سیاسی ٹوپی
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
قارئین کرام! سلیمانی ٹوپی کے بارے میں تو
آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ جو شخص اس کو سر پر پہن لے وہ نظروں سے اوجھل
ہوجاتا ہے وہ تمام اچھے برے کام دھڑلے سے کرتا ہے کوئی اس کو پکڑنے والا
روکنے والا ٹوکنے والا نہیں ہوتا بلکہ اس سے ڈر اور خوف محسوس ہوتا ہے
کیونکہ وہ کسی کو نظر نہیں آرہا ہوتا اور نادیدہ چیزوں سے انسان ویسے بھی
خوف کھاتا ہے۔اور پھر ذکر کرونگا عمرو عیار کی زنبیل کا جس میں ملک کے ملک
غائب ہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ڈکار ندارد،اب بات ہوگی ایک اور ٹوپی کی جی
ہاں ا س کانام ہے ’’سیاسی ٹوپی‘‘جو شخص بھی اس کو پہن لیتا ہے اسکے تمام
گناہ ، کرپشن، لوٹ کھسوٹ کے معاملات، قتل و غارت میں ملوث، حتی کہ دہشت
گردی جیسے سنگین الزمات بھی غائب ہوجاتے ہیں ان تمام الزمات سے بری الذمہ
قرار پاجاتا ہے یہ سیاسی ٹوپی اب تک کئی مرد و خواتین کو پہنائی جاچکی ہے
ان میں سے کچھ تو خود اسے پہننے کی ’’صلاحیت و اہلیت‘‘ رکھتے ہیں اور جبکہ
کچھ کو پہنا دی جاتی ہے-
ماضی قریب میں دیکھا جائے تو سب سے پہلے اسے نواز شریف کو پہنایا گیا جس کی
ذمہ داری مرحومہ بے نظیر بھٹو پر ہے اس کے بعد بعض ججزکو بھی اس سے مستفید
ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ الطاف حسین جس پر نجانے کتنے اور کونسے الزمات ہیں
قاتل ،غدار وطن، دہشت گرد، کرپٹ، قبضہ مافیا و دیگر الزمات اس ٹوپی کی
بدولت غائب ہیں بڑے دھڑلے سے ملک سے باہر بیٹھ کر ملک اور افواج پاکستان کے
خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے لیکن کچھ نہیں ہوتا کیونکہ ٹوپی سر پر ہے۔ مولانا
فضل الرحمن نے اکثر اس ٹوپی کو پہن کر مفاد پرستی، خود غرضی، بدعنوانی،
پارٹیوں کی تبدیلی،مفاہمتی پالیسی جیسے الزمات سے مستثنی پاچکے ہیں سابق
صدر آصف علی زرداری جسے دنیا کرپشن کنگ کے نام سے جانتی و پہچانتی ہے اس کے
پاس بھی یہ سیاسی ٹوپی ہی تھی جس کی بنا پرآج تک کوئی بھی الزام ثابت نہ
ہوسکا نظر نہ آسکا۔ ایان علی ریڈ ہینڈڈ پکڑی جاتی ہے منی لانڈرنگ ثابت
ہوجاتی ہے گرفتاری عمل میں آجاتی ہے جیل میں بھیج دیا جاتا ہے بڑے بڑے کرتا
دھرتاؤں کے نام سامنے آنے لگتے ہیں چہ میگوئیاں ہونے لگتی ہیں تو پھر اس
ٹوپی کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے عدالتوں میں کیس چلتے ہیں معاملہ لنگر
آن کردیا جاتا ہے ۔اس کے سر پربھی یہ ٹوپی پھنسانے کی مجبوری آڑے آتی ہے
اور پھر یوں ہوتا ہے کہ وہ یونیورسٹی میں لیکچر دے رہی ہوتی ہے۔رانا ثناء
اﷲ پر متعدد کیس بنتے ہیں قتل معاونت قتل و دیگرکے الزمات ببانگ دہل لگائے
