ایک ہولیس والےنے اپنے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے
کہا کہ تمہارے نمبر اتنے کم کیوں آئے ہیں؟ تم سکول جا کر کیا کرتے ہو رزلٹ
خاک لائے ہو تو بچے نے آگے سے کہا ابا یہ لے پکڑ سو روپے اور مُک مُکا کر
لے۔
آجکل کے بچے انسان کو چکرا اور گھما دیتے ہیں کہ انسان خود کو خاصا قابل
سمجھتے ہوئے بھی انکے آگے بے بس پاتا ہے۔ پھر آجکل کے بچوں کو جب بات سننے
کی ہی عادت نہیں تو انکو سمجھدار اور ذمہ دار کس طرح بنایا جائے یہ بھی
اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے اور والدین اس سے نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ اکثریت کو
تشویش لاحق رہتی ہے مگر حل نظر نہیں آتا۔
۱۔ سب سے پہلے تو اس بات کا یقین کرلیں کہ اپنے بچے کو ایک اچھا فرد جوکہ
ذمہ دار، سمجھدار، ہونہار، باشعور، تمیزدار وغیرہ وغیرہ والی اچھی خصوصیات
کا مالک ہو۔ بنانا سو فیصد آپکے اپنے اختیار میں ہے۔ خواہ آپ ماں کے کردار
میں ہیں یا باپ کے۔
اسکے لئے سب سے پہلے تو آپکو خود وہ سارے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے ہوں گے۔
پھر ہی بات آگے بڑھے گی۔
سو جب آُپکے اپنےاندر گہرائی میں یہ اوصاف ہوں گے تو ہی بات آغے بڑھے گی۔
سو خود کو جانچ لیجے اور دیکھ لیں کتنی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
اگر خود میں جو صفت نہیں بچوں میں وہ صفت ہونا سو فیصد ناممکن ۔۔۔۔۔۔
۲۔ اگلا مرحلہ اس چیز کو یقینی بنانے کا ہے کہ آپ جو بھی صفت اپنے بچوں میں
دیکھنا چاہتے ہیں وہ ایک بھی دن میں کبھی نہیں آ سکتیں انسان کی نشوونما کا
ایک مخصوص وقت اور مرحلہ ہے۔ انسان اسکے تحت ہی پروان چڑھ سکتا ہے۔
اسی لئے صبر حوصلے اور ہمت کے ساتھ اس بات کو ذہن نشین کر لیں آپ خواہ چار
سال کے بچے میں یا چودہ سال کے بچے میں کوئی صفت دیکھنا چاہتے ہیں تو اسکے
پروان چڑھنے کے لئَ محنت، وقت اور تربیت درکار ہوگی۔
ایک دن یا ایک سال میں بھی نہیں صفت یا بچے پر منحصر ہوتے ہوئے چند سال بھی
لگانے پڑ سکتے ہیں۔
سو برداشت اور مستقل مزاجی سب سے پہلے اپنے ذہن میں رکھیں۔
۳۔ اپنے بچوں کی لمبے لمبے لیکچر دینے کا شوق قریب قریب ہر والدین میں ہی
دیکھا گیا ہے۔
والدین کو یقین ہوتا ہے کہ یہ کام کرے گا جبکہ حقیقت میں سب سے فالتو کام
جو کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ انکو اتنی لمبی نصیحت
آموز باتیں کہیں کہ ایک وقت ایسا آئے کہ وہ آپکی سننا ہی چھوڑ دیں۔
یہ حقیقت ہے بچوں کو سننے سے ذیادہ عمل دیکھ کر سمجھ آتی ہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں آپکا بچہ آرام سے بات کرے لڑائی جھگڑا نہ کرے تو سب سے
پہلے خود آرام سے بات کرنا اور لڑائی چھوڑنا شروع کر دیں خواہ حالات کتنے
ہی پیچیدہ اور مشکل کیوں نہ ہوں۔
اگر نصیحت کرنی بھی پڑے تو دو جملوں پہ مشتمل نصیحت چوبیس گھنٹے میں ایک
دفعہ کرنا سیکھیں۔
نصیحت کے لئے لہجہ بالکل تھوڑا سا سخت اور الفاظ نرم استعمال کریں۔
۳۔ بحث سے بچیں۔
بحث بچوں کو منہ پھٹ اور لڑاکا بناتی ہے چاہے بات کتنی ہی چھوٹی یا بڑی ہو
بچوں کو بحث کرنے اور اپنی صفائی دینے میں ایک کے بعد ایک دلائیل دینا مشکل
نہیں۔
سو اگر بحث کی نوبت آئے تو صرف ایک دفعہ بچے کی بات پوری بغیر ایک لفظ بولے
اور بغیر کاٹے سن لیں۔
