کیا پختون قوم لا وارث ہو گئی ہے ؟
(Roshan Khattak, Peshawar)
ایک زمانہ تھا جب پختون قوم کو مارشل
قوم تصوّر کیا جاتا تھا۔انگریز ،جس کا جھنڈا پوری دنیا پر لہرا یا جاتاتھا،
پختونوں کو نا قابلِ تسخیر قوم سمجھتے تھے۔پختون حکمران بھی بہترین منتظم،
نا قابلِ شکست سپہ سالار اور اور عوام دوست ہوا کرتے تھے۔ شیر شاہ سوری
جیسے پختون حکمران کی انسان دوست نشانیان آج بھی برِ صغیر میں نمایاں طور
پر مو جود ہیں۔ مگر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔وقت کے ساتھ ساتھ پختون قیادت
اوہ پختون قوم میں تبدیلیاں آتی رہیں۔خان عبد الغفار خان جب تک تا حیات رہے،
پختونوں کی رہنمائی کرتے رہے مگر ان کی وفات کے بعد پختون قیادت آہستہ
آہستہ ذاتی مفادات کے زیرِ اثر ہو تی رہی اور آج حالت یہ ہے کہ پاک چین
راہداری ِ’جو پختونوں کے موت و زندگی کا سوال ہے ‘‘ کے بارے میں جب اسفند
یار ولی کو نواز شریف بلاتے ہیں تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ نواز شریف کے ساتھ
مشرقی روٹ پر متفق ہو جاتے ہیں ۔جب عوامی نیشنل پارٹی کو خیبر پختونخوا مین
زمامِ اقتدار دیا جاتا ہے تو انہی کے عہدِ اقتدار میں سب سے زیادہ پختونوں
کا خون بہایا جا تا ہے ۔مجھے عوامی نیشنل پارٹی سے کو ئی بغض، کو ئی بیر
نہیں مگر میں سمجھتا ہو ں کہ پختونوں کی ایک نمائیندہ جماعت ہو نے کے ناطے
ان کی کا رکردگی غیر تسلی بخش ہے۔
پختون عوام کو تعلیم سے ہمیشہ دور رکھا گیااور انہین یہ بین بجا کر لڑایا
جاتا رہا کہ اس جیسی غیرت مند اور دنیا میں کو ئی نہیں ،نتیجتا انہوں نے
مرنا یا مارنا اپنی غیرت کا تقاضا سمجھا۔غربت ان کے گلے میں باندھ دی
گئی۔بے شمار لوگوں نے دو وقت کی روٹی کے خاطر اپنے بچوں کو دینی مدرسوں میں
ڈالا ،صرف اس لئے ڈالا کہ وہاں دو وقت کی روٹی تو مل جاتی ہے۔آج ان بچوں کی
ایک کثیر تعداد طالبان کی صفوں میں شامل ہے۔ان کے ہاتھ میں قلم کے بجائے
بندوق دے دی گئی۔انہون نے اپنی طاقت اپنوں پر ہی آزمائی۔ فاٹا جو پختون قوم
کا گڑھ ہے، جہاں پختونوں کی ثقافت، غیرت اور پختونوالی ہمیشہ گلِ گلزار رہی
۔ان کے ساتھ وہ کچھ کیا گیا ۔جس کی تلافی ّئیندہ سو سال تک ممکن نہین ،انہیں
گھر بدر کر دیا گیا ۔حیا اور عزّت کے جنازے ان کے گھروں سے نکلے۔آج پختون
قوم اجتماعیت کی جگہ انفرادیت کا حامل ہے۔اور اپنی ہی نسل کشی میں ملوث
ہے،اغیار کے گود میں بیٹھ کر پرورش پا رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ایسا اس
لئے ہوا کہ پشون قوم
میں وہ قیادت پیدا نہ ہو سکی جس کی قوم کو ضرورت تھی ، جو اس بہادر اور
غربت ستائی عوام کے لئے مشعلِ راہ بنتا۔
بہر حال ماض میں جو ہوا، سوہوا․․․سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے سے کوئی
فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔اب بھی وقت ہے اگر پشتون قوم جاگ جائے ، خصوصا پشتون
قوم کے قیادت کے دعوے دار ذاتی مفادات کو چھوڑ کر قوم سے مخلص ہو جائیں ۔تو
پشتون قوم کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے پشتون قوم کی قیادت کے
لئے ایک اور آزمائش کا مو قعہ عنائت فر مایا ہے ۔اگر اس معاملہ میں وہ
سنجید گی دکھا کر ،ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر کامیابی حاصل کر لیں تو
پشتون قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔وہ آزمائش پاک چین راہداری منصوبہ ہے ،
نواز شریف ہر حال میں اسے پنجاب میں سے گزارنا چا ہتا ہے کیو نکہ وہ جانتا
ہے اور یہ ایک صریح حقیقت بھی ہے کہ اقتدار کا ہما پنجاب کے ہاتھ میں ہے،
نواز شریف نے ہی سب سے پہلے ’’ جاگ پنجابی جاگ ‘‘ کا نعرہ لگایا ہے جس کا
پھل وہ ابھی تک کھا رہا ہے۔ وہ پاک چین راہدارہ کا منصوبہ پنجاب میں سے
گزار کر اپنی اولاد کو بھی صرف پنجاب ہی نہیں، پورے پاکستان کے اقتدار کے
مزے لینے کی کو شش کر رہا ہے۔ با وجود اس کے ، کہ چین اس منصوبے کی راہداری
کو شارٹ ترین علاقے میں سے گزارنا چاہتا ہے جو کوہاٹ، کرک، لکی مروت، ڈیرہ
اسمعیل خان ، ژوب سے ہو تا ہوا گوادر تک پہنچتا ہے۔اس منصوبے میں پشتون قوم
کی ترقی کا راز پو شیدہ ہے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ پشتون قوم کی
موجودہ قیادت اس معاملہ میں اس سنجیدگی کا اظہار نہیں کر رہی ہے ،جو وقت کا
تقاضا ہے۔ اﷲ نہ کرے مگر خد شہ اس بات کا ہے کہ پشتون قوم کی جو تھوڑی بہت
قیادت صفحہ سیاست پر اس وقت مو جود ہے ، وہ کہیں بِک نہ جائے کیونکہ نواز
شریف سیاسی کھلاڑیوں کے خریدنے کا ایک طویل تجربہ رکھتا ہے ۔اگرا یسا ہوا ،
یعنی پاک چین راہداری کا ٹریک تبدیل کر کے پنجاب میں سے گزارا گیا اور
پختون قوم کو اس کے ثمرات سے محروم رکھا گیا تو ہم سمجھیں گے
کہ پختون قوم لا وارث ہو گئی ہے |
|