بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ً دہشت گرد شاھین مارا گیا ً لوگ اس خبر سے بے حد خوش تھے مٹھائیاں تقسیم
ہو رہی تھیں ، حکومت اور پولیس کی کارکردگی کو سراہا جارہا تھا ، لیکن ایک
اﷲ والے کی آنکھ سے آنسو جاری تھے۔۔۔۔۔
شاھین اپنی جماعت کا نہایت ہی وفادار کارکن تھا ، اسے اپنی جماعت کے سردار
کا بھر پور اعتماد حاصل تھا ، اس نے اپنی جماعت اور سردار کے لئے بیشمار
قربانیاں دی تھیں ، وہ اپنے سردار پر جان نچاور کرتا تھا ، اس کے سردار کی
طرف سے جو حکم آتا اس کی بجا آوری کے لئے شاھین پیش پیش ہوتا، اس نے کئی
بار جیل کاٹی ، اس کے سردار پر حالات آئے لیکن اس نے کسی حال میں بھی ساتھ
نہیں چھوڑا ،شاھین کا نام سنتے ہی لوگوں پر کپکی طاری ہو جاتی ، وہ جو
مطالبہ کرتا بے چوں چرا لوگوں کو ماننا پڑتا ، ورنہ وہ انجام سے واقف تھے،
مخالفین کو ڈرانے ٹھمکانے کے لئے شاھین کا نام ہی کافی تھا ، حکومت کی طرف
سے سختی کے زمانے میں وہ اپنے سردار کے ہدایت پر روپوش ہو جاتا اور حالات
کے معمول ہونے پر روپوشی ترک کرنے کی ہدایت پر عمل کرتا ۔
محب وطن لوگوں اور اداروں کی طرف سے حکومت پر حالات کنٹرول کرنے کے لئے
ڈباؤ ڈالا گیا، شاھین کو سردار کی طرف سے پیغام آیا کہ حالات بہت سنگین ہیں
، شاہین نے فورا کہا کے میرے لئے کیا حکم ہے ، سردار نے کہا کہ ہم میڈیا کے
زریعہ یہ خبر چلائیں گے کہ شاہین سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ، شاہین اس کے
لئے بھی تیار ہو گیا ۔
جب اس خبر سے بھی بات نہ بنی توخود سردار نے اپنی جماعت کو بچانے کے لئے
خفیہ اداروں کو شاہین کی قیام گاہ کی اطلاع دی ، پولیس نے چھاپہ مارا اور
مقابلے میں شاہین مارا گیا ۔
شاہین کی موت پر خوشی کی لہر ڈور گئی ، لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور حیرت
انگیز طور پر جماعت کے سردار نے بھی پولیس کی کارکردگی کو سراہا۔
ایک اﷲ والے نے بھی اس خبر کو پڑھا پھر گہری سوچ میں ڈوب گئے اور انکی آنکھ
سے آنسو جاری ہو گئے، لوگ جو ان گرد جمع تھے کہنے لگے ہم سب خوش ہیں اور آپ
رو رہے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ یہ خبر مجھے ایک سبق دے رہی ہے اس لئے میں
رو رہا ہوں ، لوگوں کو تعجب ہوا کہ اس میں ایسی کون سی بات ہے؟ بزرگ نے
فرمایا کہ یہ خبر مجھے کہہ رہی ہے کہ اے خبر پڑہنے والے مجھے پڑھ اور عبرت
حاصل کر کہ شاہین نے اپنے سردار کی محبت میں ہر تکلیف برداشت کی ، ہر
قربانی دی حتی کہ جان تک قربان کر دی لیکن ایک جھوٹی محبت میں جم کر دیکھا
دیا ، کیا تو حق محبت پر جم کر نہیں دیکھا سکتا ۔۔۔؟شاہین نے باطل محبت میں
نہ دن دیکھا ،نہ رات دیکھی نہ اپنے آرام کی پرواہ کی ۔ تجھے تیرا محبوب
حقیقی پیشکش کرتا ہے کہ رات کی تنہائی میں مجھ سے مانگ میں تیری ہر حاجت کو
پوری کروں گا ،لیکن تہجد تو درکنار ، فجر بھی نہیں پڑھی جاتی ۔ نبی ﷺ کی
محبت کو دعوی کرتے ہیں لیکن اپنے نبیﷺ کی آخری نصیحت نماز اور اپنے ماتحتوں
کے ساتھ برتاؤ میں ہمارا کیا حال ہے ۔ دعوی تو محبت کا ہے لیکن طرز عمل کا
یہ حال ہے کہ
نام پر تیرے ،جان بھی فدا ہو
حکم نہ تیرا، اک بھی ادا ہو
دعویٰ محبت کی دلیل اتباع سنت ہے ، جو جتنا متبع سنت ہو گا اسی قدر اس کا
دعوی قابل قبول ہو گا، اپنی زندگی کو سنت سے مزین کیجئے ، رہنمائی کے لئے
اسوہ رسول ﷺ(ڈاکٹر عبدالحی عارفی ؒ) علیکم بسنتی (مفتی عبدالحکیم ؒ) وغیروہ
کتب اپنے مطالعہ میں رکھیں اور ایک ایک کر کے اپنا عمل سنت کے مطابق کرتے
جائیں تو دعوی محبت سچا کہلائے گااور یہ لازوال محبت دین و دنیا دونوں جگہ
کام دے گی۔ |