ربیع الاول کے مقدس مہینہ کے شروع
ہوتے ہی تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے گھروں ،مساجد،گلیوں کو سجانا شروع
کر دیتے ہیں ۔ اور ہر طرف خوشی ہی خوشی ہوتی ہے ۔خوشی کا یہ عالم ہوتا ہے
کہ چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھے ،نوجوانوں کے ہاتھوں میں سبز پرچم ہاتھوں میں
تھامے اپنے پیارے محبوب سرور کونین آقا دو جہاں، محبوب خدا ،انبیاء کے
سردارمیرے اور آپ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ سے محبت کا اظہار کر رہے ہوتے
ہیں ۔ کیونکہ اس مقدس ماہ میں 12ربیع الاول کی صبح آپ اس دنیا میں تشریف
لائے اور ساری کائنات کو روشن کر دیا۔ آپ سرکار کسی خاص کنبہ ،قوم یا ملک
کے لئے رحمت بن کر نہیں آئے تھے۔ بلکہ آپ تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر
بھیجے گئے تھے ۔ اس ماہ میں خصوصاً تمام مسلمان اپنے اپنے گھروں اور مساجد
میں محفل ذکر مصطفی کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ۱۲ربیع الاول کی صبح ہوتے ہی تمام
مسلمان جلوس کی شکل اختیار کیے اور ذکر وازکار کرتے ہوئے حضور کی بارگاہ
رسالت میں تحفہ درودشریف بھیجتے ہیں ۔میں اس قابل تو نہیں کہ حضور کی شان
بیان کر سکوں ۔مگراپنے محبوب نبیﷺ کی زندگی کے چند پہلو آپ کی نذر کر رہا
ہوں ۔ جس میں میری اور آپ سب کی کامیابی ہے ۔
آج سے تقریباًساڑھے تیرہ سو سال قبل جب دنیا کفروضلالت ،جہالت وسفاہمت کی
تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی۔بطحاکی سنگ لاخ پہاڑیوں سے رشدوہدایت کا ماہتاب
نمودار ہوااور مشرق و مغرب ،شمال وجنوب غرض دنیا کے ہر ہر گوشہ کو اپنے نور
سے منور کیا اور 23سال کے قلیل عرصہ میں بنی نوع انسان کو اس معراج ترقی پر
پہنچایا کہ تار یخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے اور رشدو ہدایت
،صلاح و فلاح کی وہ مشعل مسلمانوں کے ہاتھ میں دی جس کی روشنی میں ہمیشہ
شاہراہ ترقی پر گامزن رہے اور صدیوں اس شان و شوکت سے دنیا پر حکومت کی کہ
ہر مخالف قوت کو ٹکراکر پاش پاش ہونا پڑا ۔حضور ﷺ کی زندگی بنی نوح انسان
کے لئے مشعل راہ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت
بنا کر بھیجا ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ترجمہ :ہم نے آپ ؐ کو تمام جہانوں
کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔
اور آپ ؐ کی زندگی کو پوری انسانیت کے لئے نمونہ ہدایت قرار دیاگیا ہے ۔
ترجمہ : تحقیق تمہارے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کے بارے میں ارشاد فرمایا۔جس کا ترجمہ یہ ہے
۔مسلمانوں تمہارے پاس اﷲ کے ایک نبی آئے ہیں ۔جو تم میں سے ہیں ۔تمہار ا
رنج و کلفت میں پڑنا ان پر بہت شاق گزر تا ہے ۔وہ تمہاری بھلائی کے بڑے ہی
