فکر مغرب اور اسلام

قارئین کبھی کبھی میں سوچوں میں ایسا مگن ہوتا ہوں کہ اکثر میری عقل جواب دے جاتی ہے اور ساتھ ہی میرا دماغ کہتا ہے بس بھائی بہت۔۔ممتاز مفتی صاحب کی کتاب تلاش پڑھ کر میں عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہو چکا ہوں بہت سے سوالات میرے سر میں دھندناتے پھرتے ہیں اکثر اوقات میری سوچیں جواب دے جاتیں ہیں۔قارئین آپ سب بخوبی واقف ہیں کہ یہ زمانہ اب بہت ایڈوانس ہو چکا ہے۔ہر کام آسان ہو گیا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی نے زندگی کو بہت سہل بنا دیا ہے۔مجھ جیسے ہی چند لوگ ہیں جو ایڈوانسمنٹ کے دور میں بھی ایڈوانس نہیں۔۔قارئین یہ ایڈوانسمنٹ مغرب والے لائے ہیں جی ہاں مغرب والے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے دھڑا دھڑ نئی ایجادات کرتے جا رہے ہیں۔مغرب والے دنیاوی علوم میں ہم سے بہت آگے ہیں اور ہم میں سے اکثریت اہل مغرب کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ہمارے نظریات ۔ہمارے خیالات۔ہمارا رہن سہن ۔بلکہ ہمارے معاشرے کی اکثریت ہی مغربی طرز عمل پر