’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟؟‘‘ میں نے بہ مشکل
آواز نکالی۔ ہم ریل گاڑی کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ ویرانے کی طرف بڑھ رہے تھے۔
جہاں کوئی آبادی نہیں ہوتی۔
وہ بالکل چپ رہا۔ جیسے بتانا ہی نہ چاہتا ہو کہ مجھے کہاں لے کر جا رہا ہے۔
’’یہ لو‘‘ ۔اس نے مجھے ایک چوئنگ گم نکال کر دی۔ جو میں نے اپنے دائیں ہاتھ
سے لے لی۔
’’ چھوڑو…… میں چوئنگ گم کھا لوں!‘‘ میں نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔ چوئنگ
گم کا ریپر کھولنے کے لئے اس کا میرا ہاتھ چھوڑنا ضروری تھا۔ میں نے اپنا
بائیاں ہاتھ جھڑانے کی کوشش کی۔ مگر اس نے اسے اور مضبوطی سے پکڑ لیا کہ
کہیں میں فوراََ ہاتھ جھڑا کر بھاگ نہ جاؤں۔
’’چھوڑو میرا ہاتھ……‘‘ میں نے التجا کی۔ میں رونے ہی والا تھا کہ اس نے
میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔پَر میری آنکھوں میں آنسو آ ہی گئے جنہیں میں نے اپنی
آنکھوں میں ہی جذب کر لیا۔ میرے کمزور سے بازو پر اس کی پکڑ کا لال نشان
پڑا ہوا تھا۔ مجھے عجیب گھٹن کا احساس ہونے لگا…… بے چارگی کا…… جیسے کوئی
راہ نہ پاتا ہوں…… وہ میرے سامنے ہی کھڑا ہو گیا کہ میں چوئنگ گم کھا لوں
اور پھر وہ میرا ہاتھ کَس کے پکڑ لے……
میں بھاگنا چاہتا تھا مگر ہمت نہیں پڑتی تھی…… وہ سامنے ہی کھڑا تھا ،فوراََ
مجھے دبوچ لیتا جیسے کوئی بلی کبوتر کو دبوچ لیتی ہے…… میں نے آہستہ آہستہ
چوئنگ گم کھولی اور اسے منہ میں رکھ لیا۔ وہ میرا ہاتھ پھر پکڑنے ہی والا
تھا کہ میں کچھ سوچے سمجھے بغیر بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ بھی پیچھے بھاگا…… جیسے
کوئی بھیڑیا کسی بھیڑ کے پیچھے بھاگتا ہے……
مگر میں تو ایک چھوٹا بچہ تھانا!!!کیسے اس سے تیز بھاگتا!!!
تھوڑی ہی دیر میں میں پھر اس کے شکنجے میں آ گیا اور ہار مان لی۔
آخر کار وہ مجھے دور ویرانے میں جھاڑیوں کے اندر لے گیا ۔ میرا دل زور زور
سے دھڑک رہا تھا ۔ اس کا قد مجھ سے بہت بڑا تھا ۔میں نے معصوم نظروں سے سر
اٹھا کر اس کو دیکھا کہ رحم کرو!!! جانے دو!!! موٹے موٹے دو آنسو میری
آنکھوں سے نکل کر گالوں سے پھسلتے ہوئے گردن تک چلے گئے……
۔۔۔۔۔۔۔
|