اس سے اسکو یہ تسلی ہوگی کہ کسی نے اسکو سنا تو سہی۔ اسکے بعد جب دو دن بعد
ماحول اور موڈ خوشگوار ہو تو اپنا موقف یا بچے کی غلطی چار جملوں میں بتا
کر بات سمیٹ لیں۔
نصیحت ہمیشہ تنہائے میں کریں۔
۴۔ ہمیشہ بچوں سے عزت سے مخاطب ہوں
ہمیشہ بچوں کو چھوٹی سے چھوٹی بات کے لئے بھی شابا ش دیں۔
یہ دو عمل ایسے شاندار ہیں کہ ان کی وجہ سے بچوں کی عزت نفس بہت بہتر ہوتی
ہے اور انکو ساری زندگی کے لئے ایک اچھا احساس اپنے حوالے سے میسر رہتا ہے۔
جس کے ساتھ بھی ملتے جلتے ہیں وہ اسکو بھی اچھا احساس دلاسکتے ہیں کیونکہ
جو خود اپنے بارے میں اچھا محسوس کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی اچھا محسوس
کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
معاشرے کے کارآمد ترین فرد کی سب سے اہم خصوصیت بھی یہی ہوتی ہے۔
۵۔ بچوں کو کنٹرول نہ کریں۔
ماں باپ بچوں کو پرورش سے ذیادہ ٹائم ٹیبل اور اپنے احکامات کے تابع کرنا
چاہتے ہیں
جس کی وجہ سے وہ سب سے ذیادہ باغی بنتے ہیں۔
اسلئے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ بچوں کے اگر سونے اور جاگنے کے اوقات
مقرر کر رکھے ہیں۔
پڑھنے کا وقت مرر کر رکھا ہے تو کھانا اور ٹی وی اور باقی کے وقت کا فن بھی
اپنے احکامات کی نظر نہ کریں-
اس وقت انکی مرضی چلنے دیں انکو جہاں جس طرح کرنا ہے کرنے دیں۔
بچے آپکے بچے بعد میں اور ایک انسان سب سے پہلے ہوتے ہیں سو انکو بے جا
کنٹرول کرنا اور اہنی مرضی پر روبوٹ کی طرح چلانا بے وقوفی ہے۔
سو انکو اتنی آزادی ضرور دیں کہ اپنے چھوٹے چھوٹے فیصلے اور اختیارات انکے
اپنے ہاتھ میں ہوں۔
جس سے انکو اپنے اندر اعتماد پیدا کرنے میں مدد ملے۔
۶۔ بچوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کرنا سیکھیں۔
خواہ کوئی چھوٹا اور کتناہی غیر اہم موضوع ہو اگر وہ آُکے ساتھ اس پر بات
چیت کرنا چاہیں تو نہ صرف یہ کہ بات چیت کریں بلکہ اپنا نقطہ نظر دیں انکا
سنیں۔
گفتگو کرنا سیکھنا اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا انکو تب ہی آئے گا۔
۷۔ ایکٹیویٹز شئیر کرنا سیکھیں۔
خود کوئی کام کررہے ہیں تو بچو ں کو اپنے ساتھ ملانا اور انکی مدد لینا
شروع کریں خواہ بچے کام کتنا ہی غلط کریں مگر اس طرح بچوں کو اپنے اہم اور
فعال ہونے کا احساس ہوگا۔ یہ احساس انکو زندگی میں تعاون کرنے والا انسان
بناتا ہے۔
بچوں کے اوپر چھوٹی چھوٹی ڈیوٹیز لگانا انکو ذمہ دار بناتا ہے۔
۸۔ بچوں کی ایکٹیویٹیز میں بھی انکا ساتھ دیں۔ پہلے آپ انکو اپنی ایکٹیویٹز
میں شامل کررہے تھے اب انکی ایکٹیویٹیز میں شامل ہورہے ہیں۔
اس طرح جو اعتماد اور خوشگوار تعلقات کی فضا بنے گی وہ خود آپ دونوں کو بھی
تجربہ کرکے ہی محسوس ہوگی۔
۹۔ ہمارے ہاں بچوں کو اتنا اپنے ساتھ رکھنے کی عادت موجود ہے کہ وہ فیصلہ
لینا اور لوگوں سے میل جول رکھنا نہیں سیکھ پاتے۔
سو خود اپنے دوستوں کے ساتھ جانا اور بچوں کو انکے دوستوں کے ساتھ جانے
دیں۔
۱۰۔ ہم جو بھی میچور اور سینسیبل لوگ دیکھتے ہیں ان کے لئے انکے ماں پباپ
نے بے حد محنت کی ہوتی ہے اور وقت اور مشقت کر کے انکو اس مقام تک پہنچایا
ہوتا ہے۔
سو آپکو بھی اگر بچوں کو اس مقام پر دیکھنےکا شوق ہے تو محنت کریں اور
اصولوں پر عمل کریں تاکہ آپ سب ہی زندگی کو صرف گزاریں نہیں انجوائے بھی
کریں اور اپنا فرض بھی احسن طریقے سے ادا کریں - |