میرے آقا کریم ﷺ کی رحمتیں

 اﷲ رب العزت نے اپنی قدرت کے بلند ترین ،عظیم المرتبت شاہکارامام الانبیاءؐ، سید الانبیاء ؐکو اس کائنات ارضی پر بھیجنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے انبیاء کرام ؑ کی روحوں کو اکٹھا کر استفسار فرمایا کہ میں تمہارا رب ہوں کہ نہیں تو اپنے خالق کی محبت سے سرشار جس روح نے سب سے پہلے ہاں کہا وہ روح میرے اور آپ کے کریم آقا ﷺ کی روح مقدس تھی اس کے بعد سب انبیاء کی روحوں نے تصدیق کی پھر دوسرا اجتماع اﷲ رب العزت نے آمنہ کے در یتیمﷺ کی تمام انبیاء پر سرداری قائم کرنے کے لئے کیا جس میں تمام انبیاء ورسل ؑکی روحوں سے میثاق لیا گیا جسے سب نے قبول کیا اﷲ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل ؑ درحقیقت محبوب رب کائنات رسول کریمﷺ کے تعارف اور انکی رحمت و شفقت کا تذکرہ کرنے کے لئے بھیجے آدم ؑ کو دیکھا جائے تو وہ حضور اکرمﷺ کے وسیلہ مبارک سے اماں حوا سے ملاقات کرتے ہیں جب ہر نبی و رسولؑ کی نبوت و رسالت پر غور کیا جاتا ہے تو ہر صاحب فہم و فراست اس نتیجہ پر پہنچتاہے کہ حضورﷺ کی ختم نبوت کے صدقے تمام انبیاء و رسلؑ کو نبوت و رسالت ،حسن و جمال،بلند و بالا مرتبے ،عظمتیں عطا کی گئیں اگر میرے آقا و مولا حضرت محمدﷺ نے اس دنیا میں تشریف نہ لانا ہوتا تو کسی نبی و رسول ؑکا وجود نہ ہوتا یہ زمین و آسمان ،ارض و السمٰوت کی رنگینیاں نہ ہوتیں یہ خوبصورت دنیا کی چہل پہل،ہواؤں ،سمندروں ،پرندوں جانوروں ،درندوں ،پھول،پھل،لاتعداد نعمتوں کا لا متناہی سلسلہ ،جنت و دوزخ ،کئی ہزاروں جہانوں پر مشتمل یہ کائنات نہ ہوتی میرے نبی رحمتﷺ کی ختم نبوت کے صدقے یہ سب کچھ قائم ہوا یعنی یہ کائنات کا وجود میرے آقاﷺ کی رحمت کی اک ادنیٰ سی جھلک ہے جب اﷲ تعالیٰ نے مناسب سمجھا کہ محبوبﷺ کی دنیا میں آمد کا وقت آ گیا ہے تو زمین پر موجود نبی و رسول حضرت عیسی ؑ کی موت کا انتظار کئے بغیر انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا جب یتیموں کے ملجاو ماوا آقاﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو دنیا محبت و رحمت سے نا آشنا ،حوس پرستی ،خود غرضی،حیوانیت کی ایک بد ترین شکل اختیار کر کے انبیاء ورسل ؑ کی تعلیمات سے انحراف کر چکی تھی صنف نازک (عورت)کے مقدس مقام کو بالا ئے طاق رکھ کر اس کی آبروریزی میں مست تھی نا انصافی کا یہ عالم تھا کہ ماں جیسی عظیم ہستی کا تقدس بھی اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں پامال ہو رہا تھا پھول جیسی بچیوں کو زندہ درگور کیا جا رہا تھا انسان تو انسان جانور بھی ہادی برحق ﷺکے منتظر نظر آئے بالآخر8ربیع الاول (بمطابق مولانا احمد رضا خان بریلوی،فتاویٰ رضویہ412/26رسالہ نطق الہلال ) ،9ربیع الاول 1؁ عام الفیل یوم دوشنبہ کے وقت پیدائش مبارک ہوئی عیسوی تقویم کے مطابق 22/20اپریل 571کی تاریخ تھی (الرحیق المختوم) نبی رحمتﷺ کی آمد پر اس رات اﷲ رب العزت نے جتنے بھی نفوس پیدا کئے وہ سب کے سب لڑکے تھے اوران میں سے کسی کا نام بھی احمدﷺ اور محمدﷺ نہیں رکھا گیا دیکھئے ایمان والو! نبی رحمت کی آمد پر رب کائنات نے لاتعداد لوگوں کے گھروں میں رحمت کر دی اس عظیم المرتبت انسان عظیم ﷺ کی رحمت کے چرچے حلیمہ سعدیہ ؓسے بھی سنے جا سکتے ہیں اور آپ کے داد ا ،دادی،چچاؤں ،اہل مکہ بھی اس کے گواہ ہیں کہ سب کافر اور دین ابراہیمی کے پیروکار میرے آقا کریم ﷺکی رحمت سے مستفیض ہوتے نظر آتے ہیں بچپن کا زمانہ ہے بارش نہیں ہو رہی سب لوگ عبدالمطلب کے پاس آتے ہیں کہ اے معزز خاندان کے سربراہ مکہ کے سردار ،نیک پاک باز ،شفیق بادشاہ بارش نہیں ہو رہی قحط پڑ گیا ہے بارش کے لئے دعا کریں حضرت عبدالمطلب اہل مکہ کے ہمراہ ایک کھلے میدان میں چلے جاتے ہیں عبدالمطلب کے ساتھ حسن و جمال کا پیکر ایک بچہ بھی ہے حضرت عبدالمطلب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں رب تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ اے اﷲ اس پیارے بچے کے واسطہ دیتا ہوں جو تجھے بہت محبوب ہے جو تیرا برگزیدہ بندہ ہے بارش عطا فرما تیری خلقت بڑی پریشان ہے مورخ لکھتا ہے کہ ابھی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ بارش شروع ہو گئی قارئین کرام! یہ بچہ کون تھا یہ عظیم ہستی نبی آخرالزمان حضرت محمدﷺ تھے جن کی رحمت سے مکہ والوں کو باران رحمت نصیب ہوئی ایک نہیں کئی بار رحمت محبوب کائنات ﷺ کی رحمت سے مکہ والے مستفیض ہوئے (سبحان اﷲ)۔میرے مدنی کریمﷺ نے ابھی اعلان نبوت نہیں کیا ہے کہ بے سہارا ،مظلوموں کی مدد کے لئے رضا کارانہ ،سپاہیانہ تنظیم میں شمولیت اختیار کر ریتے ہیں حج کے دنوں میں ایک مکہ کے بگڑے ہوئے سردار نے اپنے باپ کے ساتھ آئی ہوئی خوبصورت لڑکی کو یرغمال بنا لیا اس غم کے مارے باپ کو کسی نے بتایا یہاں مکے میں (حضرت )محمدﷺ نامی ایک نوجوان ہے جو آپ کی عزت آپ کی بیٹی کو اس ظالم سے لیکر واپس دلا سکتا ہے وہ بوڑھا باپ آقا کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کرعرض کرتا ہے کہ میری بیٹی فلاں ظالم سردار کے قبضے میں ہے میرے آقاﷺ اپنے رضا کاروں کو ساتھ لیکر چل پڑتے ہیں اس بد کردار رئیس کے محل کا گھیراؤ کر کے اس کو باہر بلا کر فرماتے ہیں اس ضعیف،بوڑھے کی عزت،بیٹی تولیکر آیا ہے اس نے کہا ہاں۔۔۔۔ میرے آقا ﷺنے فرمایا واپس کرو اس بگڑے سردار نے کہا کہاے محمد ﷺ آپ آئے ہو اب صبح واپس کر دوں گا میرے آقا ﷺ فرماتے ہیں ابھی واپس کرو ورنہ طاقت سے واپس لیکر رہیں گے اس رعب،جلال دار جملے سن کر بگڑے سردار پر کیکپی طاری ہو گئی اور اس مظلوم لڑکی کو اس سے لیکر بوڑھے باپ کے حوالے کر دیا جب مکہ میں بعثت کے پندرویں سال جنگ فجار میں حصہ لیا ۔اس میں آپ ﷺ شریک ہوئے پچیس سال سے قبل تک آپ ﷺ بکریاں چراتے رہے ،پچیس سال کی عمر ہوئی تو ایک معزز مالدار ،تاجر خاتون حضرت خدیجتہ الکبر یٰؓ بنت خویلدکے سامان تجارت کی تجارت شروع کی پچیس ویں سال حضرت خدیجہ ؓ سے بنت خویلد سے شادی ہوگئی35سال کی عمر مبارک تھی جب حجرا سود کا تنازعہ چلا تو نبی اکرمﷺ کی رحمت نے انہیں کشت و خون سے باز رکھا قمری اعتبار سے چالیس سال( بمطابق 10اگست 610عیسوی ) کی عمر مبارک میں پہلی بار جبرائیل وحی لے کر تشریف لائے اخلاقی پستی کے شکار معاشرے میں کو سادھارنے کے لئے کریم آ قاﷺ کو رب کائنات نے حکم دیا کہ اب اس معاشرے کے سدھار کے لئے اعلان نبوت فرمائیے اعلان نبوت ہوتا ہے ، تین سال خفیہ دعوت کے بعد حکم ہوا کہ الاعلان دعوت حق ،دعوت رحمت قیام خلافت کا کا پروگرام بگڑے ہوئے معاشرے میں پیش کیجئے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو اسکی دعوت دی صرف حضرت علیؓ نے دعوت قبول کی اس دعوت میں تقریبا 45 آدمی دائرہ اسلام میں دا خل ہوئے پھر کوہ صفا پر پروگرام کا اعلان ہوتا ہے کہ اﷲ کے نظام فطرت لا الہ الا اﷲ کو قبول کر لو یہی نظام رحمت ہے نظام جہالت جو یہ تم نے اﷲ کے احکامات کے مقابلے میں تشکیل دے رکھا ہے ے تائب ہو کر اﷲ کی غلامی میں آ جاؤ جب نبی رحمت ﷺ نے اس دور کے نظام جہالت /خود ساختہ/دین/ مذہب/نظام جمہوریت کو چیلنج کیا تو سب سیخ پا ہو گئے مگر ان باغیوں کے ظلم کے ستائے ہوئے انصاف کے منتظر نبی اکرمﷺ کی رحمت کے سائے کے متلاشیان نے دامن رسالتﷺ کو پکڑ لیا پھر چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ دنیا کے تمام وسائل رکھنے والے اسوقت کے جابروں ظالموں ،جاگیرداروں نے ہر طرح سے غلامان مصطفی کو ڈرایا دھمکایا ،مال و دولت کا لالچ دیا مگر یہ نظام رحمت ،نظام رب العزت کو قبول کرنے والوں کے ضمیروں کا سودا نہ کر سکے ہر ظلم ان پر ہوا داعی برحقﷺ کو بیٹیوں کی طلاقیں دیکر رنجیدہ کیا گیا لیکن مشن پھر بھی نہ چھوڑا صبر کا دامن تھامے رکھا اس رحمت کو مٹانے کے لئے قتل کرنے کا پروگرام بنایا گیا (نعوذ باﷲ) مگر رب نے فرمایا تم جتنی مرضی تدبیریں کر لو اپنے محبوب ﷺ کو میں نے بچانا ہے تم جو مرضی کر لو میرے محبوب کا تم کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے یہ کافر اﷲ و رسولﷺ کے دشمن مشن پیغمبر کو مٹانا چاہتے ہیں خدا پھیلانا چاہتا اس رحمت کو جس کا فیض قیامت تک حشر ،جنت میں اہل حق نے حاصل کرنا ہے دیکھو مکہ کے پہلوان میرے حضورﷺ کے چچا امیر حمزہؓ،دامن رحمت پیغمبر میں آنے کا اعلان کرتے ہیں پھرحضرت عمرؓ بھی قتل رسولﷺ (نعوذ باﷲ) کے لئے آتا ہے دعا اور نظر نبوت کا شکار ہو جاتا ہے تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے مکہ کی سنگلاح زمین میں محبت والفت کی آبپاری نام نہاد ٹھیکیداروں کو برداشت نہیں لیجئے بعثت کے ساتویں سال سب فیصلہ کر لیتے ہیں معاشرتی ،سیاسی ،سماجی،بائیکاٹ کا ۔تین سال تک شعب ابی طالب میں اصحاب محمد ﷺ اپنے آقاﷺ کے ساتھ ہیں ان کے ہمراہ طرفداران پیغمبر بھی ہیں نبی رحمت کی ذات اور مشن سے اتنی محبت ہے کہ گھاس، پتے ،کھجور کی گٹھلیاں ،چمڑا بھگو کربھوک پیاس کی شدت کم کر لیتے ہیں مگر دامن مصطفیﷺ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی نظام باطل کو قبول کرنے کو تیار ہیں 10 نبوی کو طرف دار پیغمبر حضرت ابوطالب کا انتقال ہو جاتا ہے اسی سال آپ ﷺ کی محبوب پیاری بیوی حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓکا انتقال ہوا تو دل پیغمبرﷺ رنجیدہ ہوا تو اسے عام الحز ن (غم کا سال) قرار دیابائیکاٹ ظالم تنگ آ کر ختم کر دیتے ہیں 10 نبوی ماہ شوال حضرت سودہ ؓ سے آپ ﷺ کی شادی ہوتی ہے رسول رحمتﷺ بیرون مکہ طائف میں پیغام اﷲ دینے جاتے ہیں لیکن وہاں جو سلوک ہوا وہ تاریخ اسلام کا المناک باب ہے آقا کریمﷺ کو اسقدر مارا پیٹا تشدد کیا گیا کہ فرشتے بھی رشک سے تڑپ گئے اور مدد کو آئے پیغام ربانی آیا کہ اگر آپ چاہیں تو ان کو دونوں پہاڑوں میں مثل کر رکھ دوں تو آقائے رحمتﷺ نے فرمایااے باری تعالیٰ انہیں معاف کر دے یہ مجھے نہیں جانتے کہ میں تیرا پیغمبر اور رسول ہوں اگر یہ میری دعوت قبول نہیں کریں گے تو مجھے امید ہے کہ ان کی نسل میری دعوت ضرور قبول کریگی میرے کریم