ہمارے نعت گو شعرائے کرام نے سیرت و شمائل پر مبنی مضامین
کو بھی اپنے اشعار کی زینت بنایا ہے اور بعض خوش نصیبوں نے تو میلاد ناموں،
معراج ناموں اور سیرتِ طیبہ کو بھی نظم کی صورت میں لکھنے کا اہتمام کیا
ہے- یہ اَمر جہاں بعض حوالوں سے لائقِ ستائش ہے، وہاں ایک جہت سے باعثِ
تشویش بھی ہے کہ ایسے نعت گو اور مدح گستر حضرات جو بذاتِ خود ایسی علمی
استعداد کے حامل نہیں تھے کہ احادیث کی روایت و درایت کے اُصول پر جانچ
سکیں اور مرویات کے صحیح و سیمث کا اندازہ لگا سکیں۔ بلا تردّد ہر قسم کے
مضامین کو منظوم کرتے رہے اور ذخیرۂ نعت میں غیر ثقہ اور وضعی حکایات و
واقعات کا انبار جمع ہوتا رہا۔ شاید اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہو کہ
اکثر نعت گو شعرا کا ماخذ صدری روایات اور فضائل پر مبنی ایسے مواعظ تھے
جنھیں اس زمانے میں حرفِ آخر کا درجہ حاصل تھا۔ اُس دور میں کتبِ حدیث اور
اوّلین ماخذ تک رسائی تو ہندستان کے اکابر علما اور محققین کے لیے بھی جوئے
شیر لانے کے مترادف تھی۔ چناں چہ اس پس منظر میں موضوع اور جعلی روایات و
حکایات کا نعتیہ شاعری میں دَر آنا بعید از امکان نہ تھا۔
اردو نعتیہ شاعری میں بہ کثرت پائے جانے والے ایسے مضامین میں سے ایک معروف
مضمون واقعۂ معراج میں حضور اقدسﷺ کے نعلین سمیت عرشِ معلیٰ پر تشریف لے
جانے سے متعلق ہے۔ اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جب سرکارِ دوعالمﷺ نے عرشِ
الٰہی کی طرف عروج فرمایا تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے پیشِ نظر جو موسیٰ
علیہ السلام سے کہا گیا تھا:
اے موسیٰ اپنے جوتے اُتار دو کیوں کہ تم وادئ طویٰ میں ہو-
آپ نے بھی نعلین اُتارنے کا ارادہ فرمایا لیکن ارشاد ہوا:
یامحمد! لاتخلع نعلیک لتشرف السماء بھما۔
ترجمہ: اے محمدﷺ! تم اپنے نعلین نہ اُتارو تاکہ آسمان اِن سے شرف حاصل کرے۔
علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ان الفاظ سے نقل
کیاہے:
یا محمد لا تخلع نعلیک فان العرش یتتشرف بقدومک منتعلا و یفتخر علی غیرہ
متبرکا فصعد النبیﷺ الی العرش و فی قدمیہ نعلان و حصل لہ لذلک عزوشان۔
ترجمہ: اے محمدﷺ! اپنے نعلین مت اُتارو بے شک عرش تمھارے قدموں کے جوتوں
سمیت آنے سے مشرف ہو گا اور اس سے برکت حاصل کر کے اپنے غیر پر فخر کرے گا،
پس آپ عرش پر چڑھ گئے (اس حال میں) کہ آپ کے پاؤں میں نعلین تھے اور اس وجہ
سے آپ کو شان و عظمت حاصل ہوئی۔
علامہ لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اس قصے کا تذکرہ اکثر نعت گو شعرا نے کیا ہے اور اسے اپنے تالیفات میں درج
کیا ہے اور ہمارے زمانے کے اکثر واعظین اسے طوالت و اختصار کے ساتھ اپنی
مجالسِ وعظ میں بیان کرتے ہیں۔ جب کہ شیخ احمد المقری نے اپنی کتاب ’’فتح
المتعال فی مدح النعال‘‘ میں علامہ رضی الدین قزوینی اور محمد بن عبدالباقی
زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’شرح مواہب اللدنیہ‘‘ میں زور دے کر وضاحت کی ہے
کہ یہقصہ مکمل طور پر موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے گھڑنے والے کو برباد
کرے۔ معراج شریف کی کثیر روایات میں کسی ایک روایت سے بھییہ ثابت نہیں ہے
کہ نبی کریمﷺ اس وقت پاپوش پہنے ہوئے تھے۔
سرکارِ دو عالمﷺ کے نعلین شریفین کی فضیلت و عظمت کے حوالے سے لکھی جانے
والی ایک اہم اور حوالے کی کتاب ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ ہے جس کے
مؤلف علامہ احمد المقری التلمسانی رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۹۲/۱۰۴۱ھ)۔ (اس کتاب
کا اردو ترجمہ مفتی محمد خان قادری اور مولانا محمد عباس رضوی کی مشترکہ
کاوش کے نتیجے میں شائع ہو چکا ہے۔
امام احمد المقری نے اس کتاب میں بعض عرب شعرا کے ایسے نعتیہ اور مدحیہ
