکومت کے کہنے پر کبھی کبھی کام کردیا کرتاتھا۔

یہ کیس بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی سنسنی خیزثابت ہورہا تھا اوراب کرنل فریدی کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کاپورا موقع مل رہا تھاتو اس نے کیس لینے کی حامی بھرلی۔ کرنل فریدی نے صدر صاحب کی کال کے بعد آئی جی پولیس مہان سنگھ کو کال کرکے کیس کی تمام تفصیلات طلب کرلیں۔میڈیا پر اس نے اس کیس کی بنیادی باتیں تو سن لیں تھیں جس سے اسے کیس کی نوعیت کا کافی اندازہ ہوچکاتھا۔

فریدی کی یہ حرکت حمید کو بہت بری لگی تھی۔

" ہم اچھے بھلے پرسکون بیٹھے تھے کہ آپ نے یہ نئی مصیبت گلے ڈال لی۔اب کیس حل نہ ہواتو ساری مہان سنگھ کی گالیاں ہمارے کھاتے میں پڑیں گے۔"حمید نے منہ بناتے ہوئے کہا تھا تو اس کے اس تبصرے پر فریدی محض مسکرا کر خاموش ہوگیا تھا۔

وہ دن گذرا کہ آج پھر ایک اور تابوت ملنے کی اطلاع کرنل فریدی کو ملی تو وہ حمید کو لیکر ایک نئی لوکیشن پر پہنچ گیا۔آج موسم بہت روٹھا ہوا تھا اور صبح منہ اندھیرے ہی اس نے اپنے غصے کا بھرپوراظہار کیاتھا۔شدید بارش میں اولے بھی پڑے تھے۔جبکہ اب بارش ختم ہوگئی تھی مگر آسمان پر بادل تاحال موجود تھے۔

ایک اور لاش،وہی تابوت لاش کی وہی کریہہ حالت، وہی نامعلوم شاطر قاتل مگر اس بار تفتیش دنیاکے مشہور سراخ رساں کرنل فریدی کے ہاتھ میں۔ساگا لینڈ کے جدید ترین ائیرپورٹ کے دوسرے فلورکے رن وے پہ کھڑے ایک مسافر طیارے کے اندر ایک تابوت کی اطلاع نے پورے ائیر پورٹ کے عملے اور دیگرمسافروں کو خوف میں مبتلا کردیا تھا۔کوئی دیدہ دلیری سے طیارے کے بزنس کلاس میں پچھلی سیٹوں کے درمیان ایک لاش کو تابوت میں رکھ کرخود غائب ہوگیا تھا۔قاتل جو کوئی بھی تھا چالاک اور بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیات کے علم میں بھی مکمل عبوررکھتا تھا۔

یہ ایک انٹرنیشنل ایکریمیا سے آنے والی فلائٹ تھی جس میں ایک غیر ملکی کونہایت سفاکی سے قتل کرکے اس کی لاش اسی طر ح تابوت میں بند کرکے رکھی گئی تھی۔ائیرپورٹ پر کرنل فریدی کی آمد پرفوج طلب کرکے اسکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی تھی۔ائیرپورٹ کا پورا عملہ کرنا فریدی کے آگے پیچھے دوڑرہاتھا۔

وہ جہاں سے گزرتا تھاتمام گارڈز ایک ساتھ اپنے بھاری بوٹوں سے اسے سلیوٹ کرتے تھے۔کرنل فریدی نہایت پروقار انداز میں ان کو جو سر کی ہلکی سی جنبش د ے کر جواب دیتا تھا۔وہ اس وقت گرے رنگ کے ایک بہترین تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا اور نہایت ہی دلکش لگ رہاتھا۔

کرنل فریدی کی مشاق آنکھیں بہت گہری نظروں سے پورے ائیرپورٹ کا جائزہ لے رہی تھیں۔اس کے بارے میں مشہورتھا کہ وہ موقعہ واردات دیکھ کر قاتل کی پوری جنم کنڈلی نکال لیتا تھا۔خیر طیارے پر پہنچنے کے بعد اس نے سفید رنگ کے دستانے نکال کرپہن لئے تھے۔حمید نے بھی اسکی پیروی کی۔تابوت کا کور ہٹاکر اس نے لاش کا جائزہ لینا شروع کردیا۔وہ ایک پچاس سال کا نامعلوم ایکریمی تھا۔اس نے لاش کو پلٹ کر دیکھا تو اسے ایک کاغذ کا پرزہ مل گیا جس پر ایک سیاہ نیولابناہواتھا اور اس پر ایک تحریر لکھی ہوئی تھی۔

"خوش آمدید کرنل فریدی۔۔۔۔۔اس خونی کھیل کو روک سکو تو روک لو۔۔۔۔" یہ تحریر کمپیوٹر کی مدد سے ٹائپ کرکے لکھی گئی تھی۔لحاظہ اس سے تو کوئی سراغ ملنا مشکل تھا مگر اسے پڑھتے ہی کرنل فریدی کی آنکھوں میں تیز چمک ابھر آئی تھی۔اس نے پلٹ کر اسے غورسے ایک بار دیکھا اور پھر حمید کو پڑھوانے کے بعد انتہائی تحمل سے اسے جیب میں رکھ لیا۔اس نے لاش کو دیکھنے کے بعد بلیک فورس کے ایک دو نقاب پوشوں کو بلاکر وہاں سے لاش اُٹھوالی۔اس کے بعد میڈیا کے نمائندوں نے اسے اور کیپٹن حمید کو گھیرلیا۔

" سر آپ کے خیال میں ان لاشوں کے پیچھے کو ن سا سیریل کلر ہے؟اور کیا آپ اور آپ کی بلیک فورس اسے پردے کے پیچھے سے نکال پائیں گے؟"

"دیکھیں مجھے یہ کیس ابھی کل ہی باضابطہ طورپر ملاہے۔مجھے اپنے خداپر پورا بھروسہ ہے کہ انشااللہ جلد ہی قاتل بے نقاب ہوگا۔"

"سرتوپھر آپ ہمیں اس وقت کون سی بریکنگ نیوز دے رہے ہیں۔۔۔"

"اب تک کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ ہے کہ کیس اب کرنل فریدی کے ہاتھ میں آگیا ہے۔۔۔"کرنل فریدی نے مسکراتے ہوئے کہا اور جیب سے سیاہ چشمہ نکال کر آنکھوں پر لگا یا لیا اور وہاں سے تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا نہایت ہی پروقار انداز میں چلاگیا۔کیونکہ واقعی یہی سب سے بڑی بریکنگ نیوز تھی،کرنل فریدی کا تو نام ہی کافی تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61894 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More