حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

عجیب ہُو کا عالم تھا ، نفسا نفسی اس سے بڑی اور کیا ہو گی کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں سکیورٹی گارڈز کے حصار میں بیٹھے صاحب لوگ بھی گاڑیوں کو چھوڑ کر گارڈز کے حصار سے نکل کر بیچ سڑک بیٹھے تھے،اﷲ اکبر، استغفراﷲ، اذان اور دعاؤں کی آوازیں اس سڑک سے آرہی تھیں جہاں گاڑیوں کی آوازیں کانو ں کو چیرتی ہیں ۔اسی نفسا نفسی کے عالم میں ایک نوجوان سڑک کنارے اور سڑک کے بیچ بیٹھے افراد کی اس حالت کو دیکھ کر اپنے دوست کو اشاروں سے افراد کی یہ بے یارومدد گار حالت دکھاتااور اپنے دوست کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر زور کا قہقہہ لگا تا۔زلزلہ شدت اختیار کر رہا تھا اور یہ نوجوان لوگوں کی کسمپرسی کی حالت کو دیکھ کر اور زیادہ’’ انجوائے‘‘ کر رہا تھا ۔نوجوان کی اس حالت کو دیکھ کر اور خوف پیدا ہو رہا تھا کہ ابھی کہیں سے کوئی بلڈنگ گرتی ہے یا پھر زمین پھٹتی ہے مگر اﷲ نے اس نوجوان کی اس حرکت کو معاف کرتے ہوئے نہ جانے کس کی پریشانی بھانپی اور زلزلے کو ایک دم روک دیا ۔

زلزلہ رکنے کے کافی دیر بعد میں نوجوان کی ان حرکتوں پر افسوس کرتا رہا مگر یہ افسوس اس وقت جاتا رہاجب ہر بندے کو اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں پر انگلیاں اٹھا ئے وعظ کرتے سنا، کوئی سود پر حکومتی خاموشی کو زلزلہ کی وجہ گردان رہا تھا تو کوئی قتل و غارت ، چوری ، ڈاکہ زنی ، رشوت ، زنا ،کرپشن اور انصاف کے فقدان کو زلزلہ کی وجہ گردان کر اپنا اپنا فرض ادا کر رہے تھے مگر اپنے محاسبہ اور احتساب کا فرض کس نے ادا کیا ؟یہ میں بے پناہ کوشش کے باوجود بھی نہ جان سکا۔مگر محاسبہ اور احتساب تو مجرموں کا ہوتاہے جب کہ رویے یہ بتاتے ہیں کہ یہاں کوئی مجرم ہی نہیں ہے پھرکون سا محاسبہ اور کون سا احتساب۔۔۔

یہ تو ۲۶ اکتوبر کا قصہ ہے کہ جب زمین ایسی ہلی کے ہسپتالوں سے وہ مریض جو بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتے تھے اس راقم نے ان کو دیکھا کہ کیسے ہسپتالوں سے نکل کر باہر بیچ سڑک آرہے تھے ۔مگر پھر کیا ہوا ایک بڑا جھٹکا اور اس کے بعد زندگی اسی ڈگر پر۔مساجد سے حی الصلاح حی الصلاح ، حی الفلاح حی الفلاح کی صدائیں کانوں کو چیرتی ہوئیں دل کے کونے کونے میں گھس گھس کر کہتی ہے کہ فلاح کی طرف آؤ فلاح کی طرف آؤ ، ظلم چھوڑو ، انصاف کرو ، دیانت داری کا دامن نہ چھوڑو، دنیا میں مگن نہ ہوجاؤ مگر یہ صدائیں بھی اس زلزلہ کی طرح کچھ وقت اثر رکھتی ہیں اور پھر دنیا کی رونقوں میں مگن کر کے گھٹا ٹوپ خاموشی کے حصار میں چلی جاتی ہیں ۔شاید کہ ہمارے دل مردہ ہوچکے ہیں شاید کہ ہماری آنکھوں کے سامنے پردہ ہے کہ ہمیں فلاح، دنیا کے دھندوں میں نظر آتی ہے شاید کہ ہم فلاح حاصل ہی نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔

