جشنِ میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور راہِ اعتدال
(Waseem Ahmad Razvi, India)
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے؛ اس کی تعلیمات
بھی آفاقی ہیں۔اسلامی تعلیمات میں حکمت و دانش کے لعل و جواہر ہیں۔ احکامِ
اسلام میں حلال و حرام کو بالکل واضح کردیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ جو بھی ہیں
اگر وہ شریعتِ اسلام سے متصادم نہیں تو ان اعمال و اشغال کو مباح ٹھہرا کر
جائز مانا جاتا ہے اور اگر ان سے اسلام کو کسی بھی طرح سے تقویت ملے تو
انہیں ’’مستحب‘‘ کا درجہ دیا جاتا ہے۔اسی طرح وہ نئے افعال و اشغال جو
اسلام کے کسی اصول سے مخالف ہوں تو انہیں اصولی طور پر ناجائزہی مانا
جاتاہے۔ ان اصول کی تشریحات کتبِ فقہ میں مع امثال موجود ہیں جن کی تفہیم
انتشار و افتراق کے دفع میں معاون ہوتی ہے۔
ماہِ ربیع الاول کی آمد آمد ہوتے ہی مسلم معاشرے میں ایک عجیب ماحول پیدا
کیا جاتا ہے۔ یہ جائز ہے ،یہ نا جائز ہے، اس کی یہ دلیل ہے،اس کی کیا دلیل
ہے؟کس نے کب کیا کِیا؟آج یہ سب کیوں کیا جارہا ہے؟وغیرہ جیسے اَن گِنت
اعتراضات و سوالات سوشل میڈیا اور نجی گفتگو کا مرکز ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا
ہے سال بھر اس موقع کا انتظار ہوتا ہے جب لوگوں کو حلال و حرام اور جائز و
ناجائز کا علم سیکھنے کا جذبہ وقتی طور پر بیدار ہوتا ہے یا کیا جاتا ہے۔
پھر جشنِ میلاد کے بعد سال بھر حلال و حرام ، جائز و ناجائز کی تمیز کی کسی
کو فکر نہیں ہوتی۔ (الا ماشاء اللّٰہ)اخبارات میں سیرت کے موضوع پر اکثر
مضامین شائع ہوتے ہیں؛ جن میں جہاں سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے مختلف
پہلوؤں کو پیش کیا جاتا ہے وہیں کچھ مقالہ نگار حضرات نہ جانے کیوں اشارے
کنائے بلکہ واضح جملوں میں بھی ایسی باتیں تحریر کرجاتے ہیں جو ان کی متشدد
فکر کی عکاسی کرتی ہے۔ جب کہ ایک مضمون نگار اور صحافی کو معتدل مزاج اور
منصف نظر ہونا چاہیے اور کسی بھی بہترین مقالہ نگار کا بنیادی وصف یہی ہے
کہ وہ جس موضوع پر لکھنا چاہے تو اس کے دونوں پہلو کو سامنے رکھ کر وہی
تحریر کرے جو حق اور درست ہو۔
جشن میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا کے ہر حصے میں منایا جاتا ہے۔ اور
اسلامی تاریخ کے ہر دور میں اس کی اصل موجود رہی ہے۔ اگرچہ مروجہ طریقہ
مختلف ہے مگر اصل روح یعنی ذکرِ میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور اس کے
لیے اپنی استطاعت کے مطابق اہتمام کرنے کی روایت بلا شبہہ اسلامی تاریخ و
روایت کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اور اگر بالفرض اس جشن کی کوئی اصل موجود نہ ہو تب
بھی اس جشن کے اہتمام، جلوس و چراغاں، محافلِ ذکر میلادالنبی صلی اﷲ علیہ