قصائد نقل کیے ہیں جن میں عرش پر نعلین سمیت جانے کا تذکرہ بڑے والہانہ
انداز سے کیا گیا ہے، مثلاً:
یا ناظراً تمثال نعل نبیہ
قبل مثال نعالہ متذللا
اے نبیﷺ کے نقشِ نعلین کی زیارت کرنے والے! ان کے نقشِ نعل کو عاجزی سے
بوسہ دے۔
و اذکر بہ قدما علت فی لیلۃ
الاسراء بہ فوق السموات العلی
اور اس بات کو یاد رکھ کہ یہ نعلین حضورﷺ کے ساتھ معراج کی رات آسمانوں کی
بلندی سے اوپر تک گئے تھے۔
شیخ المقری کا تبصرہ
مؤلف ’’فتح المتعال‘‘ فرماتے ہیں:
مذکورہ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کو معراج نعلین سمیت ہوا۔ اس کی
تصریح شیخ السبتی وغیرہ نے بھی کسی جگہ کی ہے اور یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ
آپ نے نعلین اُتارنے کا ارادہ کیا تو آواز آئی کہ انھیں نہ اُتارو۔ شیخ
ابوالحسن علی بن احمد الخزرجی نے بھی اس کی اتباع کی ہے۔ لیکن تلاش بسیار
کے باوجود مجھے کتب حدیث میں اس کی تائید نہیں ملی، تو درست یہی ہے کہ اسے
چھوڑ دیا جائے جب کہ یہ آپ تک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچی اور اس طرح کی
روایات کو بغیر معلومات کے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ بعض حفاظِ حدیث نے اس کا
سخت انکار بھی کیا اور ایسی بات کرنے والوں پر طعن کیا ہے۔ اس معاملے میں
محدثین کی اتباع متعین ہے۔ کیوں کہ وہ زیادہ آگاہ ہوئے ہیں۔
عجب بات یہ ہے کہ اس کتاب کے مقدمہ اور بعض تقریظات میں اس موضوع اور جعلی
روایت کو نقل کر کے اس سے استشہاد کیا گیا ہے اور نعلینِ نبویﷺ کی فضیلت اس
سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال ملاحظہ ہو:
حضورﷺ جب عرش پر تشریف لے گئے تو اپنے نعلین کو اُتارنے کا قصد کیا جس پر
ربّ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے حبیبﷺ اپنے نعلین کے ساتھ عرش پر چلے
آئیں۔۔۔ الخ
آگے پورا قصہ دہرایا گیا ہے۔ ایک عربی شعر لکھا ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:
موسیٰ علیہ السلام کو طور کے قریب جوتے اُتارنے کا حکم دیا گیا جب کہ احمد
مجتبیٰﷺ کو سرِ عرش بھییہ رخصت نہ ملی۔
اسی کتاب کے ایک فاضل تقریظ نگار نے اپنی تحریروں میں اس من گھڑت اور وضعی
روایت کو بڑے اہتمام سے جگہ دی ہے۔ (ملاحظہ ہو:۹۳)
ایک اور معتبر اہلِ قلم شخصیت نے علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی کے عربی
اشعار نقل کرنے کے بعد اسی مضمون و مفہوم کا اعادہ کیا ہے۔
ایک بزرگ اور معروف تقریظ نگار نے اس جعلی اور موضوع روایت میں مزید اضافہ
کرتے ہوئے لکھا ہے:
جناب الٰہی سے خطاب آیا کہ اے میرے حبیبﷺ! آگے چلے آؤ۔ تب حضرت محمدﷺ نے
نعلین مبارک اُتارنی چاہی تو عرشِ مجید لرزہ میں آ گیا۔۔۔ الخ
مزید لکھتے ہیں:
پس معلوم ہوا کہ جب آپ نے نعلین مبارک سمیت عرش پر قدم رکھے تو عرش کو قرار
آ گیا اور وہ پُر سکون ہو گیا اور اس کی عظمت بلند ہوئی۔
امام محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمۃ اللہ علیہ ’’شرح مواہب‘‘ میں لکھتے
ہیں:
وقد سئل الامام القزوینی عن وطء النبیﷺ العرش بنعلہ و قول الرب جل جلالہ
لقد شرف العرش بنعلہ یامحمد، ھل ثبت ام لا؟ فأجاب: اما حدیث وطء النبیﷺ
العرش بنعلہ، فلیس بصحیح ولا ثابت۔۔۔ الخ
ترجمہ: اور جب امام رضی الدین قزوینی سے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نعلین
سمیت عرش پر خرام فرمانے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد: اے محمد! تحقیق عرش
تیرے نعل سے شرف پائے‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیایہ ثابت ہے یا نہیں؟
تو انھوں نے جواب دیا: جہاں تک حضورﷺ کے نعلین سمیت عرش پر خرام فرمانے
والی روایت کا تعلق ہے، تو یہ صحیح اور ثابت نہیں ہے۔ |