ملت کا پاسباں بے مثال کردار کی منفرد شخصیت

شیکسپیئرکہتا تھاکچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں تو کچھ لوگ اپنی جدو جہد اور کارناموں کی وجہ سے وہ مقا م حاصل کر لیتے ہیں، گو کہ بانی ِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح میں عظمت و قابلیت اور نیک نامی کی ساری خوبیاں پیدائشی تھیں 25دسمبر 1876ء بروز پیر پونجا جناح کے ہاں ایک بچے نے جنم لیا کوئی نہیں جانتا تھا یہ بچہ بڑا ہو کر اپنے ماں باپ اور ملک وقوم کے لیئے ایک درخشاں ستارہ ہو گا۔

قائداعظم کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا، انیسویں صدی کا آغاز میں برصغیر میں بہت سی نامور شخصیات پیدا ہوئں جن میں ذکر ِ اول شاعر مشرق حکیم الا مت ڈاکٹر علامہ اقبال کا نام آتا ہے ، مولانامحمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،جناب بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان، مولانا عبیداﷲ سندھی اور نواب سلیم اﷲ خان شامل ہیں اﷲ رب العزت نے سب کو اعلیٰ مقام پر فائز کیا مگر جو رتبہ اﷲ نے قائداعظم کو عطا کیا وہ کسی کے نصیب نہ تھا۔ قائداعظم کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا آپ کے دادا کا نام میگھ جی تھا وہ ہندوستان کی ریاست کاٹھیاوار کے صدر مقام گوندل کے ایک گاؤں پانیلی کے رہنے والے تھے ، میگھ جی کے ایک بیٹے کا نام پونجا تھا اﷲ نے پونجا صاحب کو 3بیٹے دیئے

14 اگست 1947ء کو قائداعظم کی مدبرانہ صلاحیتوں غیر متزلزل عزم و ہمت سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صلاحیتوں و صفات سے مسلمانوں کی بقاء اور سلامتی کی خاطر ایک آزاد مملکت خداداد پاکستان کی شکل مین معرض وجود میں آئی،جب قائداعظم پیدا ہوئے تب ہی لوگوں نے دیکھتے ہی کہنا شروع کر دیا یہ بچہ ایک دن بادشاہ ہوگا اور یہ الفاظ وقت نے سچ ثابت کر دیے ،جب برصغیر میں ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کا وہ درینہ خواب جو مسلمانانِ ہند گذشتہ دو صدیوں سے دیکھتے چلے آ رہے تھے۔

