یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی

جامعہ کراچی کیسینٹر آف ایکسی لینس فارویمن اسٹڈیز کی ڈائریکٹر و چیئرپرسن سماجی بہبود پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے بتایا کہ پاکستان میں ہزار میں سے58بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ سماجی بہبود کے زیر اہتمام ’ بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے مسائل اور فیملی پلاننگ کا پاکستان میں رجحان‘ پر سمینار میں خطاب کے دوران کیا۔تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر منٹ کے دوران آٹھ بچے پیدا ہوتے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق ہزار میں سے58بچے ناقص طبی سہولیات کے باعث اموات کا شکار ہوجاتے ہیں اگر یہی شرح برقرار رہی تو 2050ء تک پاکستان کی آبادی 40کروڑ سے بھی زیادہ تجاوز کرسکتی ہے۔پاکستان میں امریکی قونصل خانے کراچی کی جانب سے مقیم امریکی شہریوں کی سہولت کیلئے طبی خدمات کے حوالے معلومات اور ہنگامی صورت میں ٹیلی فون نمبر، ہستالوں کے نام ، شہر ، ائیر بس ، ایمبولنس سروس کے رابطے نمبر بھی دیئے گئے ہیں لیکن دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے شہریوں کو یہ معلومات فراہم تو کیں ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ان افراد یا اداروں یا طبی سہولیات کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور ساکھ کے بارے میں امریکی قونصل خانہ ذمہ دار نہیں۔

ہمارے یہاں پاکستانی ہسپتالوں کی حالت زار انتہائی ناگفتہ ہے ، سرکاری ہسپتالوں کا حال قبرستان جیسا اور پرائیوٹ ہسپتالوں کا حال قصاب خانوں جیسا ہے۔ گذشتہ دنوں سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتالوں میں مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ عملے و انتظامیہ کی جانب سے رویوں کو بڑی تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا۔

یہ مانا جاتا ہے کہ دنیا میں ہسپتالوں میں جان بحق ہونے والے مریضوں کی بڑی تعداد کی بنیادی وجہ درست تشخص کا نہ ہونا ہے ۔ ڈاکٹرز درست تشخص کرنے میں اتنی تاخیر کردیتے ہیں کہ مریض کی حالت غیر ہوجاتی ہے اور اگر بچ جائے تو یہ ڈاکٹروں کی کاوش اور اگر مر جائے تو اﷲ کی رضا قرار دے دیا جاتا ہے۔میرے ایک انتہائی قریبی شناسا کو ایک سرکاری ہسپتال میں دوڑتے ہوئے ، بھاگتے حواس باختہ دیکھا ، انھیں آواز دی لیکن ان کے حواس و سماعت میری آواز سننے سے قاصر نظر آتے تھے ، صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کسی بڑی مصیبت میں ہیں ، میں بھی ان کے پیچھے لپکا ، وہ سرکاری ہسپتال سے منسلک ایک میڈیکل اسٹور سے کچھ ادویات لے رہے تھے ، میں نے علیک سیلک کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے ہونٹوں پر ہلکی شناسا و اندھی مسکراہٹ کب آئی اور کب گئی میں لمحہ بھر بھی نہیں دیکھ نہیں سکا ۔ابو عمر نامی یہ دوست ایک معروف سماجی شخصیت بھی ہیں اور سیاست کے علاوہ صحافت میں بھی ایک ہلکا پھلکا مقام رکھتے ہیں ۔ میں چونکہ ان سے کافی واقفیت رکھتا ہوں اس لئے میں ان کے ساتھ ہی سرکاری ہسپتال کے ہنگامی مرکز ٹراما سینٹر گیا ۔ وہاں دیکھا کہ ان کی زوجہ و اور ان کا ایک چھوٹابارہ سالہ بچہ بیڈ پر لیٹے انیس سالہ نوجوان کے گرد لیپٹ لیپٹ کر رو رہے تھے اور ڈاکٹرز انھیں بار بار ہٹائے جارہے تھے ، صورتحال سنگین لگ رہی تھی ، میں تیزی سے آگے بڑھا اور پھر یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ نوجوان بچے کے منہ سے جھاگ نکل رہے تھے اور واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ نوجوان زہر خوارنی کا شکار ہوا ہے ۔ مزید تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں تھا ، ڈاکٹرز اور عملے میں معدے کی صفائی شروع کردی تھی ، لڑکے کی والدہ نے تسبیحات مناجات اور والد کے کانپتے ہونٹوں کے ساتھ آنکھوں سے برسات کی طرح برستے آنسو کلیجے پر برجھی کی طرح لگ رہے تھے۔ آدھے گھنٹے کی مشقت کے بعد کافی الٹیاں کرادیں گئیں اور پھر ڈاکٹر مخاطب ہوا کہ بچہ ابھی بھی خطرے میں ہے ایسے فوراََ آئی سی یو میں شفٹ کرادیا جائے ۔ میں آگے بڑھا کہ جناب فوراََ شفٹ کریں تاخیر کیوں کر رہے ہیں۔انھوں نے بے اعتنائی سے جواب دیا کہ یہاں کوئی آئی سی یو میں بیڈ خالی نہیں ہے آپ دوسرے سرکاری ہسپتال لے جائیں ۔اب بے ہوش ہوتا نوجوان ، حواس باختہ والد ، روتی چلاتی والدہ اور اس کے ساتھ معصوم بچہ جس کے ہونٹ بند لیکن سسکیوں کے ساتھ تیزی کے ساتھ رواں آنسو ، بے بسی کی عجیب تصویر بنے ہوئے تھے۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے ، میں نے ڈاکٹر سے اپنا تعارف کراتے ہوئے مدد کی درخواست کی تو مجھے جواب ملا کہ جناب آئی سی یو میں جگہ ہی نہیں ہے اگر آپ کہتے ہو کہ جنرل وارڈ میں داخل کردیتا ہوں لیکن اس کی موت کا ذمے دار نہیں ہونگا آپ کے پاس بس ایک آدھ گھنٹہ ہے ۔ میں نے مریض کی جانب دیکھا جس کی نیم وا آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ موت کی وادی کی جانب تیزی سے رواں ہے ۔ میں ابو عمر کے ساتھ دوڑتا ہوا ، ایمبولنس والوں کے پاس آیا اوردوسرے بڑے سرکاری ہسپتال جانے کا کہا ، ایک دو ایمبولینس والے منع کردیا لیکن ایک ایمبولنس والا راضی ہوگیا کہ پانچ سو روپے لگیں گے ۔میں نے مریض جاں بہ لب کو اسٹریچر پر ڈالا اور ایمبولنس میں دیگر احباب کے ساتھ رکھا ، اٹکتیہچکیاں میرے جان نکالے دے رہی تھی ، کم ازکم مجھے اس قسم کی صورتحال کا واسطہ نہیں پڑا تھا ، ہاں جب کٹی پہاڑی میں مجھے پر دہشت گردوں نے چار گولیاں میرے جسم میں اتار ی تھیں تو لمحہ بھر بے ہوشی کے بعد ازخود ہسپتال اور معالجہ کیا اور ایمبولینس یا پولیس کاروائی کا انتظار نہیں کیا تھا لیکن یہاں معاملہ دوسرا تھا ، میرے عزیز کے بیٹے کی موت زہر خورانی سبب ہونے والی تھی اور اس کا سر میری گود میں تھا ، میں ایک جانب ایسے دیکھتا تو دوسری جانب ان کے لواحقین کو تسلی دیتا کبھی کھبار ڈرائیور کو ڈانٹتا کہ تیزی سے گاڑی چلاؤ، راستے میں بے حس گاڑی والے ایمبولنس کو راستہ نہیں دے رہے تھے ، پریشانی کا ایک بھاری بوجھ تھا جو ذہن پر سوار ہوچکا تھا ہمارے اذہان ماؤف ہوچکے تھے ، یکدم ڈرائیور بولا کہ جناب سرکاری ہسپتال لے جانے کا فائدہ نہیں ، بچے کی حالت نازک ہے ایسے فوری امداد کی ضرورت ہے ،پرائیوٹ ہسپتال لے جائیں ۔ میرے دوست نے کہا کہ بھائی میرے وسائل نہیں ہیں ، اس نے کہا کہ میں ایک ایسا ہسپتال جانتا ہوں جو سستا بھی اچھا بھی اورفوری علاج بھی شروع کردے گا ، میں فیس میں رعایت کیلئے کہہ دونگا ، اس دوران میں میں فون میں دو بڑے ہسپتالوں میں اپنے جاننے والوں کو فون کرچکا تھا مجھے جواب ملا کہ آئی سی یو کوئی خالی نہیں ، رسک نہ لیں اور کہیں نزدیک پرائیوٹ میں داخل کرادیں ۔ میں حد درجہ مایوس ہوچکا تھا ۔ ایمبولینس ڈرائیور کی بات صائب لگی اور اس کو پرائیوٹ ہسپتال لے جانے کو کہا ، مہنگیپرائیوٹ ہسپتال کو صرف امرا ء ہی افورڈ کرسکتے ہیں ۔اس لئے ایک ایسے ہسپتال چلے گئے جہاں پہلے ہی سے انھیں اطلاع مل چکی تھی ، فوراََ آئی سی یو میں شفٹ ہوئے اور دعائیں ، مناجات ، قرآن خوانی ، درود و سلام سمیت تمام انسانی کوششیں شروع ہوگئیں۔پرائیوٹ ہسپتال کی انتظامیہ ایک فائل لیکر آئے اور اس پر دستخط کرائے ، پریشانی میں یہ نہ دیکھا گیا کہ کس بات پر دستخط کرا رہے ہیں بس یہی مقصد تھا کہ بچے کی جان بچ جائے ، انھوں نے کاونٹر پر بلایا اور فیسوں کی فہرست بتانی شروع کردی اور ایک بھاری ایڈونس مانگ لیا ، اب پیروں سے زمین نکلنے کی باری ہماری تھی ، میں اور میرا دوست ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ایک گھنٹے کا ٹائم مانگا اور میں نے کچھ جاننے والوں کو فون شروع کردیئے کسی کو میسج کئے ۔ایک دو احباب نے ایمرجنسی طور پر ابتدائی فیس کی ادادئیگی کردی ، لمحہ بھرکو سکون ہوا لیکن سکون کہاں ، ۔۔لمبی چوڑی ادویات ، انجکشن ز کی فہرست ، ہزاروں روپے کی ادوایات ، اب جائیں تو جائیں کہاں ، میرے عزیز دوست کی حالت انتہائی خراب تھی ، میں کچھ کر نہیں سکتا تھا ، بچے کی جان خطرے میں تھی ، فوری طور پر اپنا موبائل فون فروخت کیا اور دوائیاں لیکر آیا اور اب سلسلہ یہ تھا کہ ایک جانب میرا دوست ادھار مانگ رہا تھا تو ایک جانب میں تقاضا کرتا پر رہا تھا ۔ میسج کے جواب میں ایک جملہ آتا تھا کہ اﷲ تعالی بچے کو زندگی دے اور اس پر میں خاموش ہوجاتا،72گھنٹے انتہائی اہم قرار دئیے گئے اگر ہوش میں نہیں آیا تو بچے کی زندگی کی کوئی امید نہیں ۔ وہ 72گھنٹے ایک عذاب کی طرح مسلط ہوئے اور ایک ایک پل قیامت بن کر گذرا ۔چار دن بعد لڑکے کو ہوش آیا زندگی کی امید بنی لیکن پرائیوٹ ہسپتال کے بل نے دل پکڑنے پر مجبور کردیا ۔بحث مباحثہ ، واسطے ، سفارش کے باوجود ایک چھوٹے ہسپتال کا بل اتنا بنا کہ ہوش اڑانے کیلئے کافی تھا۔ان چار دنوں میں میرے بے روزگار دوست نے نہ جانے کس کس کی منت سماجت کرکے بل کی ادائیگی کی ، روزانہ کا خرچہ25ہزار روپے اور مہنگی دوائیوں کاروزانہ خرچہ15ہزار روپے تھا۔ پھر نااہل اسٹاف کی وجہ سے یورین انفکیشن ہوگیا اور پیسے نہ ہونے کی وجہ سے لڑکے کو سرکاری ہسپتال میں داخل کرنا پڑا جہاں مریض کیلئے ایک سوئی بھی میڈیکل اسٹور سے لانی پڑتی تھی ۔ وہ گیارہ دن میرے دوست کیلئے قیامت صغری سے کم نہ تھے۔آج اس لڑکے کی جاب بھی ٹوٹ چکی ہے ،کام سے نکالا جا چکا ہے ، بچے کا والد مسلسل روزگار کی تلاش میں سرگرداں اور اس کا رجحان یہ بنتا جا رہا ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہمارا معاشرہ سفید پوشوں کے بجائے نمود نمائش رکھنے والوں پر دھیان کیوں دیتا ہے۔ سرکاری ہسپتال ہوں یا پرائیوٹ ہسپتال کسی غریب تنگ دست کیلئے علاج معالجہ بذات خود ایک سوہان روح عذاب ہے۔حکومت کا فرض صحت عامہ کی سہولیات فراہم کرنا ہے لیکن دور حاضر میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ .. تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
یا پھر مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟؟۔۔۔۔۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 745653 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.