آقاﷺ کے پروگرام کی دعوت مکہ سے باہر یثرب میں بھی پھیلنے لگی اسباب یوں پیدا ہوئے کہ حج (جولائی 260؁ میں یثرب (مدینہ منورہ) کے 6آدمیوں جن کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا جانثاران پیغمبر ؓکی صف میں آ گئے اس سال11نبوت کو آپﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے نکاح کیا 11یا13ویں سال نبوت غم سے نڈھال محبوبﷺ کو اﷲ تعالی نے معراج کروائی جس کی سب سے پہلے تصدیق جناب حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ نے کی اگلے سال 7مزید مدینہ کے لوگوں نے حج کو موقعہ پر اسلام قبول کیا اس طرح تعداد تیرہ ہو گئی یعنی نبی اکرمﷺ کارحمت پر مبنیپروگرام مدینے میں بھی جاری و ساری ہو گیا 13 ویں نبوت کو دوسری بیعت ہوئی جب مکہ والوں کودعوت پیغمبرکی کار گزاری کا علم ہوا تو انہوں نے اس شمع رسالتﷺکوبجھانے کا پروگرام بنایا 14 نبوی کودارالندوہ میں ابوجہل بن ہشام کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں خاتم الانبیاﷺ کیخلاف تادیبی آخری ،منظم کاروائی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا مگر رب کائنات نے ان کے ظلم سے نجات دلانے اور نبی اکرم ﷺ ،اسلام اور صحابہ کرامؓ کو حکومت و عزت دینے اور بعد میں ان ظالموں کو انہی مقدس نفوسوں کے ہاتھوں جہنم و اصل یا راہ ہدایت پر لانے کا منظم ترین منصوبہ بنا لیا اﷲ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو ہجرت کا اس سے قبل ہی حکم دے دیا تھا 27صفر 14نبوی کو نبی ﷺ ،صدیقؓ،اور علیؓ مکہ میں ہیں لوگوں کی امانتیں اﷲ حضرت علی المرتضی کے سپرد کرتے ہیں جب کہ اپنی امانت حضرت سیدنا محمد مصطفی ﷺ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سپرد کرتے ہیں ہجرت ہوتی ہے دشمن کی ہر چال ناکام ہو گئی اﷲ کے محبوبﷺ 12ربیع الاول 14نبوی کو دارالہجرت مدینہ منورہ میں تشریف لا چکے ہیں اﷲ تعالیٰ نے وہاں پر اپنا نظام رحمت نظام خلافت بھی قائم کر دیا خاتم الانبیاء امیر سربراہ مملکت ہیں1ہجری یعنی پہلے سال مسجد نبوی کی تعمیر،مسلمانوں میں بھائی چارہ،یہود سے معاہدہ کیا گیا نبی اکرم ﷺ کے نظام رحمت کا چرچا اب زدعام جاری ہے اب انسانوں جانوروں ،بے جانداروں کو علم ہے کہ اب ہمارے ساتھ کوئی بے انصافی نہیں کر سکتا اب ہمیں انصاف دینے والا ہادی برحقﷺ پیغمبر رب العزت نے نظام رحمت ،نظام خلافت دیکربھیج دیا ہے تو ایک جانور اونٹ حضورﷺ سے شکایت کرتا ہے کہ آقاﷺ میرا مالک مجھ پر بوجھ زیادہ ڈالتا ہے چارہ کم دیتا ہے انصاف فرمائیے مالک کو طلب کر کے آقا کریمﷺ فرماتے ہیں اس اونٹ کی دوبارہ شکایت نہیں آنی چاہیے اس پر بوجھ مناسب اور اسے چارہ بہتر مناسب دو ۔دیکھئے ایک نوجوان آ جاتا ہے آقا ﷺ میرے باپ نے مجھ سب سے کچھ چھین لیا انصاف دلائیے باپ کو طلب کیا جاتا ہے آقا کریم ﷺ باپ سے پوچھتے ہیں ایسا کیوں کیا؟ باپ عرض کرتا ہے یارسول اﷲﷺ اس اپنے بیٹے کو میں نے تعلیم دلوائی اس کی ہر جائزضرورت، اس کی شادی کروائی شادی کے بعد یہ بدل گیا یہ پھل ،میوے لاتا مجھے دکھا دکھا کہ بیوی کے ہمراہ کھاتا میں نے برداشت کیا آج میں نے سلام کیا اس نے جواب نہ دیا تو میں انتہائی اقدام کرنے پر مجبور ہو گیامیرے آقا نے جب یہ الفاظ سنے تو آپﷺ کا چہرہ مبارکہ غصے سے سرخ ہو گیا حضورﷺ نے اس نوجوان کا گریبان پکڑ کر فرمایا جوتو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔ ادھر دیکھئے ایک ہرن حضورﷺ سے عرض کرتی ہے آقا شکاری نے پکڑ لیا ہے بچوں کو دودھ پلانا ہے اس شکاری سے اجازت لے کر دیں دودھ پلا کر واپس آ جاؤں گی حضور کریمﷺ نے شکاری سے کہا میں محمدﷺ اس کی ضمانت دیتا ہوں کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آ جائے گی اسے چھوڑ دو شکاری نے کہا یہ جانور کیسے واپس آئے گا ؟حضورﷺ نے فرمایا آئے گا میں ضمانت دیتا ہوں شکاری ہرن کو چھوڑ دیتا ہے تھوڑی دیر کے بعد ہرن واپس آ کر نبی اکرمﷺ کی قدم بوسی کرتی ہے شکاری حیران ہو گیا حضورﷺ نے فرمایا حیران نہ ہو میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں سمیت ہر مخلوق کا نبی و رسول ہوں تو وہ یہودی شکاری شرمندہ ہو کر عرض کرنے لگا اے آقاﷺ جنگل کے جانور تو آپﷺ کو نبی و رسول مانتے ہیں مگر ہم بد بخت نہیں ۔جلدی کریں مجھے کلمہ پڑھا کر اپنے دین میں شامل کر لیں یہ دیکھو ! ایک کافر میرے حضورﷺ سے کہتا ہے اے (حضرت) محمدﷺ اگر یہ" گوہــ"(جانور کا نام ہے)آپ ﷺ کی رسالتﷺ کی گواہی دے تو میں کلمہ پڑھ لوں گا حضورﷺ نے گوہ سے کہا بتاؤ میں کون ہوں تو اس جانور نے آپﷺ کی نبوت و رسالت کی گواہی دی۔ آیئے جنگل کے درختوں کا عالم حضرت علی ؓسے سن لیتے ہیں کہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں ایک دن حضور اکرمﷺ اور میں جنگل میں جا رہے ہیں جنگل کے درختوں نے جب حضورﷺ کو دیکھا تو جھک کر آپﷺ پر درود و سلام پڑھنا شروع کر دیا یہ تو جانداروں کی حالت ہے بے جان پتھروں سے نبیﷺ کی رحمت کے بارے میں پوچھتے ہیں اے پتھرو بتاؤ محمدﷺ کون ہیں؟ یہ ابوجہل آ گیا مٹھی میں پتھر لئے ابوجہل کہتا ہے کہ اے حضرت محمدﷺ اگر یہ بتاؤ دو کہ میری مٹھی میں کیا ہے ؟ تو میں کلمہ پڑھ لوں گا حضورﷺ نے پتھروں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا بتاؤ میں کون ہوں تو پتھروں نے نبی و رحمت کی گواہی دی کہ آپ ﷺاﷲ کے نبی ورسول ہیں اور آپ کا مشن پروگرام سچا اور لاریب ہے اس کھجور کی ٹہنی سے پوچھو نبیﷺ کی رحمت کا کیا عالم ہے جو وصال پیغمبر ﷺکے بعد اس قدر روئی کہ مسجد نبوی میں صحابہ کرامؓ نے اس کی بلند رونے کی آواز سنی اس وقت تک روتی رہی جب تک پیغمبر دو جہاں کے ساتھ والی جگہ میں دفن نہیں ہوئی اس گدھے سے پوچھو جو نبیﷺ رحمت کو نہ پا کہ اس غم میں مر گیا ۔

اے میرے نبیﷺ کا کلمہ پڑھنے والو! میرے نبیﷺ کی رحمت کا احاطہ آج تک کوئی نہیں کر سکا میرے نبی کریمﷺ کی رحمت کی وسعتیں لا محدود ہیں یہاں تو چند جھلکیاں ہی پیش خدمت ہیں غم زدہ لوگوں کے غموں کا مداوا،حق کا بول بالا کرنے اور اﷲ و رسولﷺ کے دشمنوں پر غلبہ دینے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آقا کریمﷺ کو جہاد جیسی نعمت سے نوازا کہ جو انسانوں پر ظلم کرنے ،احکامات خداوندی کے نفاذ میں رکاوٹ مخالف ہے اسے جہاد کی طاقت سے سیدھا کرو یا موت کی نیند سلا دیا جائے یا وہ میرے نظام رحمت کو قبول کرئے تو نبی آخرالزمانﷺ نے تقریبا100 غزوات وسرایالڑ اورلڑوا کر اﷲ کے باغیوں سے زمین کو پاک کیا غزوات ،سرایا اور اہم واقعات کی مختصر تفصیل پیش کی جارہی ہے 1ہجری رمضان میں سریہ سیف البحر،شوال1ہجری میں سریہ رابع ،ذی قعدہ 1ہجری سریہ خرار،صفر 2ہجری غزوہ ابوا یا ودان ،ربیع الاول 2ہجری غزوہ بواط،غزوہ سفوان ربیع الاول 2 ہجری،غزوہ ذی العشیرہ جمادی الاولیٰ وجمادی الآخر 2ہجری،سریہ نخلہ رجب 2ہجری ،غزوہ بدر الکبریٰ 2ہجری رمضان ،2ہجری کو رمضان کے روزے اور صدقہ فطر فرض ہوا،غزوہ بنی سلیم بہمقام کدر ،غزوہ بنو قینقاع،غزوہ سویق،غزوہ ذی امر ،3ہجری کو گستاخ رسول کعب بن اشرف کو قتل کیا گیا،غزوہ بحران ربیع الآخر 3 ہجری،سریہ زید ؓبن حارثہ 3ہجری جمادی الآخر ،غزوہ احد 7شوال3ہجری،،غزوہ احمراء الاسد،عبداﷲ بن انیس ؓ کی مہم محرم 4ہجری،غزوہ بنی نضیر،غزوہ نجد،غزوہ بدر دوئم، غزوہ دومتہ الجندل،غزوہ احزب (جنگ خندق) 5ہجری،غزوہ بنو قریظہ،اسلام دشمن سلام بن ابی الحقیق کا قتل بھی5ہجری میں کیا گیا ،سریہ محمد بن سلمہ ؓ ،غزوہ بنو لحیان،غزوہ بنی المصطلق یا غزوہ مریسیع 5یا6ہجری،سریہ غمر ربیع الآخر 6 ہجری اس سال مزید سریے لڑے گئے جن میں سریہ ذوالقصہ ،سریہ جمود،سریہ عصیں،سریہ طرف یا طرق ،سریہ وادی القریٰ، سریہ دیار بن کلب شعبان 6 ہجری،سریہ دیار بنی سعد شعبان6ہجری،سریہ وادی القری رمضان 6ہجری،سریہ عرنین شوال 6ہجری،صلح حدیبیہ ذی القعدہ 6ہجری ہیں اس وقت کے بادشاہوں نجاشی شاہ حبش،مقوقس شاہ مصر،شاہ فارس خسرو پرویز ،قیصر شاہ روم،منذر بن ساوی حاکم بحرین،ہودہ بن سلی صاحب شاہ یمامہ،حارث بن ابی شمر غسانی حاکم دمشق،جیفرہجری ۸ہ عمان اور اس کے بھائی عبد کے نام دعوت اسلام پر مبنی خطوط لکھ کر بھی دعوت اسلام(امن و سلامتی )پیش کی اس کے بعد سریہ خبط رجب 8ہجری،واقعہ افک غزوہ بنی المصطلق کے بعد پیش آیا،، سریہ یمن و جبار شوال 7ہجری،مریہ غابہ 7ہجری، سریہ ابو العوجا ذی الحجہ7 ہجری،سریہ غالب بن عبداﷲ صفر 8 ہجری،سریہ ذات اطلع ربیع الاول 8 ہجری،سریہ ذات عرق ربیع الاول 8 ہجری،جنگ موتہ 8 ہجری جمادی الاولیٰ،سریہ ذات السلاسل ،سریہ خضر شعبان8 ہجری کو ہوا۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کو 8 ہجری 10رمضان اس شہر (مکہ)میں فاتح اور غالب بنا کر بھیجا نبی اکرمﷺ نے عام معافی کا اعلان کر کے دنیا کو پیغام رحمت دیاغزوہ حنین شوال8 ہجری،غزوہ طائف ،سریہ عیینہ بن حص فرازی9ہجری،سریہ قطبہ بن عامر 9 ہجری،سریہ علی ؓ بن ابی طالب ربیع الاول9 ہجری،غزوہ تبوک 9،اسی سال آپ ﷺ کی صاحبزادی ام کلثوم ؓ اورشاہ حبشہ کی وفات ہوئی ،رئیس المنافقین عبداﷲ ابن ابی کا انتقال بھی اسی سال ہوا،اسی سال حکم پیغمبر ﷺ سیدنا صدیق اکبر ؓ کی زیر امارت حج ادا ہوا ،لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے حجتہ الوداع ذی الحجہ 10کو حضور ﷺ نے خودبنفس نفیس اپنی امارت میں حج ادا کروایا اپنے تاریخی خطبہ حجتہ الوداع میں آپ ﷺ نے حقوق اﷲ ،نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ ،صدقات ،سچ بولنے کا حکم دیازنا سے بچنے ،سود،حرام کاری،ناجائز منافع،اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے نسلی بنیادوں پر قتل و غارت ،عورتوں پر ظلم کرنے سے منع فرمایا اور عورتوں پر شفقت کرنے کا خاص حکم فرمایا یہ خطبہ قیامت تک انسانیت کامنشور ہے اس اجتماع میں ایک لاکھ چوبیس ہزارانسا نوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا آپ ﷺنے ان سے حکم فرمایا جو حاضر نہیں ان تک یہ پیغام پہنچا دو صفر 11 ہجری کو حضرت اسامہ بن زید ؓ کی قیادت میں آنحضرت ﷺ نے