نزول گاہِ وحي کي مہماني ميں!

کعبہ بہارِ رحمت روضہ قرار وراحت
نوٹ: ”حج ڈائري“کي پانچويں قسط ميں جس حديث مبارک کامتناً نہيں مفہوماً ذکيا تھا، اس کے حوالہ جات اورديگر متعلقات ايک معززقاري اخبارغلام نبي کشافي صاحب نے اپنے مکتوب ميں لکھ بھيجے ہيں ، اُن کا بے حد شکريہ۔ چھٹي قسط ميں سورہ بقرہ کي آيت نمبر کے بارے ميں ايک اور محترم قاري جناب محمد يوسف مکروصاحب نے بروقت مطلع کيا کہ يہ 126ويں آيت ہے نہ کہ156ويں، ٹائپنگ کے اس تسامح کے لئے قارئين سے معذرت اور اللہ سے استغفار، جن اصحاب نے اپنے گراں قدر تاثرات سے نوازا ، اُن کا ذاتي طور ممنونِ احسان ہوں۔ اللہ تعالي ہم سب کو اپنے حفظ وامان ميں رکھے۔ آمين

فضا ئي سفر برق رفتار ي کے ساتھ طے ہو رہاہے ، دوسرے لفظوں ميں کہئے حجاز مقدس کي مسافت لمحہ بہ لمحہ کم ہورہي ہے يعني جدہ شريف نزديک آرہاہے ، ميں اس سوچ ميں مستغرق ہوں کہ اس وسيع وعريض فضا ميں طيارے کے لئے نہ کہيں اسے زميني سواري کي طرح ٹھہرنے سستانے کي کوئي ضرورت پڑ تي ہے، نہ تھکاوٹ ہوتي ہے ، نہ اونگھنے کا موقع ملتاہے نہ نيند کا غلبہ ستاتا ہے ، يہ محض ايک ہمہ وقت متحرک مشين ہے جس کا کام مسافروں کو ياتو منزل مقصود پر پہنچا کراپنے پہيے اگلي پرواز تک روکے رکھنا ہے يا صورت يہ ہوسکتي ہے کہ خدانخواستہ دورانِ پرواز ہي حادثے کا شکار ہوکر يہ اپنے پروں کو سواريوں سميت بکھرے ہوئے ملبہ کے ڈھير ميں بدل دے، سادہ لفظوں ميں طيارے کي منزل يا تو اگلا طيران گاہ ہے يا خاتمہ بالخير، تيسرا کوئي آپشن اس کے پاس ہے ہي نہيں ، شايد قلبِ انساني کي حرکتوں کا لب لباب بھي يہي ہے کہ ياتو وہ خدائے رحمن کي ياد ميں دھڑکنوں کي پرواز بنا رہے يا شيطان کي غلامي ميں حادثے کا شکار ہوکرملبے کا ڈھير بن کر رہ جائے ، ا س کے لئے تيسري کوئي شکل ہے ہي نہيں، قرآن کي اصطلاح ميں بندہ ياتو شکو ر يعني تابع فرماں يا کفور يعني ناشکرا (الدہر، آيت ۶) ہوسکتاہے۔۔۔۔۔ چلئے ڈنر کا وقت ہوگيا، ائر ہاسٹس سواريوں ميں عشايہ پيش کر نے ميں مصروف ہوئيں ، حرم کے تمام مسافر ميٹھے پکوانوں اور نعمتوں کي لذتيں ميں کھوگئے،يہ منظر ديکھ کرميں نے يہي اخذ کيا کہ انسان اپني جبلت کے تقاضوںاور سرشت کے مطالبوں سے بند ھا ہوا مخلوق ہے، اس کي بھوک پياس اور کام ودہن کي لذت يابي بھي نيند اور آرام کي طرح اس کے لئے ناگزيرہے، اگر کسي کي بھوک مٹ جائے يااُسے بے خوابي آگھيرے توجبلت کي اس خلافِ معمول اُلٹ پلٹ کو بيماري کہاجاتا ہے، البتہ کوئي رضاکارانہ طورکم کھائے ياکم سوئے تو فبہا کيونکہ حکمائے روح ودل کا کہنا ہے کہ کم گوئي،کم خوري،ترکِ لذات ( نہ کہ ترکِ حلال) اورکم نيند کر کے زيادہ وقت عبادت خداوندي ميں محو ہو نا قلب کے طيارے کي ہمہ وقت پرواز کے لئے