تعلیمی اداروں میں نظام تعلیم اور زبان ہی مسئلہ نہیں……کچھ اور مسائل بھی ہیں

گزشتہ دنوں ایک مقامی اخبار میں سید ارشاد حمید گردیزی صاحب کا مضمون بعنوان’’ مادری زبان میں تعلیم کیوں ضروری ہے؟‘‘ نظر سے گزرا۔موصوف نے انتہائی اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ کاش دیگر قلمکار بھی اس اہم موضوع پر گفتگو کریں۔ جناب گردیزی نے اپنے اس بہترین کالم میں بچوں کو مادری زبان میں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے پر زور دیا ہے۔ جو بالکل صحیح سوچ اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ان کی اس سوچ سے اتفاق اور بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے راقم عرض کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے ہاں بہت ساری مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں ۔جن میں پہاڑی، گوجری اور اردوخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ کچھ ایسے علاقے بھی ہیں۔جو بولتے تو پہاڑی ہی ہیں مگر ان کے لب و لہجے میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔جس سے ایک الگ زبان ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ مگر وہ زبان کوئی الگ زبان نہیں ہوتی ۔ اب اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل روشن ہو، ہمارے بچے ہمارے ہی رہیں، اغیار کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں، دوسروں کے دست نگر بنیں اور نہ ہی احساس کمتری میں مبتلا ہوں تو پھر ہمیں آج اس پر غور کرنا ہوگا کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ قارئین! دوسری اقوام کو اپنا دست نگر بنانے کے لیے ہوشیار قومیں سب سے پہلے اُن کے طریقہ تعلیم و تعلم کو بدلتی ہیں اور اس طریقے سے یہ کام کرتی ہیں کہ مغلوب ہونے والے قوم کو احساس تک نہیں ہوتا ۔ اور اس قوم کے ہر فرد کے ذہن میں آہستہ آہستہ یہ بات راسخ ہوتی چلی جاتی ہے کہ ان کی زبان کمزور اور ناقص ہے اور طاقتور کی زبان بہتر ہے ۔ اور دوسرے ہم سے بہتر اور ہم نالائق لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ تو اس طرح ایک قوم دوسری قومی کی غلامی بڑی آسانی کے ساتھ قبول کر لیتی ہے۔ اور عیار و مکار دشمن ایسی قوم کو بڑی آسانی کے ساتھ اس کے مال و متاع سمیت اپنا
غلام بنا لیتا ہے۔

۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک ہم اپنا کوئی نظام تعلیم مرتب نہیں کر سکے ،اور نہ ہی مستقبل قریب میں راقم کو اس سلسلے میں کوئی قدم اُٹھتا نظر آرہا ہے ۔ ماضی کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے پورے وثوقع سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں قوم پر مسلط مفاد پرست ٹولہ کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ قوم باشعور اور معاملہ فہم ہو جائے ۔کرسی اور شہرت کا بھوکامفاد پرستوں کا یہ ٹولہ قوم کے بچوں کو کسی مؤثر نظام کے تحت کبھی بھی تعلیم سے بہرہ مند نہیں ہونے دے گا۔ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے گونگوں سے بہروں کو آوازدلوائی جاتی ہے۔اس صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارے حکمران طبقہ نے ایک عرصہ سے بلدیاتی انتخابات اور سٹودنٹس یونینز پرپابندی لگا رکھی ہے۔ تاکہ عوام کی مشکلات کو حقیقی طور پر سمجھنے والی قیادت گرا س روٹ سے سامنے ہی نہ آسکے۔ تاکہ انہیں اپنی جیبیں بھرنے اورموروثی سیاست کو پروان چڑھانے کا پورا موقع ملارہے۔ آج ہمارے ہاں موروثی سیاست عروج پر ہے ۔ کسی عام شخص کو آگے ہی نہیں آنے دیا جارہا۔اس کے لیے تمام راستے مسدود کر دیئے گئے ہیں۔ قارئین!حقیقی قیادت انہی دوراستوں پر چل کرسامنے آتی ہے اورعام لوگوں کے مسائل حل ہوتے ہیں۔ گراس روٹ سے سامنے آنے ہونے والی قیادت کا راستہ ایک عرصہ سے مظفر آباد کے مسند اقتدار پر برجمان ہونے والی مختلف سیاسی جماعتوں نے روک رکھا ہے۔