وسلم کا انعقاد یقینا شوکتِ اسلام و عظمتِ اسلام کے اظہار کا ذریعہ ہے؛ جس
سے یقینا اسلام اور مسلمانوں کو تقویت ملتی ہے۔ اگر تشدد کا مظاہرہ کرتے
ہوئے ان افعال پر فتوے داغے گئے تو ان سیاسی و احتجاجی ریلیوں، احتجاجی
مظاہروں مذہبی شخصیات کے خلاف بھونکنے والوں کے خلاف مذمتی اقدام کے لیے
کہاں اور کس منہ سے دلائل پیش کیے جائیں گے؟حال ہی میں ہندستان ہی کے ایک
بدبخت مشرک نے حضور جانِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم ،ان کے یارِ غار سیدنا صدیق
اکبر اور مسلمانوں کی تقدس مآب روحانی ماں سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہما
کی شان میں گستاخیاں بکیں۔ اس کے خلاف پورے ہندستان کے مسلم سراپا احتجاج
بن گئے۔ ہندستان کاکون سا شہر ہے جہاں اس کی گستاخی کے خلاف ہزاروں لاکھوں
مسلمان سڑک پر نہیں نکلے؟ کون سا فرقہ ہے جس نے احتجاجی مظاہرہ نہیں کیا؟کس
مکتبِ فکر کے ذمہ دار افراد نے ان ریلیوں(جلوس) میں شرکت نہیں کی؟ کس طبقہ
کے علما نے اس گستاخی کی مذمت نہیں کی؟ بلا شبہہ ہر ایک نے اپنے اپنے طور
پر تحفظ ناموسِ رسالت کی خاطر مذمتی اقدامات احتجاجی مظاہروں جلوسوں اور
جلسوں کی شکل میں کیے۔ مگر کیا تحفظِ ناموسِ رسالت کے لیے یہ سب دورِ رسالت
اور دورِ صحابہ و تابعین میں بھی مسلمانوں کا عمل تھا؟……مذکورہ ادوار میں
بھی توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف
بکواس کی جاتی تھی۔ مگر کیا ان ادوار کے غیور مسلمانوں نے آج کی طرح
احتجاجی اقدام کئے تھے؟…… بلا شبہہ ان کی غیرتِ ایمانی نے کبھی گوارہ نہیں
کیا کہ ان کے ہوتے ہوئے شاتمانِ رسول زندہ رہے۔ چناں چہ ہر دور میں گستاخانِ
رسول کو یہی سزادی گئی کہ ان کے سروں کو گردن سے الگ کردیا گیا۔ دور رسالت
اور دورِ صحابہ و تابعین میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں،ان کے بعد بھی ہر
دور میں فدایانِ شمعِ نبوت نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ناموسِ رسالت پر
شب خون مارنے والوں کو واصلِ جہنم کیا۔نورالدین زنگی، سلطان صلاح الدین
ایوبی سے لے کر ماضی قریب میں غازی عبدالقیوم، غازی عامر چیمہ، غازی علم
الدین اور دورِ حاضر میں غازی ممتاز قادری تک فدایانِ ماہِ رسالت صلی اﷲ
علیہ وسلم کا ایک منور سلسلہ ہے جنہوں نے دنیا کو گستاخانِ رسول سے پاک کیا
ہے۔…… مگر جلوسِ میلاد ، محافلِ میلاد اور میلاد کی خوشی میں چراغاں کرنے
پر واویلا مچانے والے جرأت و بہادری کی اس روایت کو یک سر فراموش کرکے محض
احتجاجی جلوس، احتجاجی جلسوں اور مظاہروں ہی پر اکتفا کرکے شاید اپنے زعم
میں دورِ رسالت سے جاری اُس روایت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔فیا للعجب!
