ولادت مصطفیﷺ کی عظمت اور شرک و بدعت

ربیع الاول شریف کی بارہ تاریخ عمومی طور پر جملہ نوع انسانی کیلئے اور خصوصا مسلمانوں کیلئے انتہائی اہمیت کا دن ہے۔ یہی وہ دن ہے جس کی بابرکت ساعتوں میں اس عظیم المرتبت ہستی کا ظہور قدسی ہوا جو پنجہ ظلم و استبداد میں جکڑی ہوئی انسانیت کیلئے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ بن کر تشریف لائے۔ کسی سیرت یا تاریخ کی کتاب میں صرف اتنا لکھ دینے سے ولادت مصطفوی ﷺ کی عظمتوں کا حق ادا نہیں ہوتا کہ’’ آپ ﷺربیع الاول شریف کی بارہ تاریخ کو سوموار کے دن اک سہانی صبح کو مکہ مکرمہ کے شہر میں پیدا ہوئے‘‘ ۔ اس لئے کہ یہ اوصاف آپ کا ہی خاصہ نہیں بلکہ مکہ کے شہر میں ربیع الاول شریف کی بارہ تاریخ کو اسی وقت اور دن میں کسی کی ولادت کا ہونا عین ممکن ہے۔ ولادت مصطفوی کا حق ادا نہیں ہوتا جب تک کہ ان مستند احوال و واقعات اور تجلیات و انوارات کا ذکر نہ کیا جائے جو عین بوقت ولادت وقوع پزیر ہوئے۔ نوع انسانی کی معزز ترین خواتین حضرت حوا، حضرت آسیہ،حضرت ھاجرہ اور حضرت مریم علیھن السلام مبارک باد دینے کیلئے حضرت سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے پاس حاضر ہوئیں۔ آتش فارس جو ہزارہاسالوں سے جل رہی تھی اور لوگ اس کی پوجا کر رہے تھے آپﷺ کی ولادت کی برکت سے بجھ گئی۔ زلزلہ آیا اورکسری کے محل کے چودہ کنگرے گر گئے۔ آپ کی ولادت با سعادت کے وقت ایسا نور نمودار ہوا جس کی روشنی میں حضرت سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا شام کے محلات تک دیکھ رہی تھیں۔آپ ﷺ کی تشریف آوری سے ہی کائنات کی ظلمت و طغیان کافور ہوئے اور انسانیت کو نورانیت کی منزل ملی۔ انسان مقصد تخلیق سے آگاہ ہوا اور اس نے خرافات، بدعات اور شرک سے چھٹکارہ پایا۔ نوع انسانی کو ایسی معرفت ربانی نصیب ہوئی کہ اسے در در کی ٹھوکروں سے نجات پا کر بارگاہ رب العالمین میں سر بسجود ہونے کا سلیقہ آگیا۔ اس کی منظر کشی اور ترجمانی’’ ترانہ پاکستان‘‘ کے خالق جناب حفیظ جالندھری مرحوم نے کیا خوب کی ہے۔
بہر سو نغمہ صل علی ، گونجا فضاؤں میں خوشی نے زندگی کی روح دوڑا دی ہواؤں میں
فرشتوں کی سلامی دینے والی فوج گاتی تھی جناب آمنہ سنتی تھیں اور یہ آواز آتی تھی
سلام اے آمنہ کے لال، اے محبوب سبحانی سلام اے فخر موجودات، فخر نوع انسانی
تیرے آنے سے رونق آگئی گلزار ہستی میں شریک حال قسمت ہو گیا پھر فضل ربانی

ولادت مصطفیﷺ ہی وہ حد فاصل ہے جو شرک و توحید کے مابین امتیاز پیدا کرتی ہے۔ اگر قرآن پاک کی رو سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ولادت رسول ﷺ کے تذکرے کرنے سے شرک کی جڑیں کٹ جاتی ہیں چہ جائیکہ کہ اسے شرک سے تعبیر کیا جائے۔ قرآن کی مشہور ترین سورہ مبارکہ ’’سورہ اخلاص‘‘ ہے۔ اﷲ تعالی نے اس میں اپنی توحید اور چند صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ ان اوصاف حمیدہ میں سے ایک یہ ہے کہ ’’ لم یلد و لم یو لد‘‘۔ ان دونوں الفاظ کا مادہ اشتقاق ’’ میلاد‘‘ ہے جو عربی لغت کے لحاظ سے مصدر میمی ہے۔ اس کا معنی یہ بنتا ہے کہ اﷲ تعالی کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا۔ گویا کہ اﷲ کا میلاد ہے ہی نہیں۔ ولادت مصطفیﷺ کا جشن اور پرچار شرک کی جڑیں کاٹ دیتا ہے ۔ جبکہ اس کا انکار امم سابقہ کی طرح انسانوں کو شرک کے قریب تر کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر جشن ولادت اور جلسہ میلاد و سیرت بامقصد اور موثر ہونا چاہیے۔ امت مسلمہ کا ہر فرد اس دن کو یوم احتساب سمجھ کر منائے۔ اس دن کی عظمت و اہمیت کا احساس کرتے ہوئے ماضی کا جائزہ لے اور آئندہ کا عمدہ لائحہ عمل تیار کرے۔ اظہار عشق و محبت کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی سماجی، معاشی، سیاسی اور عائلی زندگی کے گوشوں کو اجاگر کیا جائے۔ آپﷺ کے نقوش پا کو اپناتے ہوئے خود بھی بامقصد زندگی گزاریں اور دوسروں کو بھی تلقین و تبلیغ کریں۔ سرکار دوعالم کی رحم دلی، احترام انسانیت، دیانت و امانت اور حق و صداقت کے ایسے دروس کی ضرورت ہے جو راہ راست سے بھٹکے ہوئے معاشروں کی اصلاح کیلئے سچا جذبہ بیدار کر سکیں۔ کوئی شک نہیں کہ جلسہ و جلوس اظہارمحبت کا ذریعہ اور شوکت اسلام کا اظہار ہیں۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح یہ بھی اسلام کی کلچرل پروموشن اور حالات حاضرہ سے ہم آہنگ جشن مسرت کا طریقہ ہے۔ لیکن محض جلسہ و جلوس بعثت مصطفویﷺ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے جب تک کہ اپنے آپ کو اپنے پیارے رسولﷺ کی سنتوں کے سانچے ڈھالنے کا عزم مصمم نہ کر لیا جائے۔ جشن ولادت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ دل، زبان اور افعال میں یکسانیت ہو۔ ریاکاری اور نمود و نمائش سے کنارہ کشی کر کے ﷲیت اور خلوص کا رستہ اختیار کریں۔ ہماری صورت و سیرت تہذیب اسلامی کی آئینہ دار ہو۔ اپنے نبی کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کریں کہ ہمارے ہاتھ ، زبان اوردیگر اعضاء سے کسی کو تکلیف اور اذیت نہ پہنچے۔ آج امت مسلمہ گونا گوں مسائل کے انبارتلے دبی ہوئی ہے۔ ذلت و رسوائی مقدر بن چکا ہے اور عزت نفس داؤ پر لگ چکی ہے۔ اپنوں کی حماقتوں اور کہیں غیروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے زمین کا چپہ چپہ خون مسلم سے رنگین دکھائی دیتا ہے۔ ولادت پاک کے اس با برکت موقع پر آپ ﷺ کی مکی و مدنی زندگی کے ہمہ جہت پہلووں کو مد نظر رکھ لیاجائے تو آج بھی ہمارے ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 241240 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More