ایسے لوگ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ملک و قوم کے لیے کیا شارٹ، مڈ اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کریں گے؟ اس طرح کے قومی کام دنوں ، مہینوں یاایک دو سالوں میں نہیں ہو سکتے اس کے لئے آپ کو مختلف سطح کی اور مختلف دورانیوں پر مشتمل منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ جس کا ہمارے ہاں روز اول سے بری طرح فقدان چلا آرہا ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں پڑھائے جانے والے نصاب میں ریاست جموں وکشمیر بارے معلومات/موادنہ ہونے کے برابر ہے۔ اور یہ اقدام ہمارے نونہالوں کے کچے ذہنوں میں ریاست جموں کشمیر سے محبت کم کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔مظفر آباد کی کرسی کے لیے تمام تمامتر اخلاقی قدریں پامال کرنے والا کوئی بھی سیاسی لیڈر اس حوالے سے لب کشائی نہیں کرتا ۔یہ بات ہر آزادکشمیری لیڈر کو معلوم ہے کہ اگر وہ ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا سوچے گاور قومی وقار کی بات کرے گاتو اس کا بھی وہی حال ہو گا۔ جو کے ایچ خورشید مرحوم اور ممتاز راٹھورمرحوم کے ساتھ ہوا۔ اصل میں آزادکشمیر میں حکومت آزادکشمیر یوں کی نہیں بلکہ پاکستان کے ایک چیف سیکرٹری کی ہوتی ہے۔ یا پھر مری میں بیٹھے ایک جی سی اوکی،جس کی مرضی ومنشاکے بغیر آزادکشمیر میں پتا تک نہیں ہل سکتا۔ ایسی صورتحال میں ہمیں بحیثیت ایک قوم کے سوچنا اور اپنی بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی منصوبہ کرنا ہو گی۔ اقتدار کے بھوکے ان سیاسی لیڈروں سے قوم کو کسی بھلائی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔بہرحال ہماری گفتگو کا موضع کچھ اور تھا۔

بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ مادری زبان ہی ہے۔ بھمبر کے پروفیسر سید صفدر الحسن شاہ کی زبانی ،بچے کے سیکھنے کا عمل اُس کی پیدائش کے تھوڑی دیر بعد شروع ہو جاتا ہے۔ بچہ ماں کے پیٹ میں رہتے ہوئے اپنی ماں کی آواز کو سن سن کر اسے پہچان چکاہوتا ہے اور جب وہ اس دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنی ماں کی آواز پررسپانڈ کرتا ہے۔ اور اگرکوئی قاری میری اس بات کی تائیدیا تردیدکرناچاہے تووہ کسی بھی نومولود کی پیدائش کے ایک دو گھنٹے بعد اس کو سیدھا لٹاکر سرخ رومال یا کوئی بھی سرخ رنگ کی چیز اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزارے۔ تو آپ نوٹ کریں گے ۔ کہ بچے کی آنکھیں اس سرخ رنگ کی لہراتی چیز کاپیچھا کر رہی ہوں گی۔بچے کایہ عمل تجسس کہلاتا ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے والی چیز کیا ہے؟ ماہرین بتاتے ہیں کہ تجسس ہی سیکھنے کی پہلی سیڑھی یا پہلا زینہ ہوتا ہے۔ غرض بچہ وہیں سے سیکھنا شروع کر دیتا ہے ۔ لہذا اسکول پہنچنے سے قبل ہی ایک بچہ اپنی ماں سے بہت ساری چیزیں سیکھ چکا ہوتا ہے۔اس کی وجہ اس کی ماں بولی ہوتی ہے۔ ماں بولی ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس میں ہر ذی روح کو بات فوراََ سمجھ آجاتی ہے مگر مقام افسوس ہے کہ ہم نے من حیث القوم آج تک اس نقطہ پر غور نہیں کیا کہ ہم اپنے نونہالوں کو اس زبان میں زیور تعلیم سے آراستہ کریں جس میں ان کے لیے آسانی ہو۔ اور وہ مادری زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں ہو سکتی۔گر آپ مادری زبان میں نصاب تیار نہیں کر سکتے تو کم از کم لانگ ٹرم کے لیے ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس پر عمل کرتے ہوئے آہستہ آہستہ پوری قوم ایک ہی زبان بولنا شروع کر دے اور پھر اسی زبان میں قوم کے نہالوں کے لیے سیکھنے کے عمل کو عملی جامعہ پہنایا جا ئے۔ فی الوقت ہر تعلیمی ادارے (سرکاری و غیرسرکاری) میں ایک ہی نصاب تو لازمی قرار دیا جاسکتاہے۔اور اسے لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔

ہم نے انگریزی زبان کو سب سے بہتر اور مؤثر ذریعہ تعلیم سمجھ رکھا ہے ۔جو ہماری خرابیوں کی سب سے بڑی جڑ ہے۔ دنیا میں کتنے ہی ایسے ممالک ہیں جن کے سربراہان (انگریزی زبان پر مکمل دسترس ہونے کے باوجود) اپنی قومی زبان میں انگریزی بولنے والی اقوام کے رہنماؤں سے گفتگو کر کے فخر محسوس کرتے ہیں ۔ ایک دفعہ چین کے صدر نے ایک سوال کے جواب کہا تھاکہ وہ اپنی زبان میں اس لیے بات کرتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ باوور کرواسکیں کہ چین گونگا نہیں ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر فیلڈ میں بیرونی زبان میں تعلیم دی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے بچوں کی تعلیمی بنیادیں کمزور رہ جاتی ہیں ۔اور قوم کئی مختلف گرہوں میں تقسیم ہے۔ سیکولر اور دینی تعلیم کے دو الگ الگ سلسلے ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ ’’ مسٹر ‘‘ اور کچھ ’’مولانا ‘‘بن جاتے ہیں۔ ایک طرف دینی تعلیم جوعربی اور فارسی میں دی جاتی ہے۔ جبکہ سیکولر تعلیم انگریزی میں دینے کو ہم ترجیحی دیتے ہیں۔جبکہ اپنے گھروں میں ہم پنجابی، پہاڑی ، گوجری، اردو اور دوسری زبانیں بولتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے بہت سارے لوگوں کے لیے مال کماؤ اور عیاشی کرو کے مصداق ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک آزادکشمیر کے محکمہ تعلیم سے وابسطہ لوگوں کی تعداد ۳۲ ہزار سے زائد بتائی جاتی تھی۔ اب یہ تعداد نجانے کیا ہے ۔بہرحال یہ ایشو فی الحال زیر بحث بھی نہیں ہے۔اصل مقصد نظام تعلیم اور ذریعہ تعلیم و تعلم پر بات کرنا ہے۔

ہمارے دینی مدارس میں صرف دینی تعلیم دی جا رہی ہے ۔تاہم کچھ دینی تعلیمی اداروں میں اب دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ ان اداروں میں جیسا کہ راقم نے پہلے عرض کیا کہ عربی اور فارسی میں تعلیم دی جاتی ہے۔ طلباء کو بات سمجھانے کے لیے اردو کا سہارا لیا جاتا ہے۔ دینی تعلیم کے لیے رائج کتابیں تقریباََدو صدیاں پہلے ترتیب دی گئی تھیں۔ جنہیں آج کے حالات کے مطابق ڈھالنے کی شایداشدضرورت ہے ۔تاکہ ہم دینی تعلیم سے پوری طرح فیض یاب ہو سکیں۔ مگر آج بھی شاید اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ۔ ان اداروں سے فارغ ہونے والے صرف ’’ مولانا‘‘ بن کر سامنے آرہے ہیں جبکہ دنیاوی تعلیمی ادارے صرف ’’ مسٹر‘‘ پیدا کر رہے ہیں۔ یہی ’’مولانا ‘‘اور ’’مسٹر‘‘آگے چل کر دو حصوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں ۔ کیوں کہ ’’مسٹر ‘‘ دینی تعلیم سے نابلد ہوتا ہے اور ’’مولانا ‘‘ دنیاوی معالات کے حوالے سے لاعلم ۔ پھر ان کے ٹکرانے سے نقصان ملک و قوم کا ہوتا ہے ۔ اور یہی ہمارا دشمن چاہتا ہے۔ اور اسی کا ہم بحیثیت مسلمان احساس کرنے سے شاید قاصر بھی ہیں۔

