ماں آخری بار بہادُر فوجی کی کہانی سُنا دے" سانحہ پشاور کے متاثر والدین کے نام "

نوجوان فوجی لیفٹینٹ سید یاسر عباس شہید کی سچی کہانی

بحیثیت قوم

 ایک تو سکولوں میں بچوں کے دسمبر کے امتحانا ت جاری تھے اور دوسرا سردی کی شدت میں گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ۔نہ امتحان کی تیاری کروا پا رہی تھی اور نہ ہی کھانا پکانا ممکن نظر آرہا تھا۔خان صاحب بھی اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے رات گئے گھر آتے تھے۔لہذا بچوں کیلئے سارا کرنا دھرنا ماں ہی کے ذمے تھا۔"صاف سی بات ہے کہ خاوند بھی جانتا ہے کہ میں"ماں " ہوں اور بچے بھی جانتے ہیں کہ " امی" کہنے سے ہی اُنکے سب کام ہو جائیں گے"۔

رات کے 10بج چکے تھے اور بچوں کیلئے جو کچھ بھی بامشکل پکایا جا سکتا تھا اُنکی مرضی کے مطابق پکا کر اُنھیں کھلا دیا تھا اور جتنی ماں میں ہمت تھی اور جتنی سمجھ آئی اُسکے مطابق بچوں کو امتحان کی تیاری بھی کروا دی تھی۔ رات کو10سے 11 بجے کے درمیان بھی ایک گھنٹہ معمول کے مطابق بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا تو وقت ہی کوئی نہیں تھالہذا سردی کی وجہ سے دونوں بڑی بیٹیاں تو پہلے ہی رضائی لیکر سو چکی تھیں دونوں چھوٹے بیٹے ابھی جا گ رہے تھے۔شاید باپ کا انتظار کر رہے تھے۔یو پی ایس کی روشنی میں ماں کے موبائل کی گھنٹی بجی تو اُٹھانے پر خان صاحب بولے دروازہ کھول دو میں آگیا ہوں۔
خان صاحب گھر کے اندر داخل ہوئے تو سردی کی شدت کے باوجود دونوں بچے بھگ کر باپ سے لیپٹ گئے ۔چھوٹا تو جلدی الگ ہو کر بستر پر لیٹ گیا۔ لیکن بڑے نے اُنکو نہ چھوڑا۔اُس رات معلوم نہیں باپ کو بھی اُس پر اتنا پیار کیوں آرہا تھا کہ وہ بھی اُسکو بار بار چُوم رہے تھے۔ایسے لگ رہا تھا کہ ایک عرصے بعد ملے ہیں ۔اس دوران ماں نے بحیثیت بیوی اُنکے کھانے کو گرم کر کے اُنکو دے دیا اور اس بات کی معذرت بھی کرلی کہ آج اُنکے ساتھ بیٹھ نہ سکوں گی کیونکہ اِسکے سونے کا وقت ہے اور یہ جاگ رہا ہے۔صبح آنکھ نہ کُھلی تو سکول سے دیر ہو جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو وہ امتحان دینے سے بھی رہ جائے گا۔

آجاؤ بیٹا! میرا پیارا بیٹا سو جاؤ صبح سکول جانا ہے۔حسبِ روایت جملہ بول کر اُسکو سُلانے کی کوشش کی۔لیکن چند منٹ بعد وہ ایک دفعہ پھر رضائی سے نکل کر باپ کے ساتھ جاکر لیپٹ گیا۔وہ کھانا کھا رہے تھے اُنھوں نے ایک دفعہ پھر بہت پیار بھی کیا لیکن کچھ غصہ دکھاتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ بیٹا جاؤ سو جاؤ ۔
"امی " مجھے نیند نہیں آرہی ہے کوئی کہانی سُنا دو۔پگلا کہیں کا!صبح امتحان ہے اور تجھے کہانی سُوجھ رہی ہے۔سو جا چپ کر کے اور مجھے بھی سونے دے ۔صبح سے کام کر کر کے تھک گئی ہوں۔
" امی" اگر آپ کہانی نہیں سُنائیں گی تو میں ناراض ہو جاؤں گا۔پھر آپ کہیں گی بھی تو میں آپ سے بات نہیں کروں گا۔اُسکا یہ جملہ مان کے دل کو چیر گیا لیکن میں پھر بھی خاموش رہی۔کہ پھر اُسکی آواز آئی جو آج بھی ماں کے کانوں میں گُونج رہی ہے کیونکہ اُس دفعہ " امی" کی بجائے بولا :
ماں مجھے آخری بار بہادُر فوجی کی کہانی سُنا دے ،پھر کبھی تنگ نہیں کروں گا!

