اہل ِبیت ِرسو ل ﷺ قرآن و حدیث کی روشنی میں

القرآن،(انما یرید اﷲ لیذھب عنکم الرجس اہل البیتِ ویطھرَ کم تطھیراً(۳۳) ( الاحزاب۳۰،۳۱،۳۲ ،۳۳)ترجمہ،اﷲ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت نبیؐ سے گندگی دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے ۔ان آیات میں نبی ﷺ کی ازواج مخاطب ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے ان کو اہلِ بیتِ نبی ﷺ پکار کر کہا کہ آپ کو تمام آلائشوں سے پاک کر نا اﷲ تعالیٰ کی چاہت ہے ۔عرفِ عام میں اردو میں گھر والے اس معنی میں کہا جاتا ہے جس میں بیوی بچے دونوں شامل ہوتے ہوں جب اﷲ تعالیٰ نے یا نسآء النبیؐ کہ کر پکارا تو حضور ﷺ نے اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں آ پ ﷺ کی اولاد کو اہلِ بیت ِ رسولؐ سے باہر نہ سمجھا جائے ۔ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ام المؤمنین سیّدہ عائشہ ؓ سے حضرت علیؓ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا (تسئالنی عن رجل کان من احب الناس الیٰ رسولِ اﷲ ﷺ وکانت تحتہ ابنتہ واحب الناس الیہ )تم اس شخص سے متعلق پوچھتے ہو جو رسولِ پاک ﷺ کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضور ﷺ کی وہ بیٹی تھی جو آپ ﷺ کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔ اس کے بعد یہ واقعہ سنایا کہ جب آیت تطہیرنازل ہوئی تو حضور ﷺ نے حضرت علیؓ حضر ت فاطمہؓ حضرت حسنؓ حضرت حسینؓ کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈالا اور دعاء فرمائی (الھمَّ ھٰؤلآء اہلِ بیتی فاذھب عنھم الرجس و طھر ھم تطھیراً)اے اﷲ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر طرح کی گندگی دور کر دے اور انہیں پاک کر دے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا میں بھی تو اہلِ بیت سے ہوں اس چادر کے نیچے لیں اور دعاء فر مائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا تم تو ہو ہی اس سے الگ رہو ۔اس سے ملتے جلتے مضمون بکثرت احادیث،مسلم،ترمذی، احمد ،ابن جریر، حاکم، بہیقی وغیرہ میں محدثین ابو سعیدؓ خدری، ام المؤ منین حضرت عائشہؓ ، حضرت انسؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت واثلہ ؓبن اسقع،اوربعض دوسرے صحابہؓ سے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺنے علیؓ،فاطمہؓ، حسنؓ ، حسینؓ، کو اپنا اہلِ بیت قراردیا بعض متعصبین اس طرز عمل کے نتیجے ازواج مطہرات کو اہل بیت ِ رسول ﷺ سے خارج ٹھراتے ہیں اور بعض متعصب لوگ قرآن کی آیات کا مفہوم اپنے انداز میں لیتے ہوئے حضرات ِ علی،فاطمہ،حسن،حسین رضوان اﷲ علیھم اجمعین کو اہل ِ بیت رسول ﷺ سے خارج ٹھراتے ہیں۔ یہ دونوں نظریے باطل اور افتراء ہیں یہی وہ خدشات تھے جن کونبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دور فر ما دیا ۔ اب اگر کوئی اس طرح کی بات کرے تو وہ قرآنِ پاک کے ناقص ہونے اور رسول اﷲ ﷺ پر عدم اعتماد کا مرتکب قرار پائے گا۔․․․․․․․ ان چار افراد یعنی(علیؓ ، فاطمہ ؓ، حسن ؓ، حسین ؓ ،)جن کو چادر میں لپیٹ اپنا اہلِ بیت قرار دیا ان کے بارے میں قرآن کی یہ دلیل واضح ہے۔ ۹ھ ؁ کو نجران کے وفد کی آمدپر نازل ہوئی جس میں عیسائیوں کے وفد نے کٹ حجتیوں اور کج بحثی سے اس کے باوجود کہ ان کے علماء دل ہی دل میں قرآن کی تعلیمات کو جانتے تھے ہٹ دھر می کی بنیاد پر مان کے نہیں دیتے تھے ۔اس طرح اس آیت کے ذریعے رسول کریم ﷺکو مباہلہ کا حکم دیا اور فر مایا(فقل تعا لوا ندع ابنآء نا وابنآء کم ونسآ ء نا ونسآء کم وانفسنا وانفسکم ،ثمّ نبتھل فنجعل لعنت اﷲ علیَ الکاذبین۔(آلِ عمران۶۱)اے محمد ﷺ ان سے کہو کہ آؤ ہم اورتم خود بھی آجائیں اور اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خدا سے دعاء کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو ۔اگرچہ عیسائی پادری مباہلے کے لئے نہیں آئے اور ڈر گئے کہ نبی ﷺکی دعاء ہر صورت قبول ہوتی ہے ہم فناہ ہو جائیں گے لیکن جو بیان کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ نبیؐ نے انہیں چار افراد کو ساتھ لیا جن پر چادر تطہیر کا سائیہ کیا تھا یعنی علیؓ ،فاطمہؓ ، حسن ؓ ،حسینؓ ، لہٰذا قرآن سے ثابت ہوا کہ اہلِ بیت رسول ﷺ میں اولاً ازواج مطہرات ؓ اور ثانیاً علی، فاطمہ،حسن ،حسین رضی اﷲ عنھم ہیں ۔احادیث میں اہلِ بیت رسولﷺ کی تشریح تفصیل سے موجود ہے ان میں حضور ﷺ کی تمام بیٹیاں ،نواسے ،نواسیاں اہلِ بیت ِ رسولؐ ہیں ․ البتہ اﷲ عالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ حضور ﷺ کے تمام صاحبزادے،صاحبزاد یوں کی اولاد سوائے فاطمہؓ بنت ِرسول اﷲ ﷺ دنیا میں موجود نہیں ؟اور سیّدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھاکی اولادسے ہی قیامت تک رسول کریم ﷺکی نسل کو باقی رکھا یہ اعزاز بنی فاطمہؓ کوہی حاصل ہے کہ ان کا نسبی تعلق رسول اﷲ ﷺ سے ہے ۔(عن عائشۃ رضی اﷲ عنھا ما رأیت احداً کان اصدق لھجۃمن فاطمۃ الا ان یکون الذی ولد رسول اﷲ ﷺ۔)حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے فاطمہؓ سے بڑھ کر کسی کو سچ بولنے والانہیں دیکھا ہاں وہی ایسا ہو سکتا ہے جو نبی ﷺ کی اولاد ہو ۔(وفی حدیث اخرجہ ابن عساکر عن علیّ رضی اﷲ عنہ لکل بنی أب عصبتۃ ینتمون الیھا الّا ولد فاطمۃؓ ، فانا ولیھم وعصبتھم ، وھم عشیرتی،خلقوا من طینی)ابن عساکر نے حضرت علیؓ سے روایت کیا ہے کہ ہر باپ کی اولادکی نسبت اسی کی طرف ہوتی ہے سوائے اولاد فاطمہؓ کے پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میری طرف ہی ان کی نسبت ہے اوروہ میرا گھرانہ ہے ان کی تخلیق میری مٹی سے ہوئی۔