جنسی زیادتی کے لحاظ سے بلند ترین شرح کے
حامل 10ممالک کی فہرست ایک عالمی ادارے نے جاری کی ہے۔ جس کے مطابق حیرت
انگیر طور پر ان ممالک کے نام بھی شامل ہیں جو عالمی طور پر حقوق نسواں ،
انسانی حقوق کے دعویدار اور علمبر دار ہیں۔جو مسلم ممالک ، مسلمانوں اور ان
کے مذہب اسلام میں عورتوں کے حقوق غضب کرنے اور انکی سوسائٹی میں عورتوں کے
ساتھ زیادتیوں کا واویلا اور پراپیگینڈا کرتے نہیں تھکتے ان ممالک میں
امریکہ ، جرمنی، برطانیہ ، فرانس ، کینیڈا ، سوئیڈن سر فہرست ہیں۔وہ
10ممالک جو جنسی زیادتیوں کی فہرست میں ٹاپ ٹین میں ہیں امریکہ پہلے جنوبی
افریقہ دوسرے سوئیڈن تیسرے، چوتھے پر بھارت ، پانچویں پر بر طانیہ ، چھٹے
پر جرمنی ، ساتویں پر فرانس ، آٹھویں پر کینیڈا ، نویں پر سری لنکا اور
دسویں پر برایتھوپیاہے۔ اس حیران کن سروے کے مطابق دنیا کی سپر پاور ز جنسی
زیادتیوں کی دوڑ میں آگے آگے ہیں۔ لیکن یہ سپر پاور دنیا بھر میں حقوق
نسواں کے نام پر اپنی این جی اوز کے ذریعے سالانہ اربوں روپے خرچ بھی کرتی
ہیں لیکن ان کی مثال چراغ تلے اندھیرے والی ہے۔ وہ دوسروں کو نصیحت خود
میاں وصیت والا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں جو ٹاپ ٹین میں شامل
ہیں 91%خواتین اور 9%مرد حضرات کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات ہو رہے ہیں۔
اور جوں جوں عریانی ، فحاشی اور مخلوط طرز زندگی ، فیشن میں اضافہ ہو رہا
ہے ان واقعات کی تعداد بھی بڑھتی جار ہی ہے۔امریکہ میں کئے جانے والے ایک
سروے کے مطابق وہاں کی ہر 6میں سے ایک عورت اور 33میں سے ایک مرد کو جنسی
زیادتی کا شکار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کالج کی ایک چوتھائی طالبات اس زیادتی
کا نشانہ بنتی ہیں۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت جہاں کی حکومت سالانہ بلین آف
ڈالرز کے اسلحہ پر بھاری سرمایہ تو برباد کرتی ہے لیکن وہاں پر جو کروڑوں
لوگ غربت کے باعث فٹ پاتھوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں کی طرف اسکا
کوئی دھیان نہیں ہے۔ وہاں چلتی بسوں میں نوجوان لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے
واقعات تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں انڈیا میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق جنسی
زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان اور وقعا ت کی بڑی وجہ عوتوں کا لباس ، بالی
وڈ کی کا فلموں میں بڑھتی ہوئی عریانی اور فحاشی اور مخلوط طرز زندگی میں
اضافہ ہے۔ جنسی زیادتیوں کے ٹاپ ٹین ممالک میں کوئی بھی اسلامی ملک شامل
نہیں ہے ۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں پر ایسے واقعات رونما نہیں
ہوتے ۔ آئے روز ہمارے اخبارات ایسی خبروں کی زینت بنتے ہیں ۔ لیکن ان کی
شرح مغربی ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ جہاں ایسے واقعات کا رونما
ہونا معمول ہے ۔ ہمارے مذہب اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے اگر وہ اپنی
حیثیت کو سمجھ لے اور ان حدود و غیور میں رہ کر زندگی گزرے تو جو اکا دکا
واقعات مسلمان ممالک میں ہوتے ہیں ان میں کافی حد تک کمی آ جائے ۔ عورت کو
ہمارے مذہب نے گھر کی چار دیواری میں رہ کر گھر کے امور سنبھالنے ، بچو ں
کی تربیت کا ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ جبکہ مرد کے ذمہ ہے کہ وہ انکے نان و نفقہ
کے لئے روزگار تلاش کرے۔ کاروبار ، نوکری ، زمیندارا وغیرہ کرے۔ جب عورت بن