لازم وملزوم ہے ، اس کے علي ا لرغم بسيار خوري،فضول گوئي، پاوں پسارے نينديں اُڑانا طيارہ قلب کے حادثے کي دليل ہے ، پہلي حالت نفس ِمطمئنہ(الليل، آيت ۲۷) کي بلندي پرواز ہے اور دوسري حالت نفسِ امارہ(يوسف۵۳) يعني اپنے آپ سے غافل ہونے کا حادثہ ، يہ معر کہ عقلِ سفاک اورعشقِ بے باک کے درميان ہميشہ رہاہے،عشق کولافاني آزادي کي آرزو ميں مر نے سے بھي دريغ نہيں، عقل عيش پرست کو فاني لذتوں کے لئے زندگي تک نيلام کر نے ميں کوئي مضائقہ نظرنہيں آتا
موسي،، وفرعون وشبير، ويزيد
ايں دوقوت از حيات آمد پديد

کھانے کي ٹرے کو خالي کرتے ہوئے ياد آيا کہ دنيا ميں دو طرح کے لوگ ہيں : ايک خوردن برائے زيستن ( کھاؤزندہ رہنے کے لئے) والے زندہ دل،دوسرے زيستن برائے خوردن (زندہ رہو کھانے کے لئے) والے تنِ مردہ ، کتنا جوہري فرق ہے ان دو متضاد سوچ والے لوگوں ميں؟؟ خور دونوش سے فراغت کے بعد اب نيند کا غلبہ ہو نا طے تھا سو جبلت کے ہاتھوں مجبور ميرا خاکي وجود بھي اونگھنے لگا، ميري ا ہليہ مگر بيدار تھيں ، دوسرے کئي معتمرين بھي بيداري کي حالت ميں تھے، کچھ دير بعد اب تجديد وضو لازم تھي، غسل خانے کا رُخ کيا تاکہ ميقات يعني يلملم پر عمر ے کي نيت تازہ دم ہوکر باندھ سکوں، افسوس کہ باتھ روم ميں پاني کي بوند بوند بھي مشکل سے ٹپک رہي تھي، مر تا کيا نہ کرتا جوں توں وضو بنايا، اس مسئلے کے بارے ميں کسي مستند صاحبِ افتاءعالمِ دين سے قبل از وقت رجوع کرنا بہتر ہے کہ اس حالت ميں کياکيا جائے، کيا تيمم کي گنجائش نکلتي ہے ؟ بہرکيف سفر جتنا جتنا کٹتا رہے ، اسي مناسبت سے دل بھي مچلتا تڑپتارہنا چاہيے، دل کي يہ عاشقانہ پرواز ايک لمحہ بھي رُک نہ جاني چاہيے ، سچ قلب وجگر کي مسلسل تڑپ ہي سفر محمود کي روح ہے،اس کي حلاوت ہے ،ا س کي منزلِ مقصود ہے، اللہ کرے کہ کسي زائر کي يہ پرواز کبھي بھي کسي بھي حال نہ رُکے،يکايک اعلان ہو اکہ ہم بہت جلد ميقات کے حدود ميں داخل ہونے والے ہيں ، يہ اعلان معتمرين کو چوکنا رہنے کي پيشگي فہمائش تھي: ادب سے بيٹھئے، حضورِ قلب سے متوجہ ہوجايئے، اپني تمام توجہات مر کز اُس مکہ معظمہ کے زمين وآسمان کو بنايئے جو اب آپ کي تشنگي کے لئے تشفي کا سامان بننے والا ہے، جو اندھي آنکھوں کي بينائي لوٹائے دے گا، جو سوئے ہوئے دلوں کو گہري نيند سے جگا ئے گا، جو اللہ کي معرفت اوراس کے محبوب رسول، کي محبت کے جام در جام پلائے گا، گڑ گڑا کر دعا کريں،طلب والتجا کيجئے،انتظار کے پل پل کاحظ اٹھايئے،اگر ہو سکے تو دو چار گرم گرم آنسوؤں سے اپني پلکيں بھگويئے،اعلان سنتے ہي حرم کے کفن بردوش مسافروں کے مشامِ جان ميں مکہ کي خوشبوئيں سمانے لگيں، انہيں اس روح پرورفضا ميں گوياوہي پيغام ونويدملي جيسے حضرت يعقوب عليہ السلام