(وفی طبرانی عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ مرفوعاً :کل بنی انثی فان ّ عصبتھم لأبیھم․ما خلا ولد فاطہؓ ․ فانّی انا عصبتھم وأبوھم ۔) طبرانی میں حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ ہر عورت کی اولادکی نسبت ان کے باپوں کی طرف ہوتی ہے سوائے اولاد فاطمہ ؓ کے بے شک میری طرف ان کی نسبت ہے اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔ایک اور دلیل اہلِ بیت ِ اطہارسے متعلق یہ ہے کہ(عن ام سلمۃَ رضی اﷲ عنھا قالت سمعت رسول اﷲﷺ یقول المھدی من عترتی من ولد فاطمۃ رضی اﷲ عنھا) (ابو داوود)حضرت سیّدہ ام سلمہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ مہدی میرے خاندان میں سے فاطمہؓ کی اولاد سے ہوں گے۔حضرت امامِ مہدی والد کی طرف سے امامِ حسنؓ کی اولاد سے اور والدہ کی طرف سے امامِ حسینؓ کی اولاد سے ہوں گے ۔․ (شرح ابو داوود،عون المعبود، کتاب المھدی) ایک اور دلیل کہ بنی سیّدہ فاطمہؓ ہی اولاد ِ رسول ﷺہے(واحتجّ قائلو ھذا القول بحدیث الکسآء الثابت فی صحیح مسلم وغیرہ فروی من طرق عدیدۃ صحیحۃ انَّ رسول اﷲ ﷺ جآءَ ومعہ علیّ وفاطمۃ والحسن والحسین رضی اﷲ تعالیٰ عنھم،ثمّ أخذ کل واحد منھما علی فخذہ ثمّ لفّ علیھم کساء ً ثمّ تلا ھٰذہِ الآٰ یۃ: انما یرید اﷲ لیذ ھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیراً ۔وقال : اللّٰھم ھٰؤلآء اھل بیتی فاذھب عنھم الرجس وطھر ھم تطھیراً : وفی روایۃ اللّٰھم ھؤلآء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک علی آل محمد کما جعلتھا علی آل ابراھیم انک حمید مجید ) (کذا فی روح المعانی ج ۲۲ ص۱۴) اس میں کوئی شک نہیں کہ صحیح مسلم میں ثابت ہے اور کثیر طرق سے یہ صحیح ہے بے شک رسول اﷲ ﷺ تشریف لائے ان کے ساتھ حضرت علی حضرت فاطمہ حضرت حسن حضرت حسین رضی اﷲ عنھم تھے ان میں سے ہر ایک کو پکڑا پھر ان پر ایک چادر ڈال دی اور پھر یہ آیت تلاوت کی اﷲ یہ چاہتا ہے اے اہلِ بیت ِ رسول ﷺگندگی دور کر دے اور تمہیں پاک کر دے پھر آ ﷺ نے دعا فرمائی اے اﷲ یہ میرے اہل ِبیت ہیں ان سے گندگی دورر فرما اور انہیں پاک فرما دے ایک دوسری روایت میں ہے حضورؐ نے دعا فرمائی اے اﷲ یہ آلِ محمدؐ ہیں ان پر اپنی رحمتیں اور بر کتیں عطاء فرما جس طرح تونے ابراھیم ؑ اور ان کی آل پرعطاء فرمائیں بے شک توہی تعریف کے لائق اور بزرگی والاہے۔(اہم نکتہ)اس دوسری حدیث کی روشنی میں اہلِ بیت ِ رسول ﷺ کو آلِ محمد ؐ بھی کہا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بر بنائے حیثتت اہلِ بیتِ رسولﷺ آلِ رسول ؐ میں تو شامل ہیں لیکن آلِ رسولؐ بر بنائے حیثیت اہل ِ بیت رسول ؐ میں شامل نہ (ھٰذا ما عندی واﷲ علم) (عن ابی سعید خدریؓ قال: قال رسول اﷲ ﷺانی تارک فیکم الثقلین احد ھما اکبر من الآخر ، کتاب اﷲ حبل ممدود من السمآء الی الارض وعترتی اھل بیتی وانھما لن یتفرقاحتیٰ یردا علی ا لحوض․رواہ الطبرانی فی الاوسط مجمع ج ۹ ص۱۶۳)ابی سعید خد ری ؓ فر ماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فر مایا میں تم میں دو مرکز ثقل چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے پہلی بہت بڑی ہے وہ کتا ب اﷲ ہے جو ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک ہے ، اور میری عترت ِ اہلِ بیت ہے ان دونوں کو فرق نہیں یا فرق نہ کرنا یہاں تک کہ تم مجھے حوضِ کوثر پر ملو۔