یہ تو ایک واقعہ ہے اس واقعہ کے کچھ دنوں بعدسوشل میڈیا پر پاکستان کی دو مشہور شخصیات کی طلاق کا معاملہ ڈسکس ہو رہا تھا شاید میری یہ غلطی تھی کہ میں اس معاملہ کو ڈسکس کرنے والے دو نوجوانوں کو کہیں کہہ دیا کہ طلاق کا معاملہ نا پسندیدہ ترین عمل ہے اس لیے بہتر ہے کہ اس معاملہ کو نہ اچھالا جائے ویسے بھی دین اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ کوئی کام اچھا نہ ہوتو اس کو نمایاں نہ کیا جائے مگر مجھے کیا پتا تھا کہ یہ نوجوان بھی مذکورہ بالا نوجوان کی طرح ’’انجوائے ‘‘ کرنا چاہتے تھے ان نوجوانوں پر میری اس نصیحت کا جب اثر نہ ہوا تو میں نے یہ حدیث مبارک ان کو باقاعدہ ریفرنس کے ساتھ ارسال کی :
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ابلیس پانی یعنی سمندر پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور اپنے لشکر لوگوں میں فساد کی غرض سے بھیجتا ہے ۔ پس اس کے لشکروں میں اس کے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جس نے سب سے بڑا فتنہ برپا کیا ہو۔اس کے بھیجے ہوئے چیلوں میں سے ایک آکر اسے اطلاع دیتا ہے کہ میں فلاں کے پیچھے لگا ہی رہا یہاں تک کہ اس نے یہ یہ بکواس کر ڈالی، تو ابلیس اسے کہتا ہے ، اﷲ کی قسم ، تو نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ اس کا ایک چیلہ آکر اسے اطلاح دیتا ہے کہ میں نے اس شخص کو اس حال میں چھوڑا کہ اس کے اور اس کی بیوی کے مابین جدائی ڈلوادی تو ابلیس اپنے اس چیلے کو اپنے قریب کرتا ہے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے اور کہتا ہے :کیا خوب کام ہے ۔(مسلم)

یہ حدیث بیان کرنے کے بعد میں نے ان دو نوں نوجوانوں کو سمجھایا کہ میاں بیوی کے درمیان علیحدگی یا پھوٹ ڈلوانا ابلیس کے نزدیک اتنا عظیم اور خوشی کا کام ہے کہ اس کے ایسے چیلے اس کے مقربین میں شمار ہوتے ہیں جو زوجین میں طلاق کا باعث بن جائیں، ساتھ ہی یہ کہا کہ دیکھو یہ کسی کا ذاتی معاملہ ہے اور اس معاملہ میں خوشی شیطان کو ہوتی ہے اور ویسے بھی کسی کے ذاتی معاملہ میں ہمیں کیا اختیار یا حق کہ ہم اپنے خیالات کا بے جاہ استعمال عوام الناس کے سامنے کریں ہاں اگر ہم اپنی خوشی کو چھپا نہیں سکتے تو کم از کم خاموشی ہی اختیار کر لیں کیوں کہ خاموشی میں اپنی بھی سلامتی ہے اور دوسروں کی بھی۔ مگر اس کے بعد اس نوجوان نے مجھے خوش ہو کر کہا کہ ہاں شیطان خوش ہوتا ہے اور مجھے اس طلاق پر شیطان سے بھی زیادہ خوشی ہے ۔یہ جواب سن کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ،سمجھ نہیں آتی تھی کہ اسے کیسے سمجھاؤں کہ شیطان تو ہمارا ازلی دشمن ہے اور شیطان سے یاری تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں مگر شاید کہ ہمیں تباہی و بربادی کا ادراک نہیں شاید کہ ہم اتنے بہادر ہو گئے ہیں کہ ہمیں ان عذابوں سے بھی ڈر نہیں لگتا ہے کہ جن عذابوں سے سلامتی کے لیے رسول پاک ﷺ نے رو رو کر ہمارے لیے دعائیں کیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہم نفرت ذاتی پسند و نا پسند میں اتنا آگے آچکے ہیں کہ ہمیں کوئی احساس ہی نہیں رہا کہ ہم کس منزل کی طرف بڑھتے جارہے ہیں ۔درج کیے گئے دو واقعات میں لگتا تو ایسے ہے کہ ہم ہی ان عذابوں کے قابل ہیں اور اس سے بھی زیادہ اور برے عذابوں کو دعوت دیئے جا رہے ہیں مگر ہم بچ رہے ہیں کیوں ۔۔۔کیوں کہ قربان جائیں اس ہستی پر کہ جس نے اس امت کی سلامتی کے لیے رو رو کر دعائیں مانگی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم بچ بھی اسی لیے رہے کہ یہ انھی دعاؤں کا اثر ہے ورنہ ہم بھی پتھروں کی بارش ، انسان کا بندروں کے بننے، زمین میں دھنس جانے ، طوفان ، آندھی ، سیلاب اور زلزلوں میں صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا سامان کر چکے ہیں ۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
 
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86205 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.