کو مدتوں فراقِ يوسف،پرياسفي،يعني ہائے (يوسف۸۴) کے واويلا کے بعد آمدِيوسف عليہ السلام کے انتظارميں يکايک فتحسويعني اُسے ڈھونڈنکالو( يوسف ۸۷) کي خوشبو ئے يوسفي ، سے پالا پڑا،ہرايک معتمرادب اورطمانيت کاپيکر بن کر اب احرام کي چادروں کو دُرست کر نے لگا، کئي ايک نے طيارے ميں احرام پہننے کے لئے مخصوص کي جگہ پر يہ کام کيا، پندرہ بيس منٹ بعد ميقات کي حدود ميں ا خلے کا خوش کن اعلان ہوا، معتمرين ہمہ تن گوش ہوئے اور عمر ے کي نيت باندھ لي:اے اللہ! ميں صرف تيري رضا کے لئے عمرہ کا احرام باند ھتاہوں تو اس کو ميرے لئے آسان فرما، اور صحيح طر يقے پر ادا کر نے کي توفيق دے اور اپنے فضل وکرم سے قبول فرما،يہ نيت عربي ميں جنہيں ياد تھي ، انہوں نے ہلکي آواز ميں اسے پڑھ سناياا ور جن کو ياد نہ تھي انہوں نے اپني چھوٹي کتابچوں کو کھول کر نيت کے کلمات پڑھے ، بعضوں نے دل ہي دل ميں اسے اپني زبان ميں باندھ ليا ، اب بآواز بلند تين مر تبہ تلبيہ پڑھي گئي:ميں حاضرہوں خداوندتيرے حضورميں،ميں حاضرہوں، تيراکوئي شريک نہيں، ميں حاضر ہوں، ساري تعريفيں اورسب نعمتيں تيري ہي ہيں،ميں حاضر ہوں،ملک اوربادشاہت تيري ہي ہے،تيراکوئي شريک نہيں،طيارے ميں ہرجانب سے لبيک لبيک کي سائلانہ وعاشقانہ صداؤں نے اللہ کويقيناًہم گناہ گاربندوں پر مہربان کياہوگا،اُس کي نظرالتفات ہم ايسے کم تروبے مايہ انسانوں پرمرکوزہو گي، وہ کسي سے ہميشہ کے لئے ويسے روٹھتا ہي کب ہے کہ منانے والے ناکام ہوجائيں،بھلا کوئي ماں اپنے بچے کوطفلانہ شرارتوں کي دائمي سزاديتي ہے؟ زيادہ سے زيادہ جھڑک دياپھرگلے لگايا،ايک باربچے نے شرارتيں چھوڑديں، ماں کوخوش کرنے کاسليقہ سيکھاتوسابقہ غلطياں معاف،ساراطفلانہ پن نظرانداز ، ساري حماقتيں درگزر،وہ تورب رحيم ہے،مولائے کريم ہے،آقائے انس وجان ہے،کائنات کامدبرومنتظم ہے،اس نے انسانوں کے ذريعے ہي دنيا کايہ نظام ہست و بود چلاناہے ، فرشتے تو کہيں زمين پرنظامِ زندگي چلانے آنے ہي نہيں آنے، کہہ ديجئے:اگرزمين پرفرشتے ہوتے جويہاں مطمئن ہوکرچلتے پھرتے توہم ان پر آسمان سے کوئي فرشتہ ہي رسول بناکرنازل کرتے( بني اسرائيل۹۵) کرنا تو سب کچھ انسانوں کوہے جن کے اوپر کراماًکاتبين يعني معززکا تب (المطففين ۱۱) کاپہرہ بٹھايا گيا ہے،اس لئے اللہ جو”غافرالذنب وقابل التوب“ہے (مومن۳) منتظررہتاہے بندہ کب واپس پلٹے،اس کي چھاتي سے لگ جائے،معافياں مانگے ، روئے دھوئے اور سب کو چھوڑ چھاڑکر صرف ايک رب کا ہوجائے،