گویا کتاب اﷲ کے ساتھ اپنے اہلِ بیت کو بھی مرکز ثقل قراردیا ۔یہاں اہل بیتِ سولؐ کے لئے بھی ا س میں ایک نکتہ مضمرہے کہ قرآن کی حفا ظت اس کی اشاعت اس کی تعلیمات کا فروغ اور اس پر عمل ان کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ہے ان کی فضیلت نبی ﷺ کی نسبت اور قرآن کے حامل ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اہل ِ بیت اطہار کے فضائل میں بیسیوں احادیث ہیں لیکن ان کا یہاں جمع کرنا مضمون کا موضوع نہیں بلکہ تعارفِ نسب کے لئے چند احادیث پر اکتفا کیا گیا ۔اہل ِ بیت ِ رسول ﷺ کے مختصر جائزے کے بعدآلِ رسول ﷺ کا تعارف کرایا جائے گا تاکہ اہل بیت رسول ﷺاور آل رسول ﷺکافرق ظاہر ہو۔․․․․․․․․․․ ﴿آلِ رسول کا تعارف﴾ آلِ رسول ﷺ کون ہیں( واخرج ابن عساکر عن حبشی بن جنادہؓ مرفوعاً انَّ اﷲ اصطفی العرب جمیع الناس واصطفی قریشاً من العرب واصطفی بنی ھاشم من قریش واصطفا نی واختارنی فی نفرمن اھل بیتی علیّ وحمزۃ وجعفر والحسن والحسین (کنزج ۱۱ص۷۵۶) ابن عساکر میں حبشی بن جنادہ ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے عرب والوں کو تمام انسانوں سے بر گزیدہ کیا اور قریش کوعرب والوں سے برگزیدہ کیا اور قریش سے بنی ھاشم کو بر گزیدہ کیا اور مجھے اور میرے اہل بیت کے ہر فرد کوبر گزیدہ کیا یعنی علیؓ ،حمزہؓ ،جعفر ؓ ، حسنؓ ، حسین ، ؓ )آلِ رسولؐ کی یہی ترتیب جو رسول اﷲ ﷺ دی۔شرف ِنسب فی الحقیقت ہے ہی البتہ آلِ رسول ﷺاولادِ بنی ھاشم ہیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اہل ِ بیت ِ رسول ؐ فضیلت کو بر قرار رکھتے ہوئے بر بنائے حیثیت آل ِ رسول ﷺ میں شا مل ہیں اس لئے کہ بجا ئے خود بھی بنو ھاشم سے ہیں جبکہ آلِ رسول ﷺ اہلِ بیت ِ رسول ﷺ میں شامل نہیں اس کے کئی دلائل احا دیث،تواریخ،اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔٭٭علامہ محمد علان الشامی المکیؒ شرح اذ کار النبویہ ج ․۱․ ص․۱۴․میں آلِ نبی ؐ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ(آلِ النبیؐ ھم جمیع الامۃ ای المسلمون المؤمنون برسالۃ نبیناؐ وھو مختار جمع من المحققین و الافاضل والمحد ثینؒ )آلِ نبی ؐ میں ساری امّت شامل ہے جو مسلمان ہمارے نبیؐ پر ایمان لائے ، اور وہ محققین فاضل اور محدثین ہیں (الخ) لیکن اس کو لغوی معنی تو دے سکتے ہیں مگر احادیث کی روشنی اور فقہا کی تحقیق میں آلِ رسول ﷺ سے مراد بنو ھاشم کے مؤمن اور ان کی اولاد جن کا خاندانِ رسول ﷺ سے نسبی تعلق ہے۔