مسلمان ہندؤں کے ظلم وستم برداشت کر کے تھک چکے تھے اُن کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو ان کے دکھ درد کو سمجھتے ہوے ایک آزاد ریاست کا قیام عملی طور پر کر کے دیکھائے ، 1857ء کے جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی حالت ِ زار کو دیکھتے ہوے سر سید احمد خان نے کہا تھا ـ: میرے سر کا بال سفید ہوگئے لیکن مسلمانوں کی حالت تبدیل نہیں ہو سکی۔ برصغیر میں انگریز کاروبار کے سلسلے میں آئے اور یوں وہ اس خطے پر قابض ہوگئے اور خطے کو لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیاتھا۔ایسے میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی جو اُن کے حقو ق کی پاسدار ی کرتی ، جہاں وقت کی نوعیت کے مطابق کانگریس کا قیام عمل میں آیا جو خطے کے لوگوں کی ترجمان جماعت تھی۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ثابت ہو گیا کہ کانگریس کی ساری ہمدردیاں ہندؤں کے ساتھ تھیں اور مسلمانوں کے ساتھ سوتیلے والا سلوک کیا جانے لگا ، مسلمانانِ ہند پر طرح طرح کے ظلم کیے جانے لگے مذ ہبی تہواروں پر پابندیا ں لگانی شروع کر دیں ۔ گائے کی قربانی پر پابندی ، سکولوں میں بچوں پر بندے ماترم ترانہ اور جھنڈے کو سلام لازمی قراد دیا جانے لگا، اردو زبان کو ختم کر کے ہندی زبان رائج کر دی گئی ، مسلمانوں کو سرکاری نوکری سے بے دخل کیا جانے لگا، عبادت گاہوں کو جلانے گرانے کا کام شروع کر دیا گیا، الغرض کوئی ایسا ظلم نہ تھا جو مسلمانوں پر نہ کیا جاتا جس کی وجہ سے مسلمانانِ ہند نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی نمائندہ جماعت بنایں جو اُن کی حقوق کے لیے لڑ سکے اور ان کو ان کے ظلم وستم سے محفوظ کر سکے تب جا کر جناب نواب سلیم اﷲ ، امیر علی، جناب محسن الملک، میاں محمد شفیع اور جناب آغا خان کی سربراہی میں ایک نئی جماعت مسلم لیگ نے جنم لیا اور یوں 30دسمبر 1906ء کو ایک اجلاس میں اس کا باقاعدہ اعلان ہو گیا اور لکھنؤ میں اس کا صدر دفتر بنایا گیا برصغیر کے مسلمانوں میں ایک خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اب مسلمانوں کو یقین تھا کہ جو خواب دو صدیوں پہلے دیکھا گیا تھا اس کی تکمیل ممکن ہوگی قائداعظم محمد علی جناح1893ء میں جبکہ وہ سترہ برس کے تھے وکالت کی تعلیم کے لئے لندن روانہ ہوگئے اس زمانے کانگریس کے ایک بڑے لیڈر دادا بھائی نوروجی تھے جو دارلعلوم کے لیئے الیکشن لڑ رہے تھے قائداعظم نے اُن کی توجہ حاصل کی پھر ہندوستان 1896 ء میں ہندوستان واپس آکر وکالت شروع کی، اس وقت قائداعظم آل انڈیا کانگریس کے ساتھ سکریٹری صدر کے عہدے پر کام کر رہے تھے مارچ 1913ء میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور یوں مسلمانوں کو ایسا لیڈر ملا جو اپنی صلاحیتوں میں بے مثال تھا، وہ طالع آزماؤں اور مفاد پرستوں کی راہ میں بہت بڑی روکاوٹ تھا۔ قائداعظم مسلمانوں کے بنیادی مسائل کے تدارک کا کام خوب جانتے تھے قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کی دلی میں منعقدہ تیسویں اجلاس میں انہوں نے کہا تھا: مسلمان گرہوں اور فرقوں کی نہیں بلکہ اسلام اور قوت کی محبت پید ا کریں کیونکہ ان برائیوں نے دو برس سے کمزور کر رکھا ہے ۔ قائداعظم اپنے ایک فرمان میں مسلمانوں سے خطاب کرتے یہ سنہری الفاظ فرمائے: تعمیرپاکستان کی راہ میں مصیبتوں اور دشواریوں کو دیکھ کر گھبرایے گا بالکل نہیں تازہ جوان اور نئی اقوام کی تاریخ میں کئی باب ایسی تاریخوں سے بھرے پڑے ہیں کہ انہوں نے محض قوت ارادی، قوت ِ عمل اور قوت کردار سے خود کو بلند کیا،آپ خود بھی فولادی قوت کے مالک ہیں اور عزم و اردے کی دولت سے مالا مال ہیں مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آپ دوسروں کی طرح اپنے آباواجداد کی طرح کامیاب نہ ہوں آپ کو بس مجاہدوں کا ساجذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔آپ ایک ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ شجاعت ، کردار اور آہنی ارادے کے لوگوں اور کارناموں سے بھری پڑ ی ہے اپنی شاندار روایت کے مطابق زندہ رہیے بلکہ اس میں عظمت و شوکت کے ایک اور باب کا اضافہ کیجیے :۔
قائداعظم کی شخصیت پر کچھ لوگوں نے انگلیا ں بھی اٹھایں کہ ایک سیکولر کو پارٹی میں شامل کر لیا ہے جو مسلمانوں کے لیئے بہتر کام نہیں کر سکے گا اس پر ڈاکٹر علامہ اقبال نے فرمایا کہ میں نے قائداعظم کو یہ کہتے سنا ہے کہ میں جو کام کر رہا ہوں صرف اس لیئے کر رہا ہوں کہ میں حضور ﷺ کی امت کے لیئے کچھ کر سکوں ،خود کو اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کا ادنا غلام سمجھتا ہوں اور روز محشر آپ ﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند ہوسکوں اس جملے کے بعد میرے خیال میں کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ قائداعظم کون تھے؟ حضرت پیر جماعت علی شاہ نے جب قائداعظم محمد علی جناح کو قُرآنِ پاک ،جائے نماز اور تسبیح تحفے میں بھیجی تو قائداعظم نے جوابا خط لکھا ، شکریہ ادا کیا اور عرض کی کہ حضور آپ نے مجھے قرآن اس لیئے بھیجا کہ میں اسے پڑھوں اور اﷲ کا احکاما ت جانوں اور اسے نافذکروں او ر جائے نماز اس لیئے بھیجا کہ جو آدمی اﷲ کی اطاعت نہ کرے اس کی اطاعت اس کی قوم بھی نہیں کرتی،اور تسبیح اس لیئے بھیجی کہ میں آقا کریم ﷺ کی ذات پر درود پڑھوں کیونکہ کہ جو درود نہیں پڑھتا اس پر اﷲ کی رحمتیں نازل نہیں ہوتیں،یہ پڑھ کر حضرت پیر جماعت علی نے فرمایااﷲ کی قسم محمد علی جناح اﷲ کے ولی ہیں اسے کیسے پتہ کہ یہ تحفے میں نے اسی نیت سے بھیجے ہیں۔ قائداعظم ایک سچے مسلمان سپاہی تھے آپ کی ساری زندگی ایمانداری اور وطن کی محبت میں سر شار گذری ۔ 15نومبر1942ء سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس کے موقع پر قائداعظم نے طالب علموں سے مخاطب ہوتے ہوے فرمایا تھا:مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزحکومت کیسا ہوگا ؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔مسلمانوں کا طرزحکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا اور الحمدﷲ قُرآن ِ پاک آ ج ہمارے پاس موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا انشاء اﷲ۔
قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل 21اکتوبر 1939ء کے خطاب میں اپنی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
میری زندگی کی واحد تمنایہی ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں میں چاہتا ہوں جب میں مروں تویقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میراضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔ وہ ایک سچے بہادر اور نڈر لیڈر تھے دن رات کی ان تھک محنت سے آخر کار ایک آزاد ریاست کا وجود قائم ہوا اور 14 اگست 1947ء کو ایک آزاد اسلامی مملکت دنیا کے نقشے پر نظر آئی بقول شاعر:
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائداعظم تیرا احسان تیرا احسان