شوق کے پنچھي نے ميري تائيد کي ، کہا اللہ کي مامتا والي صفت عاليہ پرليجئے يہ تمثيلي حديث مبارک سماعت کيجئے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضي ا للہ تعالي، عنہ سے روايت ہے، انہوں نے کہا کہ ميں نے رسول اللہ ، سے سنا، آپ ارشاد فرماتے تھے : خدا کي قسم! اللہ تعالي، اپنے مومن بندے کي توبہ سے اُس مسافر سے بھي زيادہ خوش ہوتاہے جو (اثنائے سفر ميں) کسي غير آباد اورسنسان زمين پراُترگيا ہوجوسامانِ حيات سے خالي اوراسبابِ ہلاکت سے بھرپورہواوراس کے ساتھ بس اُس کي سواري کي ا ونٹني ہو،ا سي پراُس کے کھانے پينے کا سامان ہو، پھر وہ(آرام کر نے کے لئے) سر رکھ کے ليٹ جائے، پھراُسے نيندآجائے،پھراس کي آنکھ کھلے توديکھے کہ اُس کي اونٹني( پورے سامان سميت ) غائب ہے، پھروہ اُس کي تلاش ميں سرگرداں ہو، يہاں تک کہ گرمي اورپياس وغيرہ کي شدت سے جب اس کي جان پربن آئے تووہ سوچنے لگے کہ (ميرے لئے اب يہي بہترہے) کہ اُ سي جگہ جا کر پڑوں( جہاں سويا تھا) يہاں تک کہ مجھے موت آجائے،پھروہ( اسي ارادہ سے وہاں آکر) اپنے بازو پرسررکھ کے مر نے کوليٹ جائے،پھر اس کي آنکھ کھلے توديکھے کہ اس کي اونٹني اس کے پاس موجودہے اوراس پرکھانے پينے کاپوراسامان(جوں کاتوں محفوظ ہے) موجودہے،توجتناخوش يہ مسافراپني اونٹني کے ملنے سے ہوگا ، خدا کي قسم مومن بندے کے توبہ کرنے سے خدا اس سے بھي زيادہ خوش ہوتاہے ، ( متفق عليہ) ،اسي مضمون سے مشابہ صحيحين ميں حضرت ابن مسعود، اور حضرت انس سے مروي ايک روايت ميں يہ اضافہ ہے کہ رسول اکرم ، نے فرمايا: اونٹني کے ا س طرح مل جانے سے وہ ( بدّو) اتنا خوش ہوا کہ اللہ تعالي،کي اس بے انتہاعنايت اوربندہ نوازي کے اعتراف ميں وہ کہناچاہتاتھا کہ خداوندبس توہي ميرامالک توہي ميرارب ہے اورميں تيرابندہ ہوں، ليکن خوشي کي سرمستي ميں اس کي زبان بہک گئي اوراس نے کہا:ميرے اللہ توميرابندہ ميں تيراخدا،فرمايافرط مسرت اوربے حدخوشي کي وجہ سے اس بے چارے بدّوکي زبان بہک گئي ۔۔۔۔ شوق کے پنچھي نے کہا اب ايک حکايت بھي سنتے جايئے، شيخ ابن القيم نے اپني ”مدارج السالکين“ ميں اس حديث شريف پر شرح وبسط سے علم کے موتي بکھيرنے کے اخير ميں ايک حکايت لکھي ہے ، کہتے ہيں کہ ايک عارف نفسِ امارہ کے ہاتھوں مغلوب ہوگئے تھے اور سرکش و باغي ہوئے جارہے تھے ،ان کا گزرايک گلي سے ہوا،ديکھا کہ ايک گھر کا دروازہ کھلاہے اور ايک بچہ روتاچلّاتا ہوااس ميں سے نکلا،اس کي ماں اس کوگھرسے دھّکے دے دے کرنکال رہي تھي، جب وہ دروازہ سے باہرہوگياتوماں نے اندرسے دروازہ بند کرليا،بچہ اسي طرح روتابلکتابڑبڑاتا کچھ دورتک گيا،پھرايک جگہ سوچنے لگا کہ ميں اپنے ماں باپ کے گھرکے سواکہاں جاسکتا ہوں اور کون مجھے اپنے پاس رکھ سکتاہے يہ سوچ کر ٹوٹے دل کے ساتھ وہ ا پنے گھر کي طرف لوٹ پڑا،دروازہ پر پہنچ کر اس نے ديکھا کہ دروازہ اندرسے بند ہے تو وہ بے چاراوہيں چوکھٹ پرسررکھ کے پڑگيااوراسي حالت ميں سوگيا،ماں آئي، ا س نے دروازہ کھولااوراپنے بچے کواس طرح چوکھٹ پرسررکھ کرپڑا ديکھ کے اس کادل بھر آيااورمامتا کاجذبہ اُبھرآيا،اس کي آنکھوں سے آنسوبہنے لگے، بچے کو اُٹھاکر سينے سے لگايا اوراس کو پيارکر نے لگی اورکہہ رہي تھي: بيٹے تو نے ديکھا تيرے لئے ميرے سواکون ہے،تونے نالائقي ناداني اور نافرماني کاراستہ اختيار کر کے ميرا دل دُکھا کے مجھے وہ غصہ دلايا جو تيرے لئے ميري فطرت نہيں ہے،ميري فطرت اورمامتاکاتقاضاتو يہي ہے کہ ميں تجھ پرپيارکروں اورتجھے راحت وآرام پہنچانے کي کوشش کروں،تيرے لئے خيراوربھلائي چاہوں،ميرے پا س جوکچھ ہے تيرے لئے ہيں۔۔۔۔۔اس عارف نے يہ ساراماجراديکھاتوجواس کاسبق تھاوہ ليا، ماخوذ”معارف الحديث “از حضرت مولانا منظور نعماني عليہ رحمہ)
اس حکايت کو پڑھتے وقت پيغمبراسلام کايہ ارشادگرامي بھي زيرنظررکھيں:اللہ کي قسم!اللہ کي ذات ميں اپنے بندوں کے لئے اس سے زيادہ پياراوررحم ہے جتنا کہ اس ( ايک صحابيہ، کي طرف اشارہ ہے) ماں ميں اپنے بچے کے لئے ہے، (متفق عليہ) شوق کے پنچھي کا پيمانہ صبر ٹوٹ گيا ، دل کي زبان ميں گفتگو شروع کي ،کہا اب يلملم کا دروازہ کھل گيا، مکہ شريف کامشک عنبريں چہارسو پھيلا ہواہے،آنکھيں آنسوؤں سے تربہ تر،دل ميں جوش وجذبے کي بجلياں، لب پہ لبيک کي رقت آميز صدائيں،جذبوں ميں سرمستي ،ميں کس کس چيز کو سنبھالا دوں؟ ميں کھويا ہوابچہ ہوں مجھے مامتا کي آنچل ميں گم ہو نے دو، طيارے کے پنجرے کو توڑ دو، ميں اللہ کي فضائے بسيط سے ہم آغوش ہونا چاہتاہوں،اے طيارے!رُک جا، مجھ سے ماں کي فرقت ودوري برداشت نہيں ہوتي، مجھے تم جيسے وسائط کي ضرورت بھي نہيں، کوئي درميانہ دارنہيں چاہيے،تم اپني راہ لگ، ميں خوداُڑکے ارضِ مقدس کے ذرے ذرے کوچوم لوں گا، بابِ کعبہ سے اپنا سر پٹخ پٹخ کر جان دوں گا،غلافِ کعبہ سے لپٹ لپٹ کر مامتا کا سايہ پالوں گا،حجراسود کے بوسوں کي مٹھاس ميں گم صم ہوجاؤں گا،ملتزم اورحطيم سے بغل گيرہوکرانہيں اشکوں ميں نہلاؤں گا،ميزابِ رحمت کے آبشار تلے روحِ مضطرب کوغسل دوں گا، حضرت اسماعيل عليہ السلام کي معصوم ا يڑيوں کے صدقے ملے تحفہ الہيہ آب زمزم ميں ڈوب مروں گا،صفا ومروہ کي سعي ميں اُمت کي بزرگ وبرتر والدہ حضرت ہاجرہ عليہا السلام کي بے چيني واضطراب ميں کھو جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔ميں نے شوق کے پنچھي کوصبروضبط کي بندشيں ياد دلائيں
چلے ہيں جانب ارضِ حرم لرزيدہ لر زيدہ
نظر دُ زديدہ دُزديدہ قدم لغزيدہ لغزيدہ
سکونِ قلب کي لہروں سے يہ محسو س ہوتاہے
کوئي ہے مائل لطف وکرم پوشيدہ پوشيدہ
پھرايک باردل پسند اعلان ہوا، سعودي ائر لائنز آپ سب کا جدہ ميں خير مقدم کر تاہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 391093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.