پھر آگے مزید نقصان دہ امر یہ ہے کہ دینی تعلیم گاہیں مسلکی اعتبار سے مزید کئی حصوں میں منقسم ہیں۔ کوئی سنی تو کوئی شیعہ اور کوئی اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔سبھی مسلمان ہیں مگر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ حتاکہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنا گوارہ نہیں ہوتا۔اس خرابی کی جڑ ہمارا دینی نظام تعلیم ہے ۔ جس میں دین کی تعلیم کم اور مسلک کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ پھر مزید تقسیم ہوتی ہے اور سنی مکتبہ فکر لوگ آگے چل کر بریلوی اور دیوبندی بن جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اسی طرح شیعہ دوستوں کا بھی مسئلہ ہے،وہ بھی کئی حصوں میں منقسم ہیں۔ اہلحدیث دوستوں بھی دراڑیں نظر آتی ہیں ۔اس جماعت میں بھی آٹھ اور بیس تراویح پر اختلاف ہے ۔ مسلمانوں میں سنیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ان میں تقسیم در تقسیم کا عمل بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ اور اب تو یہ تقسیم سفیداور سبز پگڑیوں تک آپہنچ ہے۔ خدا جانے اب مزید آگے اور کتنی تقسیم ہو گی ۔ لہذا مسلمانوں کی تقسیم کاسب سے بڑا سبب یہی مسلکی اور انفرادی پہچان کی سوچ ہے۔ اور آج کامسلمان نہ صرف ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہو چکاہے بلکہ دنیا بھر میں دین اسلام کے پیروکاروں کو دہشت گرد منوانے پر تلا ہوا ہے ۔ ضروت اس امر ہے کہ تمام دینی مدارس میں مسلکی اور انتہا پسندی کی تعلیم پر فوراََ پابندی عائد کی جائے ۔تمام دینی اداروں کو حکومت اپنی نگرانی میں لے کر تمام مکاتب ِفکر کے علمائے کرام کی مشاورت سے ایک ایسا نظام ترتیب دے ، جس میں دین ہو نہ کہ مسلک، جس میں پیار ہوبھائی چارہ سکھایا جائے نہ کہ نفرتوں کے بیج بھوئے جائیں۔ حکومت اگر یہ بیڑا اٹھاتی ہے تو دینی تعلیم دینے والے اساتذہ کی سرکاری تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کافریضہ سرانجام دینے والوں کے برابر تنخواہیں دے۔ اور ساتھ ہی ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی طرح ضعیف العمری کو پہنچنے والے دینی مدارس کے اساتذہ کو بھی پنشن دی جائے۔ تاکہ دین کی خاطر اپنی ساری عمر لگانے والے بڑھاپے میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں ۔

سیکولر تعلیم اور اس کے اداروں کی بات کریں تو ہمیں یہاں بھی تقسیم نظر آتی ہے۔ پہلے تو مختلف نصابوں کے ساتھ سرکاری و نجی تعلیمی ادارے ہمیں نظر آتے ہیں۔ تاہم ان میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نظر نہیں آتا۔ آزادکشمیر میں سب سے بڑا ادارہ سرکاری محکمہ تعلیم ہے ۔اس سے وابسطہ ہر سطح کے تعلیمی ادارے میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے معیار تعلیم تباہی کے کنارے تک پہنچ چکا ہے۔آزادکشمیر میں کسی بھی تعلیمی ادارے میں ترقی و تبادلہ وہاں کے رکن قانون ساز اسمبلی کی مرضی و منشا کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ان حالات سے سبھی لوگ بڑی اچھی طرح واقف و اگاہ ہیں ۔راقم کی اس بات سے شاید ہی کوئی ذی عقل اختلاف کرے کہ آزاد کشمیر میں سرکاری تعلیمی اداروں اور محکمہ تعلیم کی تباہی و بربادی کے ذمہ دارہمارے سیاسی رہنما ، دیہاتوں اور محلوں کے چودھری اور کھڑ پینچ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ غریب سے غریب شخص بھی اپنے بچے کو آج پرائیویٹ اسکول میں داخل کروانا چاہتا ہے ،کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ جس سرکاری تعلیمی ادارے میں وہ اپنا بچہ بھیج رہا ہے وہاں کا نتیجہ کیا ہو گا۔ اسی بنا پر گلی گلی محلے محلے نجی تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں ۔ اور آئے روز ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ان اداروں میں پڑھانے والے شاید سرکاری تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ کے مقابلے میں کم پڑھے لکھے اور کم تجربہ کار اور کم تنخواہوں پر کام کرنے والے ہوتے ہیں مگر ہزاروں اور لاکھوں میں تنخواہیں وصول کرنے والے سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں بہتر نتائج دے رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے اوپر کسی نہ کسی طرح کا چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں کا نظام بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کوسرکاری تعلیمی اداروں کی طرح ایک ہی نصاب پڑھانے کا پابند بنائے اورانہیں اپنے طریقے سے کام کرنے دے ۔ آئے روز انہیں تنگ کرنے کے مختلف طریقے اور بہانے نہ ڈھونڈے جائیں ۔ کیوں کہ انہوں نے حکومت کابہت سارا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ تاہم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے لیے ایک ہی امتحانی سلسلے کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

