ربیع الاول کے حوالے سے ایک خصوصی تحریر جو
بہت سادہ اور دلنشیں انداز میں لکھی گئی ہے۔
یوں تو اس دنیا کی عمر چار ارب سال بتائی جاتی ہے مگر یہ دنیا کئی بار سو
سو کر جاگی ہے اور مر مر کر زندہ ہوئی ہے۔ آخری بار جب یہ موت کی نیند سے
بیدار ہوئی تھی۔ اور اس نے عقل و ہوش کی آنکھیں کھولیں تھیں تو وہ دن تھا،
جب مکہ کے سردار عبدالمطلب کے گھر پوتا پیدا ہوا وہ پیدا تو یتیم
ہواتھا۔مگر اس نے پوری انسانیت کی سرپرستی کی اور دنیا کو نئی زندگی بخشی۔
اس دنیا کی اس سے پہلے سوتے میں جو عمرکٹی وہ کیا عمر ہے ؟ خود کشی میں جو
وقت گزرا وہ کیا زندگی ہے؟ اس لیے سچ پوچھئے تو موجودہ دنیا کی عمر چودہ سو
برس سے زائد نہیں ۔چھٹی صدی قبل مسیح میں انسانیت کی گاڑی ایک ڈھلوان راستے
پر پڑگئی تھی، اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا۔ راستے کا نشیب بڑھتا جا رہا
تھا۔اور رفتار تیز ہوتی جارہی تھی، اس گاڑی پر انسانیت کا پورا قافلہ اور
آدم کا سارا کنبہ سوار تھا ۔ہزاروں برس کی تہذیبیں اور لاکھوں انسانوں کی
محنتیں تھیں، گاڑی کے سوار میٹھی نیند سو رہے تھے۔یا زیادہ اور اچھی جگہ
حاصل کرنے کے لئے آپس میں دست وگریباں تھے ۔کچھ ایسے جو اپنے جیسے لوگوں پر
حکم چلاتے کچھ کھانے پکانے میں مشغول تھے۔ کچھ گانے بجانے میں مصروف تھے ۔مگر
کوئی یہ نہیں دیکھ رہاتھاکہ گاڑی کس اندھے غار کی طرف جارہی ہے ۔اور اب وہ
کتنا قریب رہ گیا ہے۔جب گاڑی انجام کو پہنچ جائے گی۔لیکن سوار جو تھے، ان
کے ضمیر بے حس و مردہ نبضیں ڈوب رہی تھیں۔اور آنکھیں پتھرانے لگی تھیں ۔ایمان
ویقین کی دولت سے یہ انسانیت محروم ہو چکی تھی۔
پورے پورے ملک میں ڈھونڈنے سے کوئی صاحب یقین نہ ملتا ۔توہمات کا ساری دنیا
پر قبضہ تھا، انسانیت نے اپنے آپ کو خود ذلیل کیا تھا ۔انسان نے اپنے
غلاموں اور چاکروں کے سامنے سرجھکایا تھا۔ ایک خدا کے سوا سب کے سامنے
جھکنا ان کومنظور تھا،حرام ان کے منہ کو لگ گیا تھا۔جو اء دن رات کی دل لگی
تھی ۔بادشاہ دوسروں کے خون پر پلتے تھے۔ اور بستیاں اجاڑ کربستے تھے، ان کے
کتے موج کرتے اور انسان دانے دانے کو ترستے ۔زندگی کا معیار اتنابلند ہو
گیا تھاکہ جینا دو بھر تھا ،جو اس معیار پر نہ اترے وہ جانور سمجھا جاتا
تھا۔ نئے نئے ٹیکسوں سے کسانوں اور دستکاروں کی کمر جھکی اور ٹوٹی جاتی تھی۔
لڑائی اور بات کی بات میں ملکوں کی صفائی اور قوموں کی تباہی ان کے بائیں
ہاتھ کا کھیل تھا۔سب زندگی کی فکروں میں گرفتار اور ظلم وزیادتی سے زارو
نزار تھے۔ پورے ملک میں ایک اﷲ کا بندہ ایسا نہ تھا ،جس کو اپنے پیدا کرنے
والے کی رضا مندی کی فکر ہو یا راستے کی سچی تلاش ہو غرض یہ نام کی زندگی
تھی ۔مگر حقیقت میں ایک وسیع اور طویل خودکشی تھی۔ دنیا کی اصلاح انسانوں
کے بس سے باہر تھی ،پانی سر سے اونچا ہو گیا تھا ،معاملہ ایک ملک کی آزادی
اور ایک قوم کی ترقی کا نہ تھا پوری انسانیت اور دنیاکا بدن داغ داغ تھا۔
اور دامن تار تارتھا۔
فلسفی اور حکیم شاعر اور ادیب کوئی اس میدان کا مرد نہ نکلا ،سب اس وباء کے
شکار تھے، مریض مریض کا علاج کس طرح کرے۔؟ جو خود یقین سے خالی ہو وہ
دوسروں کو کس طرح سمجھائے ۔؟ انسانیت کی قسمت پر بھاری قفل پڑا تھا اور
کنجی گم تھی، زندگی کی ڈور الجھ گئی اور سرانہ ملتا تھا۔ اس دنیا کے مالک
کو اپنے گھر کا یہ نقشہ پسند نہ آیا۔آخر کار اس نے عرب کی آزاد اور سادہ