جشنِ میلاد النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چوں کہ پورے عالمِ اسلام میں
اتنہائی شان و شوکت اور اہتمام سے منایا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ اتنے بڑے
پیمانے پر ہونے والے جشن کے انعقاد میں کچھ ایسی باتیں بھی کم علم عوام سے
سرزد ہوجائیں جو اس جشن اور اسلام کی روح کے منافی ہوں۔ مگر اس سلسلہ میں
ان چند گروپس اور طبقہ کے کم علم اور غیر ذمہ دار افراد و اشخاص کے افعال
کی بنا پر اس مبارک جشن کو ٹارگیٹ کرکے عید میلاد کے خلاف فتوے بازی
کرنایقینا شدت پسندی اور اسلامی راہِ اعتدال کے منافی ہے۔یہ بات بھی واضح
رہے کہ حامیانِ عیدمیلادلنبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیشہ تحریراً و تقریراً،
قولاً و فعلاًجشن عید میلاد کے موقع پر یہی تلقین کی کہ یہ جشن ہم اپنے آقا
صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں مناتے ہیں اس لیے اس کا انعقاد بھی
شریعت کے دائرے میں کرنا چاہیے۔ غیر شرعی اور قابلِ گرفت حرکات کا اس جشن
کے کسی بھی حصہ سے تعلق نہیں۔ ہر سال ماہِ ربیع الاول کا چاند نظر آتے ہیں
علماے اہل سنت باقائدہ میلاد کے جلسوں اور اخبارات میں اعلامیہ جاری کرتے
ہیں کہ عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جلوس میں باوضو، حمد و
نعت،درود و سلام اور کلمہ پڑھتے ہوئے شرکت کریں،نماز کے وقت جلوس کے شرکا
قریبی سُنّی مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں پھر وہیں سے جلوس میں دوبارہ
شریک ہوجائیں،ڈی جے نہ بجائیں، کسی قسم کے دل آزار نعرے نہ لگائیں بلکہ
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرنے والے نعرے
لگائیں-وغیرہ، ہدایات جاری کی جاتیں ہیں۔ مگر ہزاروں لاکھوں افراد کے جلوس
میں کچھ فی صد افراد یا گروپس ان ہدایات پر عمل نہیں کرتے اور مخالفین
انہیں مٹھی بھر مفاد پرستوں کی حرکتوں کو بہانہ بنا کر پورے جلوس اور شرکا
مع قائدین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان ناقدین کا یہ
عمل تشددِ بے جا نہیں؟
آج پوری دنیا میں بالخصوص عرب شریف اور یورپ میں اسلام اور جہاد کا نام لے
کر جو دہشت گردانہ کارروائیاں ہورہی ہیں ان مٹھی بھر دہشت گردوں کا سہارا
لے کر یہودی نواز میڈیا جب جہاد اور اسلامی تعلیمات کو نشانہ بناتا ہے تو
بڑے بڑے ’مفکرین، قائدین اورمدبرین‘ یہی کہتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کا
اسلام اور جہاد سے کچھ تعلق نہیں۔ ان کی غیر انسانی غیر شرعی حرکتوں کا ذمہ
دار پورا عالمِ اسلام نہیں ہوسکتا…… اب اعتدال اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ جو
نقطۂ نظر اور اصول دہشت گردی سے متعلق ان مٹھی بھر شر پسندوں کے لیے رکھا
جاتا ہے وہی نظریہ جشنِ میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے انعقاد میں ہونے
والی قابلِ گرفت حرکت کرنے والوں سے متعلق ہونا چاہیے نہ کہ تمام حامیانِ
جشن کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔
آج دنیا چاند پر کمندیں ڈال رہی ہے، سورج کی شعاعوں کو گرفتار کررہی ہے،ہوا
کے دوش پر پرواز کررہی ہے،زیرِ سمندر اور دوسرے سیاروں پر آشیانے تیار
کررہی ہے۔اور مسلمان کو اس بات پر دست و گریباں کیا جارہا ہے کہ مسلمان
اپنے نبی کی عظمت و عقیدت اور محبت کے اظہار کے لیے کیا کریں اور کیا نہ
کریں۔یاد رہے یہ وہی منصوبہ ہے جسے ایک صدی قبل ڈاکٹر اقبالؔ نے ان اشعار
میں بے نقاب کیا تھا
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
مسلمان جب تک اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کے تحفظ اور اس کے
اظہار کو حرزِ جاں بنائے ہوئے تھے تب تک دنیا ان کے قدموں میں تھی۔ زمین
اپناسینہ ان کے لیے کشادہ کرتی چلی گئی اور مسلمان سیلِ رواں کی طرح زمین
کی وسعتوں میں سماتے گئے اور جہاں گیری و جہاں بانی کرتے رہے۔ لیکن فرنگی
تخیلات اور یہودیوں کی شہ پر پنپنے والے فتنوں کے دام میں جب سے پڑنے لگے
ہیں بے وقعت ہوکر رہ گئے ہیں۔ آج بھی اگر اپنی عظمتِ رفتہ کی بحالی عزیز ہے
تو ہمیں تحفظِ ناموسِ رسالت کی خاطر حساس ہونا ہوگا اور اپنے ماضی کی طرف
لوٹنا ہوگا۔ع
لوٹ ماضی کی طرف ایک گردشِ ایام تو
|
|