ٹھن کر زیب و زینت کیساتھ خوشبو لگا کر گھر سے نکلے گی تو اچھے اچھے ایمان
والے بھی پھسل جاتے ہیں۔
تاحال ہمارا معاشرہ برائی کی اس حد تک نہیں پہنچا جہاں مغرب پہنچ چکا ہے
لیکن اغیار کی کوشش ہے کہ ہم بھی گندگی کی اس سطح پر پہنچ جائیں جہاں ماں
باپ بہن بھائی تک کی تمیز ختم ہو جائے۔ اس کے لئے این جی اوز تمام اسلامی
ممالک میں خاص کر پسماندہ اور غریب اسلامی ممالک میں سالانہ اربوں روپے خرچ
کر کے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔تا کہ انکا معاشرہ بھی مادر پدر آزاد
معاشرہ بن جائے ۔ آپ این جی اوز کے کسی بھی پروگرام ، کانفرنس ، سیمینار کو
دیکھیں ان میں نوجوان لڑکیوں کو ضرور مدعو یا شامل کیا جاتا ہے ۔ بھاری
معاوضے کے عوض ہماری نوجوان نسل کو چادر اور چار دیواری سے نکال کر مردوں
کے شانہ بشانہ چلنے پر مجبو ر کیا جا رہا ہے۔ سب کچھ صحت ، تعلیم ، صفائی ،
آگاہی پروگرامز ، خاندانی منصوبہ بندی و دیگر پروگرامز کے نام پر ہو رہا ہے
۔ ایسی این جی اوز کو عیسائیوں ، یہودیوں کے مذہبی اور کاروباری ادارے
سپورٹ کر رہے ہیں ۔وہ ہمارے اسلامی تشخص کو ختم کرنے اور ہمارے معاشرے کو
مادر پدر آزاد معاشرے میں تبدیل کرنے کے لئے سرگرم ہیں ۔ ہمارا میڈیا بھی
انکا ہم پیالہ ہم نوالہ بنا ہوا ہے کیونکہ یہ این جی اوز میڈیا پر بھی
سالانہ کروڑوں کی رقم خرچ کرتے ہیں ۔ آج اﷲ کی مدد مساجد مدارس دعوت تبلیغ
کے کام کے مراکز ہونے کے باعث ہمارا معاشرہ جنسی بے راہ روی کے اس مقام تک
نہیں پہنچا جہاں مغرب پہنچ چکا ہے۔ اس لئے اسلامی ممالک میں جنسی زیادتی کے
واقعات قدرے کم ہیں ۔ سعودی عرب جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں چور کے ہاتھ،
قاتل کا سر قلم ، زنا کے مرتکب ملزمان کو سنگ سار کیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات
نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ہمارے دیگر اسلامی ممالک اور مسلمانوں کی بقاء کا
انحصار بھی ایسے قوانین پر ہے ۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے معاشرے میں میڈیا
کے ذریعے کی جانے والی بے راہ روی کی یلغار کو بھی روکنا ہوگا۔ ایسے قوانین
کو سخت بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل درآمد اور پولیس کی کارکر دگی کو بھی
بہتر بنانا ہوگا مخلوط طرز تعلیم ، بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم
کرنے کے ساتھ ساتھ عورت کو جو مقام اسلام نے دیا ہے وہ اسے دینا ہوگا ۔ اور
اسے اسلام میں اپنی حاصل شدہ اہمیت جس میں ماں کے پاؤں تلے جنت ، جائیداد
میں وارث کا احساس دلانا ہوگا ۔ اسکے لئے علماء کرام اپنا کردار ادا کریں
کیونکہ آج پراپیگینڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں عورت کو مقام نہیں ملا
۔ ہمارے ملک کی این جی اوز آئے دن الیکٹرانک چینلز پر براجمان ہو کر حقوق
نسواں کا درس دے رہی ہوتی ہے۔ ان کا درس مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے جو ہمارے
اسلامی معاشرتی کلچر کو اور روایات کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ خدا نہ کرے کہ
ایسا ہو اگر ہم نے اسکا جلد تدارک نہ کیا تو جیسے ہم بد امنی ، بے روزگاری،
تعلیمی زبوں حالی ، کرپشن دہشت گردی کے وقعات ، صحت کی سہولیات کی ناگفتہ
بے حالت و دیگر شعبوں میں برے ملکوں کی فہرست میں سر فہرست ہیں کہیں ہم
جنسی زیادتیوں کے معاملے میں بھی ٹاپ ٹین برے ممالک میں شامل نہ ہو جائیں۔ |