صحیح مسلم میں حضرت عروہ بن زہیرحضرت عائشہ سے روایت کر تے ہیں کہ حضور ﷺ نے قربانی کے دن جانورکی قر بانی اس طرح کی کہ(فاخذ النبی ﷺ الکبش فاسجعہ‘ ثُم ذبحہ‘ ثم قال بسم اﷲ ، اللّٰھم تقبل من محمدٍ ومن آلِ محمد ومن امت محمد ثم ضحیٰ بہٖ) نبی ﷺنے جانور کو پکڑا گرایا اور ذبح کیا اور دعا کی اے پرور دگار یہ محمد ؐ کی طرف سے اورآ ل محمدؐ کی طرف سے اور امت محمدؐ کی طرف سے ہے اس کو قبول فرما اگر امت آلِ رسول ﷺ میں ہوتی توقربانی کے وقت آل محمد ؐ کو امت محمد ﷺ سے الگ ذکرنہ فرماتے آل النبی ﷺ ھم الذین حرمت علیھم الصدقۃ وھو بنو ھاشم فقط، وبہٖ قال ابو حنیفۃ ومالک واحمد فی روایۃ ( رحمھم اﷲ تعالیٰ)آلِ نبی ﷺ وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ فقط بنو ھا شم ہیں،یہ قول ابو حنیفہ اور مالک اور احمد رحمہم اﷲ تعالیٰ کا ہے۔( ومن الا دلۃ علی ترجیح ھٰذا القول ما روی مسلم، والنسآئی، عن زید ابن ارقم ؓ قال، قام رسول اﷲ ﷺ خطیباً فقال اذکر کم اﷲ فی اھل بیتی ثلا ثاً !فقیل زید ابن ارقم ؓ من اھل البیت ؟ قال اھل البیت من حرم الصدقۃ علیھم ،وقیل ومن ھم ؟ قال آلِ علیّ وآلِ عقیل وآلِ جعفر وآلِ عباس: وقالَ علیہ السلام انَّ الصدقۃ حرام علیٰ محمد وعلیٰ آلِ محمدٍ ﷺ)زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺکھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا میرے اہل بیت سے متعلق اﷲ سے ڈرو(یاد کرو) اور یہ تین بار فرمایا : میں نے عرض کیا آپ کے اہل بیت کون ہیں ؟فرمایا آلِ علی ّ ،آل ِ عقیل آل جعفر اور آل عباس نیز فرمایا صدقہ محمد ؐ اور آل محمد ؐ پر حرام ہے۔ ثابت ہوا یہ سارے لوگ اور ان کی اولاد قیامت تک آل رسول ﷺ ہیں ۔(عن زید ابن ارقم ؓ ان قلت ما وجہ تحریم الصدقۃ علیٰ بنی ھاشم ؟قلنا : حرمت الصدقۃ علیھم لکونھا من من اوساخ الناس ،وشان النبی ﷺ وشان بنی ھاشم اعلیٰ وارفع من ان یأ کلو ا أو ساخ المال أو یستعملوھا․فاﷲ تعالیٰ عوضھم خمس الخمس من الفیٔ والغنیمۃ، ھٰذا مذھب مالک وابی حنیفۃ رحمھما اﷲ تعالیٰ ․فتحریم الصدقۃ عند ھما مقصور علیٰ بنی ھاشم فقط)زید بن ارقم ؓ فرماتے ہیں پوچھا گیا کہ بنی ھاشم پر صدقہ حرام ہونے کی وجہ کیا ہے ؟کہا گیا صدقہ لوگوں کے مال کی میل ہو تی ہے نبی ؐ اور بنی ھاشم کی شان اعلیٰ و ارفع ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ مال کی میل کا استعمال کریں یا کھائیں اﷲ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں ان کے لئے فئی اور غنیمت میں سے پانچواں حصہّ مقرر کیا۔یہ آل رسول ﷺ سے متعلق مختصر خلاصہ لکھا گیا ورنہ اس پر بیسیوں احادیث،اور مؤرخین وسیرت نگاروں کے اقوال وتحقیق موجود ہے۔طوالت تحریر کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ قارئین کے لئے آسان ہو۔(وما تو فیقی الا بااﷲ العلی العظیم)․․․․․
Syed Muzzafar Hussain Bukhari
About the Author: Syed Muzzafar Hussain Bukhari Read More Articles by Syed Muzzafar Hussain Bukhari: 23 Articles with 33417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.