تھائی لینڈ کا "خستہ گلاور عزرائیل”

تھائی لینڈجنوب مشرق ایشیا میں واقع دنیا کے خوبصورت ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔اس کا پرانا نام سیام ہے،تھائی لینڈ کا معنی ہے آزاد لوگوں کے رہنے کی جگہ۔اس کے شمال میں میانمار(برما)اورلاؤس واقع ہیں،مشرق میں کمبوڈیا،جنوب میں خلیج تھائی لینڈ اور ملائشیا جب کہ مغرب میں جزائرانڈمان واقع ہیں۔تھائی لینڈ 66ملین آبادی کے ساتھ دنیا کا بیسواں بڑاملک ہے۔اس کادارالحکومت بنکاک ہے۔95فیصد لوگ بدھ مت کے پیروکارہیں۔4.6فیصد کے ساتھ اسلام یہاں کا دوسرابڑا مذہب ہے۔شرح تعلیم 2014 میں 93فیصد سے بھی زیادہ تھی۔یہ معاشی لحاظ سےبھی کافی بہتر پوزیشن میں ہے،مینوفیکچرنگ،انڈسٹریز ،زراعت وغیرہ کے لحاظ سے دنیا میں کافی مشہورہے۔تھائی لینڈ کی اکانومی کا سب سےبڑا ذریعہ سیاحت ہے۔یہ دنیا کے چند بہترین سیاحتی ملکوں میں سے ایک ہے۔یورپ،امریکا،سے لے کر روس چائنا تک لوگ سیاحت کے لیے یہاں آتے ہیں۔بدقسمتی سے یہاں کی سیاحت 90 فیصد جنسی سیاحت کے نام پر کی جاتی ہے۔جسم فروشی دنیا میں سب سے زیادہ یہیں پر ہوتی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سرکاری طور پر جسم فروشی یہاں Allowedہے،یہاں کے لوگ اسے تھائی کلچر کاحصہ گردانتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 3ملین سے زیادہ جسم فروش ورکرز اس مکروہ دھندے سے منسلک ہیں،جس میں زیادہ تعداد اسمگلنگ کی ہے۔جسم فروشی کے لیے ساحلی مقامات پر یہاں بڑے بڑے دلال ہوتے ہیں،جو سیاحوں کو پیسوں کی عوض ہر چیز مہیا کرتے ہیں۔

خستہ گل بھی انہیں دلالوں میں سے ایک دلال تھا،اصلاپاکستانی پختون تھا،لیکن پیدا تھائی لینڈ میں ہوا،یہیں پروان چڑھااوریہیں کے ماحول میں گھل مل گیا۔ایک سیاحتی مقام پر اس نے اپنا آفس بنارکھاتھا،دوسرے لوگوں کی طرح اس نے اپنے آفس میں عورتوں کی عریاں تصاویر لگارکھیں تھیں،نہ شراب کے فلیور رکھے ہوئے تھے۔اس کے برعکس آفس میں مکہ مدینہ کی تصاویر لگارکھیں تھیں اور ساتھ میں کچھ دوسری چیزیں برائے نام رکھی ہوئی تھیں۔اس کا اصل کام غنڈہ گردی تھا،نہ کہ جسم فروشی یاشراب فروشی،اس کام کے لیے اس نے 18 سال سے 27 سال کی عمرکے لڑکوں کوسپیشل فورس بنارکھی تھی،جن کا کام سیاحوں کو لوٹناتھا،عموما جب سیاح بوٹ وغیرہ پر کہیں دور نکل جاتے تب یہ لوگ ان کا پیچھا کرتے اور لوٹ لیتے۔مقامی پولیس بھی خستہ گل کی دہشت سے بہت مرعوب تھی۔خستہ گل علاقے میں presidentکے نام سے نمبرپلیٹ لگا کر گاڑی چلاتاتھا۔

