الوداع خادم القرآن مصباح القراء حضرت العلامہ حافظ و قاری محمد عبداﷲ قریشی الازہری علیہ الرحمہ الوداع

الوداع خادم القرآن مصباح القراء حضرت العلامہ حافظ و قاری محمد عبداﷲ قریشی الازہری علیہ الرحمہ الوداع

حیدرآباد کی عظیم المرتبت شخصیت مصباح القراء حضرت العلامہ مولانا حافظ و قاری محمد عبداﷲ قریشی الازہری خطیب مکہ مسجد و نائب شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے علمی و قرآنی فیض سے ہزاروں طلبہ استفادہ کرچکے ہیں اور انشاء اﷲ العزیز انکا یہ فیض تا قیامت جاری رہے گا۔ حضرت ملک و بیرون ملک خوش الحانی کے ساتھ قرآن مجید تلاوت فرماکر امت محمدیہ صلی اﷲ علیہ و سلم کے قلوب کو نورانیت بخشتے رہے ۔ مصباح القراء فضیلت الشیخ حضرت محمد عبداﷲ قریشی الازہری علیہ الرحمہ 19؍ سپٹمبر 1935ء حضرت حافظ و قاری محمد عبدالرحیم علیہ الرحمہ امام مکہ مسجد حیدرآباد کے گھر تولد ہوئے اور 8؍ ڈسمبر2015کو آپ خالق حقیقی سے جاملے۔ گیارہ سال کی عمر میں مکہ مسجد کے مدرسہ حفاظ شاہی سے حفظ و قرأت قرآن مجید کی تکمیل کی۔ تکمیل حفظ قرآن مجید کے موقع پر حیدرآباد کے آخری تاجدار نواب میر عثمان علیخان بہادر فارغین حفاظ کی دستار بندی فرماتے اور انہیں خلعت عطا فرماتے تھے۔ اس موقع پر مولانا قاری فخر الدین صدر مدرس مدرسہ حفاظ شاہی مکہ مسجد نے تعارف کراتے ہوئے شاہ وقت سے کہا کہ یہ مکہ مسجد کے امام حافظ و قاری محمد عبدالرحیم صاحب کے فر زند ہیں۔ نواب میر عثمان علی خان نے مولانا عبداﷲ قریشی الازہری کو دیکھ کر کہا ’’ارے یہ تو بہت چھوٹا ہے‘‘۔ مولانا عبداﷲ قریشی الازہری کے والد ماجد حافظ و قاری عبدالرحیم علیہ الرحمہ انکے تایا حافظ قاری شیخ محمد با معافہ علیہ الرحمہ کی جگہ امامت پر فائز ہوئے تھے۔ مولانا کے اجداد یمنی با معافہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جن کا سلسلہ نسب نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔ مولانا عبداﷲ قریشی الازہری تکمیل حفظ کے دوسرے سال سے یعنی 12سال کی عمر سے پابندی کے ساتھ تراویح میں قرآن مجید سنانے کا شرف حاصل فرماتے رہے۔آپ کی تعلیم مسجد عامرہ عابڈس میں حضرت مولانا رشید پاشاہ قادری ؒ کی سرکردگی میں قائم مدرسہ دینیات میں ایک سال ہوئی۔ اس کے بعد مولوی کا امتحان ناکپور یونیورسٹی سے کامیاب کیا۔ مولوی میں کامیابی کے بعد جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں عالم اول میں داخلہ لیا اور عالم دوم و فاضل اول تک تعلیم حاصل کی۔ عالم دوم کا امتحان ناکپوریونیورسٹی سے دے کر کامیاب کیا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے میٹرک ، پی یو سی اور بی اے کے انگریزی امتحانات میں کامیابی حاصل کی ۔1954سے 1960ء تک بنگلور میں رہے اور وہاں جامع مسجد اسلام آباد میں امامت خطابت فرماتے رہے۔ 1960ء سے 1962ء تک حیدرآباد میں گزارے۔ 1962ء سے 1964ء تک یعنی تین سال تک بمبئی کی مینارہ مسجد میں امامت و خطابت فرماتے رہے۔ مطالعہکے شوق کی وجہ سے آپ ہر روز مسجد سے متصل دارالمطالعہ میں اخبار بینی و کتب بینی فرماتے ایک روز اخبار میں شائع اشتہار میں جامعہ الازہر مصر کے اسکالر شپ کی خبر پڑھے اور اس کے لئے آپ نے انٹرویو دینے کا عزم کیا۔ اس سلسلہ میں آپ دہلی گئے جہاں پر مولانا سعید احمد (جامعہ ازہر کے فارغ) اور مولانا عبداﷲ بخاریؒ شاہی امام جامع مسجد دہلی کے علاوہ مصر کے ایک نمائندہ نے آپ کا انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو میں جملہ 114امیدواروں نے شرکت کی جن میں سے صرف10امیدواروں کا انتخاب عمل میں آیا۔ چونکہ آپ بمبئی سے آئے ہوئے تھے اسی لئے آپ کو بمبئی کے نمائندہ کی حیثیت حاصل تھی۔ انٹرویو میں منتخب ہونے کے بعد مصر جانے کے لئے والد ماجد سے اجازت لے کر حیدرآباد سے روانہ ہوئے۔

حضرت مصباح القراء محمدعبداﷲ قریشی الازہری رحمۃ اﷲ علیہ نے آپ کے دو روزہ 50سالہ جشن اعتراف خدمات 11,12مئی 2012کے موقع پر ’’راقم الحروف ‘‘ کوہفتہ روزہ گواہ ‘‘ کیلئے دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا جو قارئین کے لئے پیش ہے۔جامعہ ازہر جانے کے بعد اﷲ کے فضل و کرم سے حصول تعلیم میں مزید دلچسپی پیدا ہوئی ، عربی زبان سے اتنہائی دلچسپی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جب بھی موقع ملتا مصر کی مختلف مساجد میں درس میں شرکت فرماکر عربی تقاریر سماعت فرماتے۔ عربی سے محبت و تڑپ کا یہ حال تھا کہ عرب بچے فٹبال یا دوسرے کھیل کھیلتے تو ان کے قریب ٹھہر کر عربی زبان کو سنتے اور دیکھنے کی کوشش کرتے۔ دورانِ طالب علمی پڑھائی پر زیادہ توجہہ دیتے ہوئے امتیازی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ بعض امتحانات میں اہل عرب بھی ناکام ہوجاتے تھے الحمدﷲ اس میں بھی آپ علیہ الرحمہ کو کامیابی حاصل ہوتی۔ مصر میں 1965سے 1973ء کے دوران الشعادہ العالیہ (B.A)، ماجسٹیر(M.A)کیا پی ایچ ڈی میں داخلہ لئے تین سال تک مقالہ کی تکمیل میں منہمک رہے ، مقالہ تکمیل کے مراحل میں تھا لیکن آپ کے والد ماجد کے انتقال کی وجہ حیدرآباد واپس ہوگئے جس کی وجہ سے مقالہ پیش نہ کرسکے۔ حیدرآباد واپسی کے بعد 1973ء میں نواب میر عثمان علی خان کی سالانہ فاتحہ کے موقع پر نظام ہشتم نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر، مسجد جودی کنگ کوٹھی میں مولانا کی قرأت قرآن مجید سماعت فرماکر متاثر ہوئے اور اپنی سرپرستی میں مکرم جاہ دارالتجوید القرأت کا قیام 1974ء میں عمل میں لایا۔ جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ( حضرت خرابی صحت کے باوجود پابندی سے انتقال سے چند روز قبل تک بھی اپنے اس عظیم الشان قرأت قرآن شریف کے مشن کو جاری رکھے ہوئے تھے)۔ یہ سلسلہ ابتداء میں پرانی حویلی میں اس کے بعد چومحلہ کے ہال میں پڑھاتے رہے اس کے بعد مکہ مسجد کے پیچھے آثار مبارک کے حصہ میں کئی برس تک قرأت قرآن کی مشق کراتے رہے اور اب یہ سلسلہ خواجہ کا چھلہ مغل پورہ میں جاری تھا۔ قرأت قران مجید کی اس نورانی محفل میں شرکت کرکے استفادہ کرنے والوں میں کئی بڑے بڑے حفاظ و علماء کے علاوہ عام مسلمان شامل ہیں۔