ماں کو اُس پر بہت پیار آیا اور اُسکا مُنہ چومتے ہوئے بولی! کہ تم نے پاکستان کے فوجی جوانوں کی بہادری کی بہت سی سچی کہانیاں سُنی ہوئی ہیں آج میں اُن میں سے ہی ایک اور نوجوان فوجی لیفٹینٹ سید یاسر عباس شہید کی سچی کہانی سُناتی ہوں۔
" وہ 22ِ جولائی 1982 ء کو پیدا ہونے والااپنے والد کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بچپن میں شرراتوں کی وجہ سے گھر والے" جمپینگ جیک "کہتے تھے۔پائلٹ بننے کا شوق تھا لیکن جب میٹرک کرنے کے بعد پاکستان ائر فورس میں کمیشن حاصل کرنے گیا تو آنکھوں کی وجہ سے منتخب نہ ہو سکا۔جس کے بعد 2009 ء میں پاکستان نیوی میں کمیشن حاصل کرتے ہوئے " آرناٹیکل انجینئر" کی تعلیم مکمل کی اور لیفٹینٹ کے عہدے پر فائز ہوگیا۔اس عہدے پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا کہ 22ِ مئی 2011 ء کو رات 10:30 بجے دہشت گردوں نے پی این ایس مہران کراچی پر حملہ کر دیا۔اگلے تین منٹ میں پہنچے والے ریسپانس ٹیم کے لیڈر یاسر عباس نے اُس وقت انتہائی جوانمردی کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے آگے بڑھ کر اُ ن دہشت گردوں پر ایسا جوابی حملہ کیا کہ دہشت گرد بھی ایک دم دفاعی انداز میں آگئے۔یاسر عباس کا سینہ اُن کیلئے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی اور وہ آگے بڑھ کر پاکستان کے دفاعی اثاثوں کو مزید نقصان نہ پہنچا سکے۔ایس ایس جی SSG کے وہاں پہنچنے تک اُس نے دہشت گردوں کا راستہ روکے رکھا ۔اس دوران پہلے ایک دہشت گرد کو مار دیا اور پھر خود بھی پہلی گولی سینے پر کھائی جسکے بعد دوسرا دہشت گرد مارا۔ آخرکا پاکستان کا یہ نوجوان فوجی سینے پر کُل تین گولیاں کھانے کے بعداُس کاروائی میں سب سے پہلے شہادت حاصل کر کے ملک و قوم پر قربان ہوگیااور ملک کی عزت پر حرف نہ آنے دیا۔گو کہ اس دہشت گردی کے حملے میں 2 اورین طیارے تباہ اور کئی ہیلی کاپٹروں کو نقصان پہنچا لیکن پی این ایس میں موجود 11 چینی اور6 امریکی باشندوں کو جو غیر ملکی ٹرینر تھے بحفاظت نکال لیا گیا۔ لیفٹینٹ سید یاسر عباس شہید کی میت کو لاہور لاکر نمازِ جنازہ پڑھنے اور گارڈ آف آنر پیش کرنے کے بعد عسکری ٹین کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ بعدازاں 14ِِ اگست2011 ء کو اُنھیں ستارہِ بسالت سے نوازا گیا"۔