برسہابرس ہوگئے،وہ اس مکروہ دھندے سے منسلک تھا۔مسلمان تھا،پر نام کا،ماحول کی رنگ رلیوں نے اسے اسلام کیا مسلمانوں تک سے اجنبی بنادیاتھا۔کچھ سال پہلے بھٹکے ہوئے مسلمان بھائیوں کا دردرکھنے والےچند پاکستانی احباب"دعوت وتبلیغ "کی غرض سے تھائی لینڈ گئے۔اتفاق سے ان کا پڑآو خستہ گل کے علاقے میں ہوا،یہاں کے مقامی احباب نےمہمان داعیوں کو بتایاکہ یہاں سیاحتی مقامات پر بہت سے مسلمان بھی آتے ہیں،حتی کہ بعض عرب ملکوں کےناسمجھ بھی رنگ رلیاں منانے آتے ہیں،پہلے بھی یہاں داعی آتے ہیں اور اپنے طریقے سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں،جس سے بہت سے لوگ سدھر جاتے ہیں۔آپ لوگوں کو خستہ گل کے پاس جانا ہوگا،جو پیدائشی یہیں کا رہنے والا ہے اور سیاح نہیں بلکہ سیاحوں کو لوٹنے والا ہے۔بہرحال یہ مہمان خستہ گل کے بارے معلومات لے کر اس کے آفس پہنچ گئے۔خستہ گل آفس میں بیٹھاکام میں مصروف تھا،اسی دوران مہمانوں میں سے ایک نے گرجدار آواز میں"السلام علیکم"کہا۔جواب میں خستہ گل نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے سہمی آواز میں"وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ"کہا۔مہمان سفید ریش اور سفید لباس میں ملبوس تھے۔خستہ گل اپنے آفس میں ان رعب دار مسلمانوں کو دیکھ کر اس قدر حیران ہوا کہ ایک لمحے کے لیے اس کی دونوں آنکھیں رک گئیں۔مہمانوں نے حوصلہ دیتے ہوئے پوچھا خستہ گل خیر تو ہے کیا ہوا؟ہم آپ کے مسلمان بھائی ہیں،پاکستان سے یہاں آپ کو ملنے آئے ہیں؟خستہ گل نے ہوش سنبھالتے ہوئے کہا کہ میں سمجھا آج میری خیر نہیں ہے"عزرائیل اپنے ساتھیوں کے ساتھ میری موت کا پروانہ لیے آگیا ہے"۔

مہمانوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا،ایسی کوئی بات نہیں،ہم مسلمان ہیں،بس آپ سے ملنے آئے ہیں۔چنانچہ خستہ گل سے مہمانوں نے کچھ دیر بات چیت کی،اور اسے اس بات پر قائل کرنے لگے کہ وہ ان کے ساتھ(قریب کی مسجد جہاں وہ ٹھہرے تھے)چلے۔خستہ گل نے وعدہ کیا کہ ابھی نہیں آسکتا،لیکن ضرورآئےگا۔اگلے دن خستہ گل نماز کے وقت مہمانوں کے پاس جاپہنچا،مسجد میں ایک صاحب بیان کررہے تھے،خستہ گل نے بھی بیان سنا،بیان کے بعد پاکستانی مہمانوں سے بات چیت ہوئی،مہمانوں نے انتہائی پیارومحبت سے خستہ گل کو اسلام کے بارے اس کابھولا ہواسبق اور عظیم مقصد یاددلایا،گناہوں کی نفرت،اللہ اور انسانوں کے حقوق اور اس جیسے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کی فکر کرنے کی طرف متوجہ کیا،ساتھ ہے یہ بھی کہا کہ خستہ گل!اسلام کا جوسبق آپ بھول گئے ہیں،اسے یادکرنے کے لیے ہمارے ساتھ ضرورکچھ وقت گزاریں۔"مجھے ایک مہینہ کا وقت دیں،میں ایک ماہ بعدضرور آپ کے ساتھ وقت لگاؤں گا"خستہ گل نے کہا۔مہمانوں نے اصرار کیاکہ چلیں اپنی سپیشل فورس کے بندے بھیج دیں،تاکہ انہیں بھی اسلام کا بھولا ہواسبق یادکروادیں،خستہ گل نے وعدہ کیا کہ وہ انہیں ضرور بھیجے گا۔

