بابری مسجد کی شہادت، 23سال گزر گئے

بھارت میں سیکڑوں برس پرانی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو آج23 سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن مسلمانوں کی عظیم عبادت گاہ کو شہید کرنے والوں کے خلاف بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت تاحال کوئی کارروائی نہیں کر سکی۔ بھارت کے آئین میں ہر شخص کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی، لیکن اس کے باوجود 6 دسمبر 1992ءکو ہزاروں انتہا پسند ہندو جنونیوں نے بابری مسجد کو شہید کر کے یہ بتادیا کہ منافقت اور مسلمان دشمنی ہندو بنیے کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور بھارت میں ہندﺅں کے سوا کسی کو مذہبی آزادی نہیں ہے۔ 6 دسمبر 1992ءکی تاریخ بھارت کی متعصب اور نام نہاد سیکولر حکومت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے، جو کبھی بھی مٹ نہیں سکتا۔

بابری مسجد مسلمانوں کا عظیم اور قدیم سرمایہ تھی، جو کہ 1527ءمیں مشہور مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے حکم سے اس کے جرنیل اور گورنر میر باقی نے بنوائی، لیکن چار سو سال پرانی اس عبادت گاہ کو متعصب ہندﺅں نے شہید کرکے اس جگہ ایک رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔ انتہا پسند ہندﺅں کا دعویٰ ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر ہوتا تھا، جسے گرا کر یہ مسجد بنائی گئی۔ یہ سراسر جھوٹ اور مسجد پر قبضہ کرنے کے لیے راہ ہموار کرنے کی ایک سازش تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بابری مسجد سیکڑوں برس پرانی ہے، 1528ءسے لے کر 1850ءکے بعد تک بھی یہ بات کسی نے نہیں کہی تھی کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ دراصل ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ہنس بیکر نے بابری مسجد کی جگہ کے بارے میں ”جنم بھومی مندر“ کی تعمیر کی بات لکھی تھی۔ انگریزوں نے اپنی سروے رپورٹس، انتظامیہ کے شائع کردہ گزیٹرس وغیرہ میں بابری مسجد کے بارے میں لکھنا شروع کیا کہ یہاں پہلے مندر تھا، چنانچہ ﺅاس سلسلے میں مانگمری مارٹن اور پی کارینگی کی رپورٹس نے قیاسات کی بنیاد پر مندرکی جگہ مسجد کے مفروضے پیش کیے، جس کے بعد ہندو بابری مسجد پر قبضہ کرنے کی سازشیں کرنے لگے۔

بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ اچانک پیش نہیں آیا، بلکہ بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں انتہا پسند تنظیموں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ مل کر رام مندر کی تعمیر کے لیے تحریک چلائی اور کانگریسی وزیراعظم نرسمہا را کی حکومت میں 6 دسمبر 1992ءکو ہزاروں ہندﺅں پر مشتمل مشتعل ریلی نے نیم فوجی دستوں کی موجودگی میں اس تاریخی مسجد کو شہید کر دیا۔اس دوران ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور دیگر ہندو لیڈر متنازعہ جگہ پر پہنچے۔ انتہا پسند ہندو مسجد کے گنبد پر چڑھے اسے گرا رہے تھے۔ ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی نے میڈیا کو دکھانے کے لیے کمزور آواز میں احتجاج کیا، لیکن منصوبہ تو پہلے سے تیار تھا، اس لیے بدمست ہندﺅں نے تھوڑی ہی دیر میں عظیم بابری مسجد کو شہید کر ڈالا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ مسجد کی شہادت میں اس وقت کی حکومت ملوث تھی۔ مرلی منوہر جوشی اورایڈوانی نے اپنی نگرانی میں تمام انتظامات کو حتمی شکل دی اورمسجد کی شہادت کے وقت یہ دونوںلیڈر بابری مسجد سے دو سو میٹر دور واقع ”رام کتھا کنج“ کی عمارت میں موجود تھے۔ بابری مسجد کو شہید کرنے کے منصوبے میںسیکولرازم کا دم بھرنے والی تمام جماعتیں ہی بابری مسجد کی شہادت کے جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ انتہا پسند ہندو تنظیم بجرنگ دل نے 1992ءجون میں ہی اپنے 38 کارکنوں کو ریٹائرڈ فوجیوں سے تربیت دلوا کر ان کی ذہن سازی کی اور انہیں بابری مسجد شہید کرنے پر اکسایا، تب کے بھارتی وزیراعظم وی پی نر سیما راﺅ اور ایل کے ایڈوانی کو اس ساری سازش کا پہلے سے علم تھا۔ ایک منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں مسجد شہید کرنے کے دو منصوبے اور بھی ترتیب دے رکھے تھے۔ آر ایس ایس کے 1200 کارکنوں کو ملک کے مختلف حصوں سے بلایا گیا تھا۔ 1949ءمیں مسجد کے اندر سے ”رام“ کی مورتی کو بعض شرپسندوں نے دریافت کر کے تنازع کھڑا کیا تھا، اس سارے کھیل کا مقصد بھی بابری مسجد شہید کر کے مسلمانوں کو دلی تکلیف پہنچانا تھا۔

بابری مسجد کی شہادت کے المناک واقعے سے پورے عالمِ اسلام میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور بھارت میں بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ گودھرا، گجرات ٹرین حملوں سمیت ان فسادات میں کم و بیش تین ہزار سے زاید مسلمانوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔23 سال گزرنے کے باوجود اس اندوہناک واقعے میں ملوث دہشت گرد آج بھی آزاد اور مسلمان انصاف کے منتظر ہیں۔ 6 دسمبر1992ءکو بابری مسجد کو مسمار کرنے کے سلسلے میں 49 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے، جوگزشتہ 23 برسوں سے قانونی داؤ پیچ اور عدالتوں کی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی متعصب حکومت خود ہی اس واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔ بابری مسجد کی شہادت کے 17 سال بعد آنے والی لیبر ہان عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، بھارتیہ جنتا پارٹی کے دیگر سینئر رہنماﺅں ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ بھارت کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے بابری مسجد پراپنی سیاست چمکائی، لیکن کسی نے اس مسجد کی تعمیر کی بات نہیں کی۔انتہا پسند ہندﺅں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کو 23سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن تاحال کسی مجرم کو سزا نہیں مل سکی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ عالمی سطح پر اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 703736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.