قوم میں جو فطرت سے قریب تھی ،میں ایک پیغمبر بھیجا کہ پیغمبر کے سوا اب اس
بگڑی دنیا کو کوئی بنا نہیں سکتا تھا۔اس پیغمبر کا نام محمد ﷺ بن عبداﷲ ہے،
ان پر لاکھوں سلام اور درود ہوں ۔اس دنیاکی ہر چیز سلامت مگر بے جگہ وبے
قرینہ زندگی کا پہیہ گھوم رہا تھا۔ مگرغلط رخ پراصل خرابی یہ تھی کہ زندگی
(دنیا)کی چول کھسک گئی تھی۔ اورساری خرابی ہی اسکی تھی ۔چول کیا تھی اپنے
اور اس دنیا کے بنانے والے کا صحیح علم اس کی بندگی اور تابعداری کا فیصلہ
اس کے پیغمبروں کو ماننا اور ان کی ہدایت و تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنا
اور دوسری زندگی کا یقین۔
آپ ﷺ نے زندگی کی چول بٹھا دی مگر اپنی زندگی اور اپنے خاندان کی زندگی
خطرے میں ڈال کر اور اپنا سب کچھ قربان کر کے آپ ﷺ نے اس مقصد کی خاطر
بادشاہی کا تاج ٹھکرا دیا ،دولت اور عیش کی بڑی سے بڑی پیش کش کو نا منظور
کیا۔
محبوب وطن کو چھوڑا ساری عمر بے آرام رہے پیٹ پر پتھر باندھے کبھی پیٹ بھر
کر کھانا نہ کھایا گھروالوں کوبھی فقروفاقہ میں شریک رکھا ،دنیا کی ہر
قربانی ہر خطرے میں پیش پیش اور ہر فائدے ہر لذت سے دور دور لیکن دنیا سے
اس وقت تک تشریف نہ لے گئے ۔جب تک دنیا کو صحیح رخ پرنہ ڈال دیا اور تاریخ
کا دھارانہ بدل دیا ۔تیئس برس میں دنیا کا رخ پلٹ گیا۔ دنیا کاضمیر جاگ گیا
۔نیکی کا رجحان پیدا ہو گیا ۔اچھے برے کی تمیز ہو گئی۔ خدا کی بزرگی کا
راستہ کھل گیا۔ انسان کو انسان کے سامنے اور اپنے خادموں کے سامنے جھکنے
میں شرم محسوس ہونے لگی۔ اونچ نیچ دور ہوئی ۔قومی و نسلی غرور ٹوٹا ۔عورتوں
کو ان کے حقوق مل گئے ۔کمزوروں و بے بسوں کی ڈھار س بندھی۔ غرض دیکھتے
دیکھتے دنیا بدل گئی ۔
جہاں پورے پورے ملک میں ایک خدا سے ڈرنے والا نظر نہ آتا تھا ،وہاں لاکھوں
کی تعداد میں خدا سے ڈرنے والے پیدا ہو گئے۔ جو اند ھیرے اجالے میں خدا سے
ڈرتے اور پانچ وقت اﷲ کے حضور سجدہ کرتے تھے۔جو یقین کی دولت سے مالاما ل
تھے، جو دشمن کے ساتھ انصاف کرتے تھے، جو حق کے معاملے میں اپنی اولاد کی
پروا نہ کرتے تھے ۔جو اپنے خلاف گواہی دینے کو تیار رہتے جو دوسروں کے آرام
کی خاطر مصیبت برداشت کرتے جو کمزوروں کوطاقت ور پر ترجیح دیتے، رات کو
عبادت گزار ،دن کے شہسوار، دولت حکومت طاقت خواہشات سب پر حاکم ،سب پر
غالب، صرف ایک اﷲ کے محکوم ،صرف ایک اﷲ کے غلام ،انہوں نے اس دنیا کویقین
امن و تہذیب روحانیت اور خدا کے ذکر سے بھر دیا۔ زمانے کی رُت بدل گئی
۔انسان کیا بدلا جہاں بدل گیا۔ زمین و آسمان بدل گئے ۔
یہ سارا انقلاب اسی پیغمبر ﷺ کی کوشش اور تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آدم کی
اولاد پرآدم کے کسی فرزند کا احسان نہیں، جیسا محمد ﷺ کا دنیا کے انسانوں
پر ہے اگر اس دنیا سے وہ سب لے لیا جائے، جو محمد ﷺ نے اس کو عطا کیا ہے تو
انسانی تہذیب ہزاروں برس پیچھے چلی جائیگی اور اس کو اپنی زندگی کی عزیز
ترین چیزوں سے محروم ہونا پڑیگا۔رسول ﷺ کی پیدائش کا دن مبارک کیوں نہ ہو
کہ اس دن دنیا کا سب سے مبارک انسان پیدا ہوا جس نے اس دنیا کو نیا ایمان
اور نئی زندگی عطا کردی۔اس کو یوم عالم نو کہنا چاہیے ۔کہ اس دن دنیا کا
نیا جنم ہوا ۔
بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے ۔۔یہ سب پود ا نہی کی لگائی ہوئی ہے |