اگلے دن خستہ گل کی سپیشل فورس کے پانچ نوجوان مہمانوں کے پاس مسجد آگئے۔مہمانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا،اور اگلی منزل کے لیے جانے کا پروگرام بنایا۔مہمانوں کے بقول یہ پانچ لوگ تقریبا ایک ماہ ہمارے ساتھ رہے، اس عرصے میں دین اسلام سے آگاہی حاصل کی،ایک ماہ کے بعد ہم لوگوں نے انہیں کہا کہ جاؤ اب واپس اپنے علاقے خیساگل کے پاس چلے جاؤ اور وہاں جاکر اپنےدوسرے مسلمان بھائیوں کی فکرکرو۔ لیکن ان پانچوں نے خستہ گل کے پاس جانے سے انکارکردیا،کہ وہ پھر ہم سے غنڈہ گردی کروائے گا جب کہ ہم اس سے توبہ کرچکے ہیں۔مہمانوں نے بڑی محبت سے انہیں سمجھایا کہ اگر آپ لوگ واپس خستہ گل کے پاس نہ گئے تو خستہ گل کبھی نہیں سدھرے گا،وہ آپ کے نہ آنے کی وجہ سے اورزیادہ بگڑجائے گا۔اس طرح یہ پانچ لوگ واپس خستہ گل کے پاس چلے گئے۔

مہمان کچھ عرصہ وہاں گزارنے کے بعد اپنے وطن لوٹ آئے،یہاں آکر کچھ عرصے بعد تھائی لینڈ کے مقامی میزبان سے خستہ گل کے بارے دریافت کیا کہ کیا بنا؟وہ دین سیکھنے کے لیے اللہ کے راستے میں نکلا یا نہیں؟انہوں نے جواب دیا کہ ماشاءاللہ وہ اپنا مکروہ دھندہ چھوڑ کر چار ماہ کے لیے اللہ کے راستے دین سیکھنے چلے گئے ہیں۔

یہ کارگزاری سن کر میں سوچنے لگا کہ آج دنیا میں کتنے مسلمان ہیں،جو اسلام کو بھول چکے ہیں،جو پیدا تو مسلمانوں کے گھر میں ہوئے،لیکن اسلام اور مسلمانوں سے دوری کی وجہ سے اب وہ کافروں جیسے بن چکے ہیں۔کتنی افسوس کی بات ہے کہ ایک پیدائشی مسلمان،دوسرے مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے اپنا اسلام بھول جائے اور اس حال میں اللہ کے پاس جائے کہ اسلام کے حقوق کی ادائیگی سے اس کادامن خالی ہواورخدانخواستہ یہ بات اس کے جہنم میں جانے کاسبب بھی بن جائے۔ہماراالمیہ ہے کہ آج نفسانفسی کے اس دور میں ہم اتنے خودغرض ہوگئے کہ اپنے مسلمان بھائیوں تک کو بھول گئے،جو ہمارے جسم کی مانند ہیں،جن کا دکھ درد ہمارادکھ درد تھاافسوس ہم نے اسےاپنا دکھ درد سمجھنا چھوڑدیا۔جب کہ ہمارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے جاتے وقت اپنے بھائیوں کی ذمہ داری ہمارے سپردکرگئے تھے کہ تم میں ہر ایک مسؤول ہے اور ہر مسؤول سے اس کی رعایا کے بارے پوچھ ہوگی قیامت میں۔ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ میری زندگی کا پیغام جاننے والے،نہ جاننے والوں تک پہنچائیں۔ھم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے محبوب کاپیغام جانتے ہیں،لیکن غافل ہوگئے؟آئیے اپنا محاسبہ کریں اور اس جہاں کو اپنے نبی کے عظیم کام"دعوت وتبلیغ" سے روشن کردیں،تاکہ تھائی لینڈ کی ظلمتوں میں بھٹکے ہوئے ہزاروں"خستہ گل" اس"روشن جہاں" سے روشنی لے کرروشن ہوجائیں۔
 
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 32237 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.