مرے عشق کا مزید امتحاں نہ لے…!

اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جز یہ ہے کہ دوسرے مذاہب پر تنقید نہ کی جائے اور نہ ہی ان کے مذہبی پیشوائوں کے ساتھ کسی قسم کاکوئی سوتیلا برتائوکیا جائے اور نہ ان کی توہین کی جائے۔ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ غیروں کے پیشوائوں کوبرابھلانہ کہوکیونکہ وہ اپنی جہالت کی بنیادپرمعبودحقیقی پرگستاخی کربیٹھیں گے ۔جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے علماء یہود کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ فرمایا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد خلفائے راشدین اور دیگر مسلم حکمرانوں نے اس بات پر سختی سے خود بھی عمل کیا ہے اور اپنے ماتحتوں کو اس کا پابند بنا یا تھا کہ وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو برا بھلا نہ کہیں اور نہ ہی مذہبی پیشوائوں کی توہین کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علاقے جہاں مسلم آبادی کے ساتھ غیر مسلموں کی بھی آبادی رہی ہے مسلم حکمرانوں کی جانب سے انکی عبادت اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے باضابطہ وظیفہ جاری کیے گئے ہیں،

اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جز یہ ہے کہ دوسرے مذاہب پر تنقید نہ کی جائے اور نہ ہی ان کے مذہبی پیشوائوں کے ساتھ کسی قسم کاکوئی سوتیلا برتائوکیا جائے اور نہ ان کی توہین کی جائے۔ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ غیروں کے پیشوائوں کوبرابھلانہ کہوکیونکہ وہ اپنی جہالت کی بنیادپرمعبودحقیقی پرگستاخی کربیٹھیں گے ۔جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے علماء یہود کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ فرمایا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد خلفائے راشدین اور دیگر مسلم حکمرانوں نے اس بات پر سختی سے خود بھی عمل کیا ہے اور اپنے ماتحتوں کو اس کا پابند بنا یا تھا کہ وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو برا بھلا نہ کہیں اور نہ ہی مذہبی پیشوائوں کی توہین کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علاقے جہاں مسلم آبادی کے ساتھ غیر مسلموں کی بھی آبادی رہی ہے مسلم حکمرانوں کی جانب سے انکی عبادت اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے باضابطہ وظیفہ جاری کیے گئے ہیں، اسی سرزمین ہندوستان پر آٹھ سو سال حکومت کرنے والے مسلمانوں نے جس طرح مساجد و مدارس کی آبیاری و آ بپاشی کی ہے اسی طرح ان کے خزانے منادر و گوردوارہ اور کلیسا کیلئے بھی کھلے رہے ہیں۔ الحاصل مسلمانوں نے اپنی طاقت و قوت کا غلط استعمال نہیں کیا ہے اور نہ کبھی طاقت کے نشہ میں دیگرمذاہب کی توہین کیہے لیکن اب جبکہ ہمارا یہ ملک جمہوریت کی ڈگر پر چل رہا ہے اور یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کواپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے اور دیگر مذاہب کا احترام بھی ضروری ہے، یہاں حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ دستور ہند مذہب کا درجہ رکھتا ہے، ایسے میں کسی شخص کا کسی مذہب کے پیشوا کے متعلق زبان درازی کرنا،مغلظات کا بکناکہاں تک درست ہے؟۔ اور ایسے شخص کیلئے کیا سزا تجویز کی جائیکہ دوسرے دریدہ دہن دوبارہ اس قبیح حرکت کے ارتکاب کی جرأت نہ کرسکے۔