مکہ مسجد میں خطابت کا آغاز: 1987ء میں انجمن قادریہ کے صدر مولانا سید محمد قادری علیہ الرحمہ نے گھر آکر مکہ مسجد میں ہر جمعہ خطابت کی پیشکش کی۔ مکہ مسجد میں اُس وقت حضرت حاجی منیر الدین رحمۃ اﷲ علیہ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ خطابت فرماتے تھے۔ مولانا عبداﷲ قریشی الازہری ؒ نے مولانا سید محمد قادری علیہ الرحمہ سے کہا کہ اگر استاد محترم (حضرت حاجی منیر الدین ؒ) کی اجازت ہو تو خطابت کے لئے تیار ہوں اور آپ کی پیشکش کو قبول کرتا ہوں۔ 1987ء سے پابندی کے ساتھ مکہ مسجد میں جمعہ کی امامت و خطابت فرماتے رہے۔ مکہ مسجد میں گذشتہ دو دہے سے زائد عرصہ سے رمضان المبارک کے پہلے دہے میں نماز تراویح میں مکمل قرآن سنانے کی سعادت حاصل کی۔ اس سے قبل بلہاری، گنگاوتی اور حیدرآباد کی مساجد حضرت کلیم اﷲ حسینی کی مسجد، مسجد حافظ ڈنکا میں رمضان المبارک کے پورے ماہ میں ایک قرآن مجید سناتے تھے۔ مکہ مسجد میں پہلا دہا سنانے کا آغاز اس طرح ہوا کہ ایک سال مہتمم جناب امام غوری نے خواہش کی ان کے اظہار خیال پر مولانا نے ان سے پوچھا کے کیا مصلیان مکہ مسجد اور لوگوں کی یہ خواہش ہے جس پر معتمد صاحب نے ہاں میں جواب دیا اس طرح رمضان المبارک میں نماز تراویح کے پہلے دہے میں مکمل قرآن مجید سنانے کے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ عیدگاہ میر عالم میں عید کی نماز پڑھاتے اور خطبہ دیتے رہے کیونکہ جو خطیب مکہ مسجد میں مقرر ہیں اسی خطیب وامام کو عیدگاہ میرعالم میں خطابت و امامت کا شرف حاصل ہوتا ۔ مولانا کی مکہ مسجد میں خطابت اور تروایح میں توسیع کے تعلق سے حضرت مولانا حمید الدین حسامی عاقلؒ عیدگاہ میں خطاب کے دوران فرمایا کرتے تھے ’’ مولانا عبداﷲ قریشی الازہری کو توسیع کی کیا ضرورت ہے تاحیات آپ کو تراویح کے لئے مکہ مسجد میں مقرر کردیا جائے جبکہ رمضان المبارک میں حوض کے آگے تک لوگ تراویح پڑھنے آجاتے ہیں۔‘‘

جامعہ ازہر مصر سے واپسی کے بعد 1977-78ء میں جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے ۔ ابتداء میں نائب شیخ الادب جدید عربی زبان پر تقرر عمل میں آیا۔ اس کے بعد شیخ الادب اور پھر نائب شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے اور یہ سلسلہ آخر وقت تک جاری رہا۔1982ء سے 1993ء تک لطیفیہ عربی کالج ملحقہ جامعہ عثمانیہ (مسائیہ) کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ کو لطیفیہ کالج میں عربی زبان کی خدمت کرنے کا موقع ملا اور وہاں کے فارغ طلبہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں جن میں قابل ذکرمرحوم مولانا ڈاکٹر عبدالمعزسابق صدر شعبہ عربی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی وغیرہ شامل ہیں۔