خواہش مند ہیں ۔وہ مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے اور مہربان ہیں ۔حضور ﷺ
مقروض اصحاب کا قرض اپنے پاس سے ادا فرماتے ۔بحالت ضروری نماز و خطبہ مختصر
فرمادیتے ۔یہاں تک کہ بقول حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہااپنے پسندیدہ عمل کو بھی
اس لئے ترک فرما دیتے کہ کہیں وہ عمل امت پر فرض کی حیثیت سے عائدنہ ہو
جائے ۔مثلاً نماز تراویح صرف تین دن مسجد میں ادا فرمائی (صحیح بخاری)اور
بعد ازاں یہ خیال مانع ہوا کہ نماز تراویح امت پر فرض نہ کر دی جائے ۔ اسی
طرح امت کو عبادات ومعاملات میں دشواری سے بچانے کے لئے حضور اکرم ﷺ نے عمر
بھر فکر کی ۔مثلاً مسواک کے بارے میں فرمایاـ ـ’’ اگر امت کودشواری نہ ہوتی
تو میں انھیں ہر نماز سے پہلے مسواک کرنے کا حکم دیتا‘‘(صحیح بخاری
)۔غرضیکہ خلق خدا اور خالق ارض و سماء دونوں شاہد ہیں کہ حضور اکر م ﷺ
بالمومنین روف رحیم ،یعنی ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان کے بہترین
مصداق ہیں ۔آپ ﷺ نے ہمیشہ کافروں اور غیروں کو بھی محبت کی نگاہ سے دیکھا ۔
کافروں نے آپ کے ساتھ ناروا سلوک کیا مگر آپ ﷺ نے ان کو دعائیں دیں ۔آپ کے
آنے سے پہلے جتنی بھی امتین آئیں ان کو گناہوں کے بدلے عذابوں برداشت کرنے
پڑے ۔ اور کسی قوم کی صورت کو مسخ کر دیا گیا۔ کسی پر طوفان کا عذاب آیا
اور کسی کی بستی کو الٹا دیا گیا۔ لیکن حضور اکرم ﷺ کے وجود کی برکت سے
کفار مکہ باوجوداپنی سرکشی کے دنیا میں عذاب عظیم سے محفوظ ۔اﷲ تعالیٰ کا
فرمان ہے ۔ ترجمہ : اور اﷲ ہرگزعذاب نازل نہیں کرے گا ۔جب تک کہ آپ ﷺ ان
میں موجود ہیں ۔
ایک دفعہ صحابہ اکرم ؓ نے عرض کیا ۔یا رسول اﷲ ﷺ آپ مشرکین کے لئے بددعا
کریں ۔آپ ﷺ نے فرمایا’’میں لعنت کرنے والا نہیں ۔بلکہ میں تو صرف رحمت بنا
کر بھیجا گیا ہوں ‘‘۔حضرت طفیل بن عمر ودوسی ؓ کو رسول اکرم ﷺ نے قبیلہ دوس
میں دعوت اسلام کے لئے بھیجا ۔واپسی پر انھوں نے عرض کیا ’’قبیلہ دوس ہلاک
ہو گیا‘‘ کیونکہ ان لوگوں نے نافرمانی کی اور اطاعت سے انکار کر دیا۔لوگوں
کو گمان ہوا کہ یہ سن کر حضرت محمد ﷺ بددعا کریں گے مگر آپ ﷺ نے دعا کی ۔
جس کا ترجمہ یہ ہے ۔ اے اﷲ قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور ان کو دائرہ اسلام
میں لا۔غزوہ احد میں حضور سرور کونین ﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے ۔ آپ ﷺ
کا چہرہ اقدس خون سے تر تھا مگر مخالفین اسلام کے لئے آپ ﷺ کی زبان مبارک
پر دعائیہ الفاظ جاری تھے ۔
اسلام سے قبل معاشرے میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی ۔وپ ظلم و ستم کا شکار
تھیں ۔ حضرت محمد ﷺ نے انھیں عزت و احترام بخشا اور ان کے حقوق و فرائض کا
تعین کیا اور ان کو ماں ،بیٹی ،اور بیوی تینوں حیثیتوں سے عزت عطا کی ۔ آپ
ﷺ نے فرمایا۔ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے ۔ عرب کے لوگ ننگ و عاریا بھوک اور
افلاس کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل اور لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ۔آپ
ﷺ نے اس قبیح رسم کو ختم کرایا اور لڑکیوں کو گھر کی زینت اور گھر والوں کے
لئے باعث رحمت قرار دیا۔ آپ ﷺ یتیموں اور غریبوں کے لئے سہار ا بنے ۔آپ ﷺ
کی ذات گرامی سراپا رحمت ہے ۔ آپ ﷺ سے پہلے یتیموں اور بیواؤں کا کوئی والی
نہ تھا ۔ آپ ﷺ نے یتیموں کی نگہداشت کی فضلیت بیان کرتے ہوئے شہادت کی
انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا کر فرمایا۔ جس کا ترجمہ یہ ہے : میں اور
یتیم کی نگہداشت کرنے والا بہشت میں یوں ساتھ ساتھ ہوں گے ۔
حضرت اسماء ؓ بنت عمیس (زوجہ حضرت جعفر طیار ؓ)بیان کرتی ہیں کہ جس دن جعفر
ؓ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے حضرت محمد ﷺ میرے ہاں تشریف لائے او ر
فرمایاـ’’اسماء!جعفر کے بچوں کو بلاؤ‘‘ میں نے بچوں کو خدمت اقدس میں حاضر
کیا تو آپ ﷺ نے انھیں سینے سے لگا یا اور رو پڑے ۔میں نے عرض کیا یا رسول
اﷲ !شاید آپ کو جعفر کی طرف سے کچھ خبر آئی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’وہ آج
شہید ہو گئے ‘‘آپ ﷺ نے غلاموں کے ساتھ بڑ ا ظلم دیکھ کر یہ فرمایا کہ ان کے
ساتھ شفقت اور مہربانی سے سلوک کیا اور تاکید فرمائی اور حکم دیا کہ غلام
تمہارے بھائی ہیں ۔ جن کو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت بنایا ہے ۔ تم جو کھاؤ
ویسا ہی انھیں کھلاؤ اور جو تم خود پہنو ویسا ہی انھیں پہناؤ اور ان کی
طاقت سے زیادہ ان سے کام مت لو۔آپ ﷺ نے ہمیشہ بچوں پر نہایت شفقت فرماتے
تھے ۔جب آپ ﷺ کا گزر بچوں کے پاس سے ہوتا تو آپ ﷺ انھیں سلام کرتے اور رک
کر پیار کرتے ۔ایک روز آپ ﷺ حضرت حسن بن علی ؓ کو پیار کر رہے تھے کہ اقرع
بن حابس تمیمی جو آپ ﷺ کے پاس موجود تھے کہنے لگے ’’میرے دس لڑکے ہیں میں
نے کھبی کسی کو یوں پیار نہیں کیا ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے
’’جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘ حضرت محمد ﷺ کی شان رحمت
یہ تھی کہ آپ ﷺ انسان تو انسان جانوروں تک لے لئے باعث رحمت تھے ۔ آپ ؐ نے
ہمیشہ جانوروں سے بھی اچھے سلوک کی تاکید فرمائی ۔
حضرت محمد ﷺ کی تشریف آوری سے قبل معاشرے میں جنگ وجدال کا بازار گرم تھا ۔
لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ۔ حضور ﷺ نے انھیں درس اخوت و محبت
دیااور مختصر سے عرصے میں معاشرے کی کایا پلٹ کر کھ دی ۔آپ ﷺ نے اپنے اخلاق
و کردار سے دشمنوں کو دوست ،بیگانوں کو یگانہ اور خون کے پیاسوں کو بھائی
بھائی بنا دیا۔ اﷲ تعالیٰ کی اس نعمت کا ذکر اس آیت مبارکہ میں کیا گیا ہے
۔ سورۃ عمران 103ترجمہ : اور یاد کرو احسان اﷲ کا ہے اور پر جب کہ تھے تم