بیٹے نے وہ کہانی بڑے غور سے سُنی اور درمیان میں کوئی سوال بھی نہ کیا حالانکہ وہ ماں سے کہانی سُنانے کے دوران بہت سے سوال بھی پوچھتا تھا۔بہرحال کہانی ختم ہونے کے بعد بولا کہ "امی"میں بھی پاکستان کی فوج میں جا کر کوئی بہادُری کا کام کروں گااور تُم میری بھی کہانی سُنانا۔لیکن ساتھ یہ ضرور کہا کہ یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں اور ہمیں کیوں مارتے ہیں؟ماں نے اُسکو کوئی جواب نہ دیا اور پھر اُسکی بھی کوئی آواز نہ آئی۔اوہ! ماں کیا جانتی تھی کہ وہ واقعی"آخری بار کہانی سُن رہا تھا"۔

سب اُسکی ماں کو دلاسا دے رہے تھے اور روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ صبح سکول جاتے ہوئے کہہ کر گیا کہ میں بڑا ہو کر کسی دہشت گرد کو نہیں چھوڑوں گا۔ہائے !میں کیا جانتی تھی کہ آج سکول میں دہشت گرد اُسکو نہیں چھوڑیں گے اور یہ کہتے ہوئے وہ غم میں بے ہوش ہو گئی۔دوسری طرف باپ ،بہنوں اور دوسرے رشتے دار و دوست احبا ب کا کیا حال تھا وہ ناقابلِ بیان ہے۔بلکہ میڈیا کی بھرپور تصویر کشی اور سوشل میڈیا پر پیغامات نے 16ِدسمبر2014ء کو" سانحہ پشاور" میں سکول کے بچوں و عملے کی ایک بڑی تعداد شہید وزخمی ہونے پر پوری قوم کو ہی سوگوار کر دیا تھااور وہ متاثرہ والدین کے دُکھ میں برابر کے شریک تھے۔ سب کہہ رہے تھے " ہلکے وزن کا تابوت دہشت گردوں کیلئے بھاری ثابت ہو گا"۔ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف جب زخمیوں کی عیادت کیلئے ہسپتال گئے تو ایک زخمی بچے نے اُنھیں کہا تھا کہ " ہمیں ضربِ عضب کا ہی زخمی سپاہی سمجھیں"۔

بحیثیت قوم :
پاکستان میں ایسے واقعات گزشتہ تین دہائیوں سے کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں۔لیکن اس نوعیت کا سانحہ پوری قوم کو غمناک کیوں کر گیا ہے؟ ایک اہم سوال بن چکا ہے۔میڈیا پر اس کی ذمہداری زیادہ تر حکومتِ وقت یا سیاست دانوں پر ڈال کر اُن عناصر کی پردہ پوشی کی جاتی ہے جن تک رسائی حاصل کرنے کیلئے وہ قانونی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں جنکی راہ میں شاید بہت بڑے مافیا رُکاوٹ ہیں۔یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ اہم شخصیات کی سیکیورٹی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور عام عوام کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اس کے باوجود جنرل ضیاء الحق، محترمہ بے نظیر بھٹو،بشیر احمد بلوراور اسطرح کے اور چند اہم رہنما بھی پاکستان میں ہی ان حالات کے نظر ہو چکے ہیں۔

بحیثیت قوم ہمارے جذبات سے ساری دُنیا واقف ہے اور دُشمن قیامِ پاکستان سے ہی اس کوشش میں ہے کہ ہم میں پھوٹ ڈال سکے ۔ پہلی کامیابی 16ِدسمبر1971ء کو اس کی پہلی کڑی "سانحہِ مشرقی پاکستان" ثابت ہوئی اور پھر ملک میں تفرقہ ڈالنے کی کامیابی میں روز بروز وہ قدم بڑھاتے رہے۔نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اس "سانحہِ پشاور" کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہمارا اصل دُشمن کون ہے ؟کیونکہ جن کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے فوجی جوان تیار ہیں وہ کہاں ہیں؟اور جن کے خلاف آج ہمارا ملک حالاتِ جنگ میں ہے وہ کون ہیں؟یعنی اہم غور طلب پہلو یہ ہے کہ کیا ہمارے ہم مذہب ہی ہمارے دُشمن ہیں یا اُنکے نام پر ہماری صفوں میں وہ کالے بھڑیئے گُھس چکے ہیں جو ہمیں آپس کی جنگ میں پھنسا کر دُور بیٹھے قہقے لگا رہے ہیں۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 312457 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More