رومن امپائر کا غرور خاک میں ملانے کے لئے لشکر اسامہ روانہ فرمایا جسے رحلت پیغمبر ﷺ کے باعث واپس بلوالیا گیا بعد میں خلیفتہ الرسول ،خلیفہ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق ؓنے بغیر تاخیر کے اس لشکر کو روانہ کر دیا، پھر 29صفر 11؁ہجری کو درد سر شروع ہوا اور بخار بھی ہو گیا 11دن اس حالت میں نماز پڑھائی انصار سے درگذر کرنے کا حکم دیا اور انہیں اپنا قلب و جگر قرار دیا پھر ابوبکر صدیقؓ کی رفاقت اور مال ،جانثاری کی وجہ سے انہیں اپنا خلیل قرار دیا پھر جب مرض شدت اختیار کر گیا تو حضورﷺ نے فرمایا ابوبکر ؓ سے کہو لوگوں کو نماز پڑھائے حضرت عائشہ ؓنے کسی اور کو امامت کرانے کا حکم صادر کرنے کی درخواست کی تو فرمایا اﷲ (ابوبکر ؓ کے سوا کسی کو پسندہی نہیں فرما رہے) ابوبکر ہی نماز پڑھائیں گے ابوبکر صدیقؓ نے نبی اکرمﷺکی حیات مبارکہ میں سترہ نمازیں پڑھائیں آخری دن دو شبنہ12ربیع الاول 11ہجری (متفق علیہ ) کو آپﷺ نے دن چڑھے چاشت کے وقت حضرت فاطمہؓ کو بلوایا اور اپنے اس دنیا سے کوچ کرنے اور اپنے اہل و عیال میں سب سے پہلے ملنے کے بارے میں فرمایا حسنین کریمینؓ کو چوما اور ان کے بارے میں خیر کی وصیت کی ۔ازواج مطہرات ؓکو وعظ و نصیحت کی صحابہ کرامؓ سے نماز،نماز اور زیر دست(غلام ،لونڈیوں)کے بارے میں شفقت کرنے کی وصیت فرمائی تو نزاع کا وقت شروع ہو گیا حضرت عائشہ ؓ نے آپﷺ کی اپنے اوپر ٹیک لگوا دی ان کا بیان ہے کہ اﷲ کی ایک نعمت مجھ پر یہ ہے کہ رسول اﷲﷺ میرے گھر میں میری باری کے دن میرے سینے سے ٹیک لگاتے ہوئے رفیق اعلیٰ سے جا ملے آخری وقت حضرت عائشہ ؓ کی چبائی ہوئی مسواک سے دانت مبارک صاف کئے حضور ﷺ نے آخری جملے تھے کہ اے اﷲ مجھے بخش دے مجھ پر رحم کر اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچا دے اس کے بعد حضورﷺ نے دنیا کوخیر باد کہہ دیا سفر رفیق اعلیٰ کا یقین کسی صحابی ؓ کو نہیں آ رہا تھا حضرت فاطمہؓ نے فرط غم سے فرمایا ہائے ابا جان !جنہوں نے پروردگار کی پکار لبیک کہا ہائے ابا جان! جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے ہائے ابا جان! ہم جبرائیل کو آپﷺ کی موت کی خبر دیتے ہیں حضر ت عمرؓ نے کہا کہ جس طرح موسی ؑاﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرنے گئے تھے میرے آقاﷺ بھی اﷲ سے ملاقات کرنے گئے ہیں ابھی بیدار ہو جائیں گے صحابہ ؓکرام کے غمہائے بیکراں کے اس مقام نازک پر مزاج شناس نبوت،یارغارومزار سیدنا صدیق اکبرؓ نے لوگوں سے نبی رحمت کے سفر رفیق اعلیٰ کے بارے میں یوں فرمایا کہ تم میں سے جو شخص محمد ﷺ کی پوجا کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمدﷺ کی موت واقع ہو چکی ہے(روضہ میں رسول اﷲ ﷺ آج بھی دنیاسے اعلیٰ زندگی کے ساتھ زندہ ہیں جسے عقیدہ حیات النبی ﷺ کہتے ہیں یہ اہلسنت کا متفقہ عقیدہ ہے) اور تم میں سے جو شخص اﷲ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اﷲ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے کبھی نہیں مرے گا اس خطاب کے بعد صحابہ کرامؓ کو یقین ہو گیاکہ واقعی حضورﷺ رحلت فرما چکے ہیں ۔آپ ﷺ کے کپڑے اتارے بغیر حضرت عباس ؓ ان کے صاحبزادے فضلؓ،قثمؓ،حضرت سیدنا علیؓ ،رسول اﷲ ﷺ کے آزاد کردہ غلام شقرانؓ ، حضرت اسامہ بن زید ؓ ،اوس بن خولیؓ نے غسل دیاآپ ﷺ کے کفن میں 3 سفید یمنی چادریں استعمال کی گئیں جہاں آپ ﷺ کی رحلت ہوئی وہیں دفن کیا گیا اس کے بعد صحابہ کرام ؓ نے مختصر ترین افراد (تقریبا دس دس ) کی جماعتیں بنا کر حجرہ مبارک میں ہی نمازہ جنازہ ادا کی ،کوئی امام نہیں تھا ،سب سے پہلے آپ ﷺ کے خانوادہ بنو ہاشم نے نمازہ جنازہ ادا کی پھر مہاجرین،انصار نے منگل کا دن نماز جنازہ پڑھنے میں گذر گیا۔