آ پ کی بہن مس فاطمہ جناح اکثرو بیشتر آپ کے ساتھ ساتھ ہوتیں تھیں اور آپ کو آرام کرنے کا کہا کرتیں تھیں مگر قائداعظم میں مسلمانوں کے ایک الگ ریاست بنانے اور ان کو آزاد دیکھنے کا جنون تھا وہ نہ دن دیکھتے نہ رات ایک عشق تھا جو اس ارض پاک کو حاصل کرنے کے لیئے تھا اس مقصد کو پانے کے دن رات محنت سے قائداعظم بیمار ہوگئے اور 11ستمبر1948ء 71برس کی عمر میں اس دنیا فانی سے رخصت ہو کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے آپ روشنیوں کے شہر کراچی میں مدفون ہیں ۔ آپ ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں اور مسلمانوں کی بقاء کے لیئے آپ کی کوششوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اﷲ آپ کے درجات بلند فرمائے آمین۔

اگر آج کے پاکستان کی حالت کو دیکھا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج کی عوام اُسی حالت میں ہے جہاں سے قائداعظم نے نکالا تھا لوگ آزاد ہو کر بھی غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے پہلے انگریزوں اور ہندؤں کے غلام تھے آج جمہوریت کی آ ڑ میں وڈیروں کے غلام ہیں، ملک میں غربت ، افلاس ، بے روزگاری ، کرپشن کا دور دورہ ہے ہر ادارے میں ایک وڈیرہ بیٹھا ہے جو اپنی مرضی سے ادارے کی تنظیم کا تعین کرتا ہے ، سرکاری ہسپتالوں میں بھیکاریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور لوگ مجبورا نجی ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں جہا ں ان کی چمڑی تک ادھیڑ لی جاتی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ، یہ کیسا نظام ہے جہاں غریب کے لیئے سزا جب کہ امیر قتل کر کے بھی دندناتے پھرتے ہیں ، جہا ں غریب آدمی روٹی چرا لے تو ہتھکڑی لگا کر تھانے میں بند کر دیا جاتا ہے جبکہ امیر اربوں کی کرپشن میں رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو باعزت بری ہو جاتا ہے ۔۔نہ جانے کب دن ہوگا اور اور میرے گلستان میں روشنی ہو گی۔شاعر نے کیا خوب کہا۔
بے اثر ہوگئے سب حرف نوا تیرے بعد
کیا کہیں د ل کا جواحوال ہوا تیرے بعد

توبھی دیکھے توذرا اوپر کوپہچان نہ پائے ۔ ایسی بدلی کوچے کی فضا تیرے بعد اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی ہم سے ۔ اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد
 
M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 54918 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More