2006میں مہاراشٹر کے ریاستی پارٹی کے بانی بال ٹھاکرے کی اہلیہ مینا تائی ٹھاکرے کے مجسمے پر سیاہی پوتنے کی خبراخبارات کی شہ سرخیاں بنیں، دیکھتے ہی دیکھتے ممبئ و اطراف ممبئی کے حالات اتنے دگر گوں ہوگئے کہ مسلمانوں میں ایک انجانا سا خوف سما گیا، مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے تھے جبکہ یہ بات واضح بھی نہیں ہوسکی تھی کہ اس نازیبا حرکت کا مرتکب کون ہے، اور اس طرح کے بے شمارواقعات ہیں جس میں کسی لیڈر یا علاقائی رہنما کے متعلق کسی نے کچھ کہہ دیا ہو پھر اس کے بعد سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نذر ا تش کردیا گیا ۔ مسلمانوں کا معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کسی علاقہ یا ذات کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ان کے ایمان کی بنیاد پر ہے اور یہ رشتہ اتنا مضبوط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا (تم میں سے کوئی اس وقت تک مو من کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل و عیال اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔ (بخاری) یہ وہ تعلق ہے جس میں کمی آنے کے بعد مسلمان مسلمان نہیں رہ جاتاہے۔مسلمانوں کا تعلق اپنے نبی ﷺکے ساتھ صرف دنیاوی نہیں ہے بلکہ یہ اخروی بھی ہے،آپﷺ کے ساتھ مسلمانوں کاتعلق عقلی نہیں ،عشق پرمبنی ہے۔ یہ تعلق اتنا مضبوط ہے کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی ۔ ، جس مجنونانہ ادائو ں سے مسلمان اپنے ا ٓقا ﷺپر اپنی جانیں قربان کردیتے ہیں وہ کسی اور کا مقدر نہیں ہے، ایک عام مسلمان اپنی زندگی میں ہر طرح کے دکھ تو برداشت کرسکتا ہے لیکن اس کے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اقدس پر کوئی انگشت نمائی کرے یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا ہے، انگریزوں کے دور حکومت میں کچھ لعین و مردود اسی لئے واصل جہنم کیے گئے ہیں اور ہر دور میں اس طرح کے ناسور اور جراثیم کو سرفروشان ملت نے دوزخ کا ایندھن بنوایا ہے، اب پھر ایک ملعون نے اپنے لیے جہنم کا سرٹیفکٹ جاری کروایا ہے، حکومت کے گرگوں نے تو اسے گرفتار کرلیا ہے لیکن کیا اس جرم کی سزا صرف گرفتاری ہے، آج گرفتار ہوا کل عدالت میں شنوائی ہوگی اور پھر اسے ضمانت پر رہائی مل جائے گی گی بعد ازاں کیا ہوگا ہم اس سے واقف ہیں، پھر اس معاملہ کی تاریخ کیلئے عمر نوح، فیصلہ کیلئے صبر ایوب اور خرچہ کیلئے گنج قارون کی ضرورت ہوگی تب تک وہ ملعون اپنی زندگی باہر گزارے گا اور مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے گی کہ اب تم اپنے آقا کے تقدس کو بھی پامال ہوتے دیکھتے رہو۔ یہ معاملہ کسی کا ذاتی معاملہ نہیں ہے کہ اس پر چند دن لکھ بول کرطاق نسیاں پر رکھ دیا جائے گا بلکہ اس میں جتنی تاخیر ہوگی اندر کا لاوا اتنا ہی گرم اور تیز ہوتا چلا جائے گا، اس آگ کو سیاسی تقاریراورتسلی کے چند چھینٹوں سے نہیں بجھایاجاسکتا۔اور نہ یہاں کسی قسم کی کوئی مصلحت پیش نظر ہوگی کہ یہ ہوگاتوکیاہوگا…؟اس لیے جتنی جلد ہوسکے اس ملعون کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔یہ کارروائی عدالت کے چکر کاٹنے اورتاریخ لینے کے لئے نہیں بلکہ فیصلہ سنانے کیلئے ہوں گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ارباب حکومت مشورہ کرتے رہے …میٹنگ بلاتے رہے اور اس میں اتنی تاخیر ہوجائے کہ مسلمانوں میں پھر کوئی غازی علم دین بن کر اسے واصل جہنم کردے۔ ہمیں یہ بھی امیدہے کہ جس طرح فرانس پرحملے کے خلاف سترشہروں میں احتجاجی مظاہرے کیئے گئے،اسی طرح اس بھگوادہشت گردی کے خلاف بھی وہ جماعت ملک گیراحتجاج کرے گی۔بصورت دیگران کے سیاسی مقاصداورآشکاراہوں گے۔عالم اسلام کوبھی اس پرسخت نوٹس لیناچاہئے کیونکہ یہ ہرمسلمان کیلئے چیلنج ہے۔آرایس ایس کی ذیلی تنظیم نے تمام اسلامی دنیاکی غیرت ایمانی کوللکاراہے۔ہماری ذمہ داری ہے کہ اس آوازکوبین الاقوامی مسلم برداری تک لے جائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اگر کبھی کسی ملعون نے اس طرح کی دوبارہ کوئی حرکت کی توصرف اورصرف سزائے موت ہو۔اس کیلئے قانون سازی بھی ضروری ہے تاکہ کسی کوبھی کسی مذہب کے خلاف کوئی گستاخی کاموقعہ نہ ملے۔اس کیلئے سخت کاروائی کاانتظام ہو،ابھی پارلیمانی سیشن چل رہے ہیں،مسلم اراکین پارلیمنٹ پوری قوت کے ساتھ اس مسئلہ کوایوان میں اٹھائیں ۔نیزیوپی میں موجودپینسٹھ سے زائدمسلم ایم ایل اے اپنے بل سے باہرنکلیں ،اپنے سیاسی آقائوں پردبائوبنائیں۔اعظم خان جویوپی کے سب سے سنیئروزیرہیں،وہ اپنی زبان کھولیں،عملی اقدامات کریں،ورنہ مسلمان انہیں ہرگزمعاف نہیں کریں گے۔

NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69225 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.