زواج مطہرات رسول ﷺ
۱۔ حضرت خدیجتہ الکبریٰ بنت خویلد ۲۔ حضرت سودہؓ بنت زمعہ ۳۔ حضرت عائشہ بنت ابی بکر صدیق ؓ ۴۔حضرت حفصہ بنت عمربن الخطاب ؓ ۵۔حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ ۶۔ام سلمہ ہند بنت امیہؓ ۷۔زینب بنت حجش بن ریابؓ ۸۔جویریہ بنت حارث ؓ ۹۔ ام حبیبہ بنت ابو سفیان ؓ ۱۰۔حضرت صفیہ بنتحیی اخطب ؓ ۱۱۔ حضرت میمونہ بنت حارث ؓ (لونڈیاں) ۱۔ ماریہ قبطیہ ؓ ۲۔ ریحانہؓ بنت زید
﴿پیغمبر ﷺ کی صاحبزادیاں ﴾۱۔ حضرت زینب ؓ زوجہ حضرت ابوالعاص ؓ ۲۔حضرت رقیہ ؓ زوجہ حضرت سیدنا عثمان غنی ذوالنورین ؓ ۳۔حضرت ام کلثوم ؓ زوجہ حضرت سیدنا عثمان غنی ذوالنورین ؓ ۴۔ حضرت سیدہ فاظتہ الزہرہ ؓ زوجہ شیر خدا سیدنا علی المرتضیٰ ؓ
﴿صاحبزادگان پیغمبرﷺ ﴾ ۱۔ حضرت سیدنا طاہرؓ ،۲۔ حضرت سیدنا طیب ؓ ( اکثرکے نزدیک دونوں نام ایک ہی صاحبزادے کے ہیں ) ۳۔حضرت ابراہیم ؓ

متفقہ طور پر نبی رحمت ﷺکے نظام خلافت کا سلسلہ قائم و دائم رکھنے کے لئے صحابہ کرامؓ نے3دن اور دن راتیں لگا کر خلیفتہ الرسول ،خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کوامیرالمومنین خلیفہ المسلمین مقرر کیا گیا ابوبکرؓ ،عمرؓ،عثمان غنیؓ ،علی ؓکے عہد حکومت کو عہد خلافت راشدہؓ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے عہد خلافت راشدہؓ،عہد نبوت کی تشریح ہے اس کے بعد یہ نظام رحمت سیدنا حسن،سیدنا امیر معاویہؓ (یزید کا عہد اس میں شامل نہیں ہے) سے لیکر 1924تک قائم رہا میرے مدنی کریمﷺ کا نظام رحمت اس دنیا پر رحمت برکتیں لٹا تا رہا انسانیت کو انسانیت کی اقدار سے حقیقی طور پر روشناس کرواتا ہے کہ بعد اسلام دشمن قوتوں یہودو نصاریٰ نے امت مسلمہ کی مرکزیت و خلافت کو توڑ کران کو ممالک ،مسالک ،فرقہ در فرقہ میں تقسیم کر کے رحمت اللعالمین ﷺکے نظام رحمت (خلافت) سے کوسوں دور کر دیا آج ہمارے حکمران اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک پاکستان میں اﷲ و رسول ﷺکا نظام قائم کرنے کی بجائے غیروں کے چراغوں سے روشنی حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں جسکی وجہ سے حالت امت ذلت آمیز حد تک آن پہنچی ہے قرآن ونبی اکرمﷺ کا فیصلہ ہے کہ یہودونصاریٰ تم سے اسوقت تک خوش نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے دین، نظام میں شامل نہ ہو جاؤ گئے آج مسلمان یہودوہنودکے نظام جہالت جمہوریت کو چھوڑکر اﷲ و رسولﷺ کے نظام کو اس لئے قائم کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ ان کے صرف د نیاوی مفادات اس سے وابستہ ہیں جب کہ اﷲ و رسولﷺ کا نظام قائم کرنے سے دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے سیرت النبی ﷺ کاپیغام دے رہی ہے کہ اے حکمرانو! اورسب مسلمانو!اﷲ کا نظام خلافت زمین پر قائم کر دو اسی نے دنیا کو امن عطاء کرناہے ٭٭
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.