مدارس اور مساجد کیلئے نئی قانون سازی

پچھلے ہفتے حکومت برطانیہ کی طرف سے منظر عام پر آنے والے ایک مجوزہ قانون سازی کے منصوبے کے مطابق اب مساجد اور مدارس ریگولیشن اور با ضابطہ معائنہ کے عمل سے گزریں گے۔ اس وقت برطانیہ میں دو ہزار کے قریب مساجد اور مدارس ہیں جو برطانوی معاشرے میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں سر گرم عمل ہیں۔حکومتی منصوبے کے مطابق مروجہ سکولوں کی تعلیم کے علاوہ کہیں بھی تعلیم دی جا رہی ہوگی تو ان اداروں کی رجسٹریشن کرانا لازمی ہوگی۔ اسی طرح ان اداروں اور مساجد کو کسی بھی وقت اچانک معائنہ کیلئے تیار رہنا چاہیے ۔ہر وہ جگہ جہاں ہفتہ میں چھ تا آٹھ گھنٹے تعلیم دی جارہی ہوگی وہاں یہ قانون لاگو ہوگا تاکہ وہاں تعلیم دینے والا مناسب عملہ تعینات ہو اور بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم برطانیہ نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’’ بعض مسلم سپلیمنٹری مدارس کے طلبہ کے ذہنوں میں زہر اور دلوں میں نفرت بھری جا رہی ہے‘‘ اس لئے اسے روکنے کیلئے فوری مداخلت ضروری ہے ۔ نئے مجوزہ قانون کی رو سے برطانوی اقدار کے خلاف بچوں کو سزائیں نہیں دی جا سکیں گی۔ اسی طرح ایسی تعلیم پر بھی پابندی ہو گی جو انتہا پسندانہ خیالات کو فروغ دے۔ حکومت قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں مدارس کو بند بھی کر سکتی ہے اورکچھ لوگوں کو بچوں کے ساتھ کام کرنے سے روکا جا ئے گا یا پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ محکمہ تعلیم نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ بہت سے مدارس قواعد و ضوابط کے مطابق چل رہے ہیں اور معاشرے میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں ۔ لیکن جب تک مناسب نگرانی نہ ہو اس وقت تک خدشات برقرار رہتے ہیں کہ کہیں بچے انتہا پسندی یا دہشت گردی کی طرف مائل نہ ہو جائیں۔ اس قانون سازی کے تناظر میں کچھ پہلو توجہ طلب ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اداروں کو نظم و ضبط کا ہر حال میں خیال رکھنا چاہیے۔ لیکن دہشت گردی کے حوالے سے یہ تاثر غلط ہو گا کہ جملہ مساجد اور مدارس کو مشکوک نظروں سے دیکھا جائے۔ اگر کہیں مسجد و مدرسہ کو استعمال کر کے دہشت گردی کے منصوبے بن رہے ہوں تو اس کے خلاف ضرور ایکشن لینا چاہیے۔مین سٹریم کے جملہ مساجد اور اسلامی مدارس اس کی بھرپور حمائت کریں گے۔ ہمارے مشاہدات اور دانست کے مطابق مساجد اور مدارس کے لئے کی جانے والی قانون سازی بھی بالآخر ترویج و اشاعت اسلام کیلئے مؤثر ثابت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے مدارس اساتذہ کی تعیناتی ، صحت مندانہ ماحول اور بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں کچھ کمزوریوں کا شکار ہیں۔ جب باضابطہ معائنہ ہو گا تو بہتری کیلئے کوششیں بھی تیز تر ہو جائیں گی۔ اس کے نتیجے میں بچوں کو پڑھائی کا اچھا ماحول میسر آئے گا۔ ظاہر ہے کہ نصاب تعلیم تو اداروں اور مساجد کی انتظامیہ نے خود ہی مرتب کیا ہوا ہے جو کہ پڑھا رہے ہیں۔ مساجد اور مکاتب کے جملہ منتظمین سے ہماری گزارش ہے کہ اس قانون کی گرفت سے ڈرنے یا پریشان ہونے کی بجائے اپنے اپنے تعلیمی اداروں کیلئے جملہ ضروریا ت کوپورا کیا جائے۔ اگر قانون کی کوئی شق ناقابل قبول ہو تو اجتماعی طور پر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جائے۔سی آر بی چیک، چائلڈ پروٹیکشن اور ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے جملہ قواعد و ضوابط کو اپنی مساجد اور مدارس میں لاگو کیا جائے۔ مساجد و مدارس میں صفائی ستھرائی ، حفظان صحت یا انتہا پسندی کی روک تھام کیلئے بننے والے قانون جی مناسب شقوں کا خیر مقدم کیا جائے۔ اس سے اداروں کی کار کردگی میں بہتری آئے گی۔ ہمارا دین صفائی کو نصف ایمان سے تعبیر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی اس کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔ جہاں تک ان اقدامات سے دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کا معاملہ ہے تو یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک بہت گہرا اور مضبوط ہے۔ انکے پیروکار مسجدوں اور مدرسوں کے ذریعے نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور گمنام مراکزکے ذریعے ان کے ہمنوا بنتے ہیں۔ اگر کسی مسجد و مدرسہ کو استعمال بھی کریں تو اپنی کاروائیوں کو خفیہ رکھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد اتنے بھی بے وقوف نہیں ہوں گے کہ وہ جن بچوں کو دہشت گردی کیلئے تیار کریں ان کے لئے حکومتی سر پرستی میں کوئی ادارہ قائم کر کے تعلیم دیں یا انہیں انٹرویو کیلئے حکومتی اہلکاروں کے سامنے بٹھا دیں گے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اگر کہیں انتہا پسندی کے ہلکے پھلکے جراثیم ہوں تو شاید وہ ختم ہو جائیں۔ اگرکچھ لوگ دہشت گردی کے مقصدکیلئے مسجد یا مدرسہ کو استعمال کر رہے ہوں تو انہیں منظر عام پر لانا چاہیے۔ اس کا یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ حکومت کو بھی تسلی ہو جائے گی کہ مساجد اور مدارس امن و سلامتی کی تعلیم کے گہوارے ہیں۔ اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے تعصب اور اسلامو فوبیا کا تاثر نہیں ابھرنا چاہیے ۔ اگر اس قانون کا سہارا لیکر مساجد اور مدارس کی بندش اور بدنامی کی مہم چلائی جائے گی تویہ رویہ بھی مسلمان کمیونٹی کیلئے ناقابل قبول ہوگا۔ جہاں تک وزیر اعظم برطانیہ کا یہ کہنا ہے کہ’’ بچوں کے ذہنوں میں زہر یا دلوں میں نفرت آمیز رویے بھرے جا رہے ہیں‘‘ ۔ یقینا وزیر اعظم برطانیہ ایک با خبر شخصیت ہیں ۔ اگر کوئی ثبوت ہے تو انہیں ان مدارس اور مساجد کے نام لے کر بتانا چاہیے کہ کہاں کہاں یہ کچھ ہو رہا ہے۔ ورنہ اجتماعی طور پر جملہ مساجد پر مبہم سا الزام بھی انصاف کے تقاضوں کے خلاف اور پر امن مسلمانوں کیلئے باعث دلآزاری ہے ۔ کیوں کہ ان کی گفتگو سننے والا تو ہر مسجد کو مشکوک نظر سے ہی دیکھے گا۔ایسے بیانات مسلمانوں کیلئے بد گمانی کے جذبات کو جنم دیتے ہیں جو کہ سماجی بگاڑ اور ذہنی تناؤ کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہو گی کہ اس قانون سازی کے سلسلے میں حکومت مسلمانوں کی بڑی بڑی تنظیمات کے سرکردہ نمائندوں سے مذاکرات کر کے کوئی لائحہ عمل مرتب کرے تاکہ غلط فہمیاں جنم نہ لیں۔ ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ مساجد و مدارس میں تعلیم کا ایسا بند و بست کریں جو ہماری نسل نو کو معاشرے کا باوقار فرد اور باعمل مسلمان بنا سکے۔ اسلام کے سفیر کے طور پر حکمت عملی کے ساتھ دگر گوں حالات میں بھی اسلام کی سر بلندی کیلئے ہمیں کوشاں رہناہے۔ہم ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہیں خواہ وہ داحش کی طرف سے ہو یا کسی ریاست کی طرف سے۔ لیکن ہزار بار اس کی مذمت کے باوجود دنیا بھر میں پر امن مسلمانوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ ا ب یورپ میں رہنے والے پر امن مسلمانوں کیلئے بھی مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ناکردہ گناہ کی بے جا سزا دی جا رہی ہے۔ ہمیں ان دگر گوں حالات میں بھی اپنی کمزوریاں دور کرکے یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام پر امن مذہب ہے اور مسلمان پر امن لوگ۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219649 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More