سلسلہ تعلیم کے حوالے سے ہمارا ایک اوربھی بڑا مسئلہ ہے ۔آزادکشمیر دنیا کا غالباََ واحد خطہ ہے جہاں پر دو وزیر تعلیم اور ان کے ماتحت سیکڑوں لوگ مختلف عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ جبکہ پڑوس میں پاکستان، بھارت ، چین اور دنیا کے دیگر بڑے بڑے ممالک میں ایک ایک وزیر تعلیم کام کر رہا ہے اورریاست جموں کشمیرکے مقابلے میں کئی بہتر کام ہو رہا ہے۔ پھر آزادکشمیر میں دو ورزائے تعلیم اور ان کے ماتحت افسروں کی ایک فوج ظفر موج قوم پر کیوں بوجھ بنی ہوئی ہے ۔ اس فوج کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ الٹا قوم کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے والاسرمایا ان کی تنخواہوں اور ٹی اے ڈی اے پر خرچ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ سیاسی ’’اسامیاں‘‘ تشکیل دے کراپنے حواریوں کو خوش کرنے کی بجائے ملک و قوم کا سوچا جائے اور یہ دو وزارتوں کاسلسلہ قائم رکھ کران کا بوجھ قومی خزانے پر نہ ڈالا جائے۔ ایک وزارت کے ساتھ بہترین کام ہوسکتا ہے۔ اسی کو مؤثر سے مؤثر تربنایا جائے۔

اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ گر ہم اپنی قوم اور ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو پھر ہمیں وہ کام کرنے ہوں گے جن سے ہمارا مستقبل روشن ہو۔ ہم کسی کے دست نگر نہ بنیں۔ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں نہ کوسیں، کہ ہمارے بڑوں نے کچھ نہیں ۔ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا،اور سب سے پہلے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں پر خصوصی توجہ دے کر نصاب اور نظام تعلیم کو بہتر اور مؤثر بنانا ہوگا۔ اور تعلیمی اداروں سے ہمیں سیاسی مداخلت کا مکمل خاتمہ کرنا ہو گا۔ میرٹ کی بحالی یقینی بنانے کے علاوہ سفارشی کلچر کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہو گا۔ چیک اینڈ بیلنس کا ایسا مؤثرنظام متعارف کروانا ہوگا۔ جس کی موجودگی میں کوئی بھی شخص اپنے فرائض میں غفلت کاسو چ بھی نہ سکے ۔تعلیمی اداروں سے رٹہ سسٹم کاخاتمہ کر کے طلباء و طالبات کے اندر چھپی صلاحیتوں کو سامنے لانے کے لیے ضروری اور عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بھوت بنگلے بنے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بہتر کی جائے۔ تاکہ پڑھنے اور پڑھانے والے پورے اطمینان کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو لفظی یا فائلوں کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر بااختیار بنائے ۔تعلیمی نظام کے اندر چیک اینڈ بیلنس کا ایک مضبوط نظام بنا یا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان اداروں سے بہتر نتائج آ سکتے ہیں۔تعلیم و تعلم کے سلسلے میں تیسری اکائی والدین ہوتے ہیں ۔ انہیں بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں پوری طرح ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی بنائی جائے۔ دیکھنے اور تجربہ میں یہی آیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اسکول تک پہنچاناہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ جو سراسر غلط سوچ ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین کا بھی اتنا ہی رول بنتا ہے جتنا اساتذہ اور اسکول کا ہوتا ہے ۔ والدین کو ساتھ لے کر چلنے سے تمام اقدامات کے نتائج بہتر آ سکتے ہیں۔آخری بات ہم بہت سارے کاموں میں انگریزوں کی نقل کرتے ہیں۔کاش ہم ان کے محکمہ تعلیم کے اندر چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی بھی نقل کر لیں۔اﷲ ہمارا حامی ناصر ہو۔ آمین۔
 
Mahboob Kakrvi
About the Author: Mahboob Kakrvi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.