جاتے ہیں لیکن چونکہ سیاسی ٹوپی کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے تمام الزمات و
حقائق گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔رانا مشہود، یوسف
رضاگیلانی، مرحوم مخدوم امین فہیم ،راجہ پرویز اشرف، خواجہ سعد رفیق ،
حدیبیہ ملز، رینٹل پاور، نندی پور پروجیکٹ و دیگر ان سب پر سیاسی ٹوپیاں
پہن کر ایک دوسرے کو پہنا کر دودھ میں دھلے پھر رہے ہیں ان کے کردار کرتوت
اور الزمات اور ان میں حقائق کسی کو نظر نہ نہیں آتے-
یہ تو بات تھی اعلی سطح کی۔ اب ایک ایم این اے ، ایم پی اے، ان کا پی اے،اس
کے کارندے اور گرکے جو بھی غلط کام کرتے ہیں یا کرواتے ہیں کروڑوں کے غبن،
کمیشن، کرپشن کے جو الزامات بھی ان پر لگتے اور ثابت ہوتے ہیں وہ بھی
مذکورہ بالا سیاسی ٹوپی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ملازمتوں میں کوٹہ جس کا کوئی
جواز ہے نہ آئین و قانون میں گنجائش، فنڈز کی تقسیم اور پھر ٹھیکوں میں حصہ
جب تک نہ ملے کام اوکے نہیں ہوتا۔ کوئی قتل کردے کسی کا رشتہ دار قتل کردے
اغوا کرلے زنا کردے سب معاف، کیوں؟ کیونکہ سب کے سب عوام دشمن ملک دشمن ہیں
اور سیاسی ٹوپی کی آشیرباد کی چھاؤں میں ہیں۔ میں حقیقت بیان کررہا ہوں ان
میں سے اکثر کے ساتھ لگا ایم پی اے، ایم این اے اور ان کی رشتہ داری اور
عزیزداری کا دم چھلاہٹالیا جائے تو یقین کیجئے کہ لوگ ان کی طرف دیکھنا
پسند نہ کریں لیکن مجبور و بے بس ہیں تھانہ کلچر کا دور دورہ ہے وہ تھانہ
کلچر جسے شہباز شریف کئی عشروں سے تبدیل کرنے کا طبل بجارہے ہیں اور یہ ہو
نہیں سکتا کیونکہ وہ چاہتے ہی نہیں ورنہ تو مسئلہ کوئی نہیں اگر کوئی ڈی پی
او ، ڈی ایس پی ، ایس ایچ او کسی منتخب نمائندے یا ان کے کارندوں کو گھاس
نہ ڈالے تو دیکھیں کس طرح شکایت پر ڈی پی او سے لیکر ایک کانسٹیبل تک منٹوں
میں تبدیل کردیا جاتا ہے تو پھر تھانہ کلچر میں تبدیلی میں کیا امر مانع ہے
یہ بات آپ یقینا سمجھ گئے ہوں گے تھانہ کلچر میں تبدیلی ان سب کی سیاسی موت
کا پروانہ ہے ایک ایماندارپولیس آفیسر ان کی نیندیں حرام کردیتا ہے بس اسی
وجہ سے سیاسی ٹوپی کا سہارا لیا جاتا ہے رینجرز کے معاملے میں بھی ڈرامے
بازی جاری ہے ایک صوبہ اختیارات کی توسیع کے خلاف ہے تو وفاق کے ترجمان اس
طرح پوز کرررہے ہیں کہ وہ توسیع کے حامی ہیں حالانکہ دلی طور پر کوئی بھی
اس کے حق میں نہیں صرف پاک افواج کو الجھانے کی گیم ہے جب تکرار بڑھے گی تو
معاملہ پارلیمنٹ میں جائیگا اور پھر سیاسی ٹوپی کی نذر ہوجائیگا۔لہذا جنرل
راحیل شریف کو چاہئے کہ اس سیاسی ٹوپی پر فوجی ٹوپی چڑھادی جائے تاکہ ان
دودھ کے دھلوں کی سیاسی نظر آسکے- |
|