مولانا عبداﷲ قریشی الازہری علیہ الرحمہ پابند شریعت ہونے کے ساتھ ساتھ سلسلہ طریقت سے منسلک رہے۔ آپ سب سے پہلے1950ء میں حضرت ابو الفضل سید شاہ اسماعیل حسینی ملتانی قادری ؒ سے بیعت فرمائی۔ مولانا نور اﷲ حسینی افتخاریؒ سے سلسلہ چشتیہ میں بیعت کی، مصر میں الشیخ ابراہیم عوض مصریؒ سے سلسلہ خلوتیہ میں بیعت فرمائیاور خلافت سے نوازے گئے۔ 1979ء میں پہلی مرتبہ امریکہ جانے سے پہلے حضرت ملتانی رحمۃ اﷲ علیہ نے آپ کو خلافت سے نوازا، آپ کے دست حق پرست پر طالبان حق بیعت کرکے سلسلہ قادریہ ملتانیہ میں داخل ہوئے ،اس طرح رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ ہندوستان کے کئی شہروں میں مقابلہ قرأت قرآن مجید میں جج کی حیثیت سے شرکت فرماتے رہے۔ 1974ء میں ملیشیاء میں مقابلہ قرأت میں شرکت کی۔ دو مرتبہ سال 1979-80میں تراویح سنانے کے لئے امریکہ گئے۔ 1982ء میں مکہ مکرمہ میں چوتھے عالمی مقابلہ قرأت میں بحیثیت جج شریک ہوئے۔ 22سال کی عمر یعنی 1958ء میں فریضہ حج ادا کیا۔ 2001-02میں اہلیہ محترمہ (مرحومہ) کے ساتھ حج بیت اﷲ و زیارت نبوی ﷺ سے مشرف ہوئے۔ اس کے علاوہ حکومت ہند کی جانب سے حج ویلفیر کی جانب سے 2007ء میں دوسری اہلیہ محترمہ (مرحومہ) کے ساتھ دوبارہ حج کی سعادت حاصل کی۔ مولانا عبداﷲ قریشی الازہری ؒکی قرآنی خدمات ، علوم اسلامیہ و عربی زبان کی خدمات کا احاطہ ان مختصر سطور میں کرنا محال ہے۔ آپ علیہ الرحمہ با عمل ، متقی پرہیز گارحافظ قرآن و عالم دین تھے۔ حضرت علیہ الرحمہ کی اقتداء میں لوگ نماز جمعہ اور رمضان المبارک کے پہلے دہے میں تراریح پڑھنے کو باعثِ سعادت سمجھتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے۔ آپ کی اقتداء میں نماز جمعہ اور تراویح پڑھنے کے لئے بڑے بڑے علماء و مشائخ اور حفاظ ترجیح دیتے۔ آپ کی خدمات کے پچاس سالہ جشن کا اہتمام شہر حیدرآباد میں 11، 12؍ مئی 2012منایا گیا۔ اس موقع پر مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ کی کتاب ’’حضرت علامہ محمد عبداﷲ قریشی الازہری حیات و خدمات‘‘ کی رسم اجراء عمل میں آئی ۔ جامعہ نظامیہ سے حضرت مولانا حافظ و قاری محمد عبداﷲ قریشی الازہری پر چار طلبہ نے پی ایچ ڈی (تخصص) کیا ہے جن میں محترمہ ممتاز بیگم صدر معلمہ کلیۃ البنات جامعہ نظامیہ ، شیخ محمد یاسر القضبانی (کویت)، ڈاکٹر محمد صفی اﷲ خان ایڈیٹر دائرۃ المعارف اور ڈاکٹر محمد فاروق حسین نظامی ہیں۔ آپ کی تیسری اہلیہ صاحبہ جو حضرت عبداﷲ قریشی الازہری کی آخر وقت تک خدمات انجام دیتے ہوئے دعائیں حاصل کرتی رہیں، اﷲ تعالیٰ آپ صاحبہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ، استادِ محترم حضرت عبداﷲ قریشی الازہری علیہ الرحمہ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے درجات میں بلندی عطا فرمائے آمین ثمّ آمین۔مولانا حافظ محمد رضوان قریشی امام مکہ مسجد جوآپ کے بھتیجے ہیں انہوں نے آپ ؒکے سانحہ ارتحال کو ملت اسلامیہ کے لئے ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے آپؒ کے درجات میں بلندی کیلئے دعاؤں کی درخواست کی ہے۔
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 358 Articles with 257133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.