محمد ﷺ اور آج کے مسلمان

اور ہم نے محمد ﷺ کو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا (القرآن)
اگر سمندر سیاہی بن جائے اور لاکھوں سال تک اس دنیا کی ساری مخلوقات محبوب خُدا سرکار دو عالم حضرت محمد ﷺ کی عظمت اور شان پر لکھتے رہیں تو بھی محمد ﷺ کے عظمت اور شان کو بیان نہ کر پائیں گے۔آج سے چودہ سو سال قبل عرب معاشرہ جہالت کی انتہا کو چھو رہی تھی۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ہر طرف ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا۔ کمزورں کے اوپر ظلم کی انتہا کر دی جاتی تھی۔ تب اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کو رحمت بنا کر بھیجا۔ تاریخ بتاتی ہے جب حضرت محمد ﷺ سر زمین عرب میں آئے اور انہوں نے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو ہر طرف سے مخالفت کی گئی ۔ محمدﷺ کو پتھر مارے گئے۔ کچراہ پھینکا گیا۔ یہاں تک کے حضرت محمد ﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بے دردی سے شہید کیا گیا اور اتنا ظلم کیا گیا کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا کلیجہ نکال کر اسے چبایا گیا۔ مگر اس کے برعکس اﷲ کے محبوب ﷺ نے اپنے اوپر پتھر برسانے والوں کو بجائے بد دعا دینے کے انہیں ہدایت کی دعائیں دی۔ کچراہ پھینکنے والی بوڑھی عورت جب بیمار ہوتی ہے تو اسکی تیماداری کے لیے اُن کے گھر پہنچ جاتے ہیں اورجب تک وہ بوڑھی عورت صحت یاب نہ ہوتی تب تک انکی خدمت کی۔چچا کے قاتلوں کو عام معافی دے دی اور فرمایا کہ جو لوگ ابوسفیان کے گھر پناہ لے گا وہ آمان میں ہوگا۔ان تمام باتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اسلام ہمیشہ آمن ، درگزر کرنے کا، ایک دوسرے کی مدد کرنے کااور آخوت کا درس دیتا ہے۔ مگر افسوس آج کے مسلمان اپنے پیارے محبوب ﷺ کے دین کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ آج ہم نے اپنی مرضی کا اسلام بنایا ہوا ہے۔ ہم صرف نام کے مسلمان بن چکے ہیں ۔ اسلام عمل کرنے کا درس دیتا ہے مگر ہم نے کبھی عمل کی طرف دھیان نہیں دیا بلکہ صرف لفظی باتوں تک ہی اسلام کو محدود کر کے رکھ دیا۔آج ہم سب محمد ﷺ سے محبت کی بڑی بڑی دعوے کرتے ہیں ہیں مگر اس کے نقش قدم پر چلنے کی زحمت تک نہیں کرتے۔ معاف کرنے سے لیکر ایک دوسرے کی مدد تک ہر اس کام کو پس پشت ڈالا ہے جسے محمد ﷺ نے ہمیں کرنے کا حکم دیا تھا۔اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم مسلمان پستی اور ناکامی کے شکار ہیں۔ اکثر رواجوں کع ہم نے اسلام کا رنگ دیا ہے مگر درحقیقت اُن چیزوں کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ گھریلو معاملات سے لیکر ہر معاملے میں ہم نے اپنے مرضی کا اسلام بنیا ہوا ہے۔ محمدﷺ کے بتائے ہوئے دین نے بتایا کہ اگر آپ کا ہمسایہ بھوکا ہو اور آپ پیٹ بھر کے کھانا کھائیں تو اﷲ کی پکڑ ہو گی۔ مگر ہم اﷲ کی پکڑ سے کہاں ڈرنے والے۔اسی طرح ہر معاملے میں ہم اﷲ اور اسکے پیارے رسولﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کو پست پشت ڈال چکے ہیں۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے جب فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا رشتہ مانگا تو اﷲ کی طرف سے جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ بی بی فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کر دے ۔ اﷲ کے رسول نے رشتے کے لیے تب تک ہاں نہیں کی جب تک گھر جا کے خود فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے نہیں پوچھا اور جب فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے ہاں کر دی تب جا کے علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فاطمہ کا رشتہ دیا۔ اس کے برعکس ہم بیٹیوں سے پوچھنا اپنی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں اور اگر کوئی اپنی مرضی بتا دے تو اسے لعن تعن دی جاتی ہے۔ ان تمام باتوں سے ایک بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ آج ہمارا محمدﷺ کے دین سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں بس نام کے مسلمان بن گئے ہیں۔ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے جس دین کی تعلیم ہمیں دی ہے وہ انتہائی سادہ اور آسان ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ملتی۔جس دین میں کھانا پینا․سونا جاگنا،بولنا یا خاموش رہنا بھی عبادت کے ضمرے میں آسکتا ہے جس دین میں انتہائی محبت کے خونی رشتے سے اچھا سلوک بھی آجر کا باعث بن سکتا ہے اولاد پر خرچ کرنا صدقہ بن جاتا ہے اس دین کو آج ہم نے خود ہی اپنے لیے بدعات اور جدت کے ٹانکے لگا کے مشکل ترین کر لیا ہے۔اور اسکے ساتھ ساتھ آج شادی جیسی عظیم عمل کو ایک خوفناک خواب بنا دیا گیا ہے۔ اسکو کئی قسم کے اخراجات اور تقریبات پر لاکھوں روپے خرچ کرنے نے اسے ایک بھاری بوجھ بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے غریب کی بیٹی گھروں میں بیٹھ کر بوڑھی ہو جاتی ہیں ان نئے رواجوں نے نکاح جیسی حلال عمل کو مشکل اور زنا جیسی بے حیائی کو آسان بنا دیا ہے ان رواجوں نے نوجوانوں کو بے راہ رو تو کیا ہے مگر ساتھ ہی نفسیاتی مسائل سے بھی دو چار کیا ہے جس کی وجہ سے نوجون فریسٹریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا مظاہرہ آج جگہ جگہ خودکشی اور جابجا چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل اور تشدد کی صورت میں عام ہو رہا ہے۔جبکہ ہمارے دین نے کسی شعبے کو تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ اسے بنی نوع انسان کے لیے نہایت آسان اور پرسکون بنایا ہے جسے ہم نے اپنے اوپر ظلم کرتے ہوئے مشکل ترین بنا دیا۔ ان تمام غیر اسلامی کاموں کو ختم کرنے میں نوجوان نسل اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور محمد ﷺ کے طریقوں کو اپنا کر نہ صرف محمد ﷺ کے حقیقی پیروکار بن سکتے ہیں بلکہ پوری بنی نوع کے لیے باعث رحمت بنے گی۔ اﷲ سے دعا ہے کہ ہمیں محمدﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق عطاہ فرمائیں ۔آمین
Jahangir Khan Kakar
About the Author: Jahangir Khan Kakar Read More Articles by Jahangir Khan Kakar: 3 Articles with 2882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.