ملکی سرکاری اداروں سے
کرپشن اور بد عنوانی کے خاتمے میں حکومتی عدم دلچسپی کے باعث پاکستان بھر
میں بدعنوانی، کرپشن ، اور اقرباء پروری کی صورتحال روز بروز سنگین سے
سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ کرپشن سے بھرپور تھانہ کلچر، حصول انصاف کا کمزور
نظام، خامیوں سے بھرپور قانون کا نفاذ ، مصلحتوں اور بدعنوان افسران کی وجہ
سے عوام میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا جارہا ہے ، عوام میں عدم
اطمنان کے باعث ، حکومتی و سرکاری اور عدالتی اداروں پر ان کے اعتماد میں
کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ ملک میں موجود انسداد بدعنوانی کے محکموں کی
مایوس کن کارکردگی،اور ان سے استفادے کا پیچیدہ اور سست رو طریقہ کار،
سرکاری اداروں میں کرپشن کا باعث بن رہا ہے۔اسوقت صورتحال یہ ہے کہ بنیادی
سرکاری ادارے مثلاً بجلی ، سوئی گیس ، شہری ترقی کے ادارے، میونسپل کمیٹیاں
، لوکل گورنمنٹ کے دفاتر، سرکاری ادارے کم اور بدعنوانی کی نرسریاں زیادہ
دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جسے انٹر نیشنل دنیا 33واں کرپٹ
ترین ملک قرار دے چکی ہے یہاں کرپشن اتنی عام ہو چکی ہے کہ بعض مقتدر افراد
اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کرپشن کا دفاع اور کرپشن کو فروغ دیاجا تا ہے۔
بر سر اقتدار رہنے والے حکمرانوں میں سے بھی بعض کلیدی عہدوں پر فائز سیاسی
لیڈر کرپشن میں بری طرح ملوث ہیں ، ان کی کرپشن ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے
مگر کہیں سیاسی مصلحتوں اور کہیں کمزور سسٹم کے باعث یہ افراد کرپشن کے
تمام الزامات سے اس طرح بری الذمہ ہوجاتے ہیں جیسے دودھ کے دھلے ہوں۔
پاکستان سپریم کورٹ اورپوری قوم اور میڈیا کرپشن کے خلاف شروع ہی سے آواز
بلند کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کرپشن کے خلاف حکومت ٹھوس اقدامات کرنے
سے گریز کر رہی ہے۔ حکمرانوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کے باعث مہنگائی
بڑھتی جا رہی ہے اور عام لوگوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے
عہدوں پر فائز سرکاری افسر اور حکمران گروہ قومی دولت کی لوٹ مار کے باعث
عیش و عشرت میں مگن ہے اور دوسری طرف غریب اور فاقہ کش لوگ خود سوزی اور
خودکشی کرنے پر مجبور ہے۔ موجودہ حکومت نہ صرف کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر
قانون سازی کرنے سے قاصر ہے ،بلکہ کرپٹ اور راشی افسران خلاف موثر کاروائی
کرنے سے بھی گریز کر رہی ہے۔ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے باعث پی
آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور پبلک سیکٹر کے کئی ادارے تباہی کے دہانے پر
پہنچ چکے ہیں مگر حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ پاکستان میں کرپشن اتنی بڑھ
گئی ہے ایک سال میں 300ارب روپے کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام
بہت باشعور ہیں اور وہ اکثر میڈیا کے ذریعے منتخب نمائندوں کی بدعنوانیوں
کے انکشافات کرتے رہتے ہیں، تاہم حکومت اور اس کے اداروں کی مصلحتوں کے
باعث ان انکشافات کی روشنی میں موثر کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ حکومت کو
منتخب ایوانوں میں اپنی عددی اکثریت برقرار رکھنی ہوتی ہے ۔ یقینا بدعنوانی
کا خاتمہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں موجودہ حکومت ابھی تک کسی قابل ذکر
کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے روایتی
انداز میں کام کر رہے ہیں جن پر عوام کو اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ ان اداروں کو بھی نئے ٹاسک دئیے جائیں ، ان کو جدیدخطوط پر
استوار کیا جائے اور ان کی کارکردگی کو تیز تر کیا جائے۔اسی طرح وفاقی
محتسب کا ادارہ جس نے اوائل میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اب قوم
پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے اس ادارے کی کارکردگی کو بھی موثر بنانے کی
ضرورت ہے۔ بدعنوانیوں کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے عدالتی نظام کو
بھی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بدعنوانی کے خاتمہ کے سلسلے میں حکومت
کو اپنی انتہائی اہم قومی ذمہ داری کا ادراک کرنا چاہیے جس کی طرف اس نے
ابھی تک توجہ نہیں دی اور اسے نظرانداز کیا ہے ۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہیں
کہ وہ جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور اسے ہم اپنی بد
قسمتی کہیں کہ ہم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے ہم اس بدنصیبی اور
بدقسمتی کو اپنی خوش قسمتی میں بدل سکتے ہیں اور اپنے پیارے پاکستان کو جنت
بنا سکتے ہیں اگر اداروں میں میرٹ کو فروغ دیں، رشوت ستانی کا خاتمہ کرنے
کی کوشش کریں،انصاف کو فروغ دیں اور عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے
ان پر عمل درآمدکریں۔ ملکی مفاد کو ذاتی اور انفرادی مفاد پر ترجیح نہ
دیں۔سفارشی کلچر کا خاتمہ کر دیں، امیری اور غریبی کے سٹیٹس کو مٹانے کے
لئے کلیدی کردار ادا کریں، ملک سے سندھی،پنجابی،بلوچی،پٹھان اور کشمیری کے
سٹیٹس کو مٹاکر سب سے پہلے پاکستان کی بات کریں ،ٹیکس چوری،قرضے معافی اور
بجلی چوری جیسے اقدامات سے پرہیز کریں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی
ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا ،ہر پاکستانی خوشحال ہوگا لیکن اس کے لئے ہمیں
خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا، ترقی یافتہ ممالک کی پیروی اور اپنے اسلاف
کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بدعنوانیوں کے خاتمہ
کے لئے نئے موثر قوانین کا اطلاق کرے ، اور انسداد رشوت ستانی کے تمام
اداروں کو فعال کیا جائے اور ان اداروں کی کارکردگی میں تیزی لائی جائے۔
اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے، بلاشبہ ملک
سے کرپشن کے ناسور کے مکمل خاتمے کے بغیر ملک و قوم کی پائیدار ترقی ممکن
نہیں۔
|