آپس میں دشمن ۔پھر الفت دی تمہارے دلوں میں ۔اب ہو گئے اس کے فضل سے بھائی
۔بلاشبہ اﷲ تعالیٰ کا فضل عظیم تھا ۔یہ نعمت جو صر ف اﷲ تعالیٰ کی عنایت ہی
سے حاصل ہوئی ۔دنیا کی بڑی سے بڑی دولت سے بھی حاصل نہیں ہو سکتی تھی ۔جیسا
کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔جس کا ترجمہ یہ ہے ۔ اور اﷲ نے الفت ڈالی ان کے
دلوں میں ۔اگر تم خرچ کر دیتے جو کچھ زمین میں ہے سارا نہ الفت ڈال سکتے ان
کے دلوں میں ،لیکن اﷲ نے الفت ڈالی ا ن میں ۔ بے شک وہ زور آور ہے حکمت
والا۔
حضور ﷺ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے مہاجریں مکہ و
انصار مدینہ کے درمیان رشتہ مواخاۃ قائم کر دیا ۔ ہر مہاجر کو کسی انصاری
کا دینی بھائی بنا دیا اور اس طرح اخوت و محبت کا ایسا مضبوط رشتہ قائم
فرمادیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔انصا ر کے ایثار کا یہ حال
تھا کہ وہ اپنے مکانات ،باغات اور کھیت آدھے آدھے بانٹ کر برضا ء ورغبت
اپنے دینی بھائیوں کو دے رہے تھے ۔دوسری طرف مہاجرین کی خودداری کا یہ عالم
تھا کہ وہ کہتے تھے ہمیں بازار کا راستہ دکھا دو ہم تجارت یا مزدوری کر کے
پیٹ پالیں گے ۔ یہ مواخات ارشاد ربانی ہے ۔ مسلمان جو ہیں سو بھائی بھائی
ہیں ۔
حضرت محمد ﷺ نے ہمیں جو قول و عمل سے مساوات کا جو درس دیا ہے وہ تاریخ
انسانی میں اپنی مثال آپ ہے ۔رسول اﷲ ﷺ کے نزیک امیر و غریب ،شاہ و گدا،آقا
و غلام سب برابر ہیں ۔آپ ﷺ نے خاندانی اور قبائلی فخر کو مٹایا ۔ذات پات
اور رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو ختم کر دیا ۔ آپ ؐ کے نزدیک سلمان فارسی
،بلال حبشی اور صہیب رومی ؓ کی قدرومنزلت قریش کے معززین سے کم نہ تھی ۔اس
موقع پر علامہ اقبال نے فرمایا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گے محمود وایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نوا ز
مسجد مسلمانوں کے لئے مساوات کی ایک عملی تربیت گاہ ہے اور نماز مساوات کا
بہترین مظہر ہے۔ خواہ امیر ہو یا غریب ،بڑا ہو یا چھوٹا ،سب ایک ہی مسجد
میں نماز ادا کرتے ہیں۔اسلام میں بزرگی کا انحصار ذات پات اور قبیلہ و
خاندارن کی بجائے نیکی اور تقویٰ پر ہے ۔
رسول اکرم ﷺ نے اس حقیقت کو حجتہ الوداع کے خطبے میں کچھ یوں بیان
فرمایا۔جس کا ترجمہ یہ ہے ۔تر جمہ : اے لوگو!تم سب کا پروردگار ایک ہے اور
تم سب کا باپ (آدم) ایک ہی ہے ۔ پس کوئی فضیلت نہیں عربی کو عجمی پر ،عجمی
کو عربی پر ،سرخ کو کالے پر ،کالے کو سرخ پر سوائے تقویٰ کے ۔مساوات کا
عملی مظاہرہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے ۔ کہ آپ ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد
بہن حضرت زینب ؓ کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید ؓ سے کر دی ۔ اس طرح
آپ ﷺ نے اپنے بیٹھنے کے لئے کوئی نمایاں جگہ مخصوص نہ کی بلکہ صحابہ اکرام
ؓ کے درمیان بے تکلفی سے بیٹھ جایا کرتے تھے ۔آپ ﷺ کا لباس عام مسلمانوں کے
لباس جیسا ہوتا تھا آپ ﷺ کا مکان نہایت سادہ اور چھوٹا سا تھا اور آپ ﷺ کی
غذا بھی بہت سادہ ہوتی تھی ۔ابولہب حضور ﷺ کا چچا تھا لیکن جب سے آپ ﷺ نے
تبلیغ دین شروع کی وہ اور اس کی بیوی ام جمیل دونوں آپ ﷺ کے دشمن ہو گئے
ابولہب نے یہ کہنا شروع کر دیا لوگو معازاﷲ یہ دیوانہ ہے اس کی باتوں پر
کان نہ دھرو۔ اس کی بیوی حضور ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھاتی تھی کئی مرتبہ
آپ ؐ کے تلوے لہولہان ہوگئے ۔مگر آپ نے نہایت صبر و استقلال کے ساتھ اس
تکلیف کو برداشت کیا ۔کبھی بددعا کے لئے ہاتھ نہ اٹھائے مگر اﷲ تعالیٰ نے
ان دونوں کی اس گستاخی پر ان کی مذمت میں سورۃ لہب نازل فرمائی ۔قرآن مجید
میں صبر کی بڑی فضلیت اور اہمیت بیان کی گئی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
ترجمہ اور جو مصیبت آپ کو پیش آئے اسے برداشت کریں ۔ یہ بڑے عزم کی بات ہے
۔
آپ ﷺ نے قریش کی شدید مخالفت کو دیکھ کر وادی طائف کا قصد کیا تاکہ وہاں کے
رہنے والوں کو دین اسلام کی دعوت دیں ۔ طائف کے سرداروں نے حضرت محمد ﷺ کی
دعوت پر لبیک کہنے کی بجائے آپ ؐ سے نہایت غیر مہذب اور ناشائستہ برتاؤ
کیا۔آپ ﷺ پر اتنے پتھر برسائے کہ آپ ﷺ کا جسم مبارک لہولہان ہو گیا۔ حتیٰ
کہ آپ ﷺ کے جوتے مبارک خون ست بھر گئے اس موقع پر جبریل امین تشریف لائے
اور انھوں نے عرض کیا ـ’’ اگر آپ حکم دیں تو طائف کے دونوں جانب کے پہاڑوں
کو ملادوں ۔تاکہ سرکش لوگ نیست و نابودہوجائیں ‘‘ مگر آپ ﷺ نے نہ صرف یہ کہ
انھیں معاف فرمایا بلکہ ان کے حق میں یہ دعا فرمائی ــ’’اے اﷲ ! ان کو
ہدایت عطا فرما‘‘ مکہ فتح کے موقع پر صحن کعبہ میں قریش مکہ کا اجتماع تھا
۔یہ وہ لوگ تھے جو آپ ﷺ کے قتل کے منصوبے بناتے رہے تھے ۔انھوں نے کتنے ہی
مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا اور حضرت محمد ﷺ اور مسلمانوں کو اتنی ازیتیں
پہنچائیں تھیں کہ انھیں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنا پڑی ۔اب یہ لوگ
خوف ودہشت کی تصویر بنے ہوئے تھے ۔ اور ڈر رہے تھے کہ نہ جانے اب ان سے
کتنا شدید انتقام لیا جائے گا ۔حضرت محمد ﷺ نے ان کی طرف توجہ کی اور
فرمایا’’اے گروہ قریش ! تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کرنے والا
ہوں ‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’ آپ نیکی کا برتاؤ کریں گے کیونکہ آپ خود
مہربان ہیں اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں ‘‘۔
آپ ﷺ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے : ’’کچھ الزام نہیں
تم پر آج ،بخشے اﷲ تم کو اور وہ ہے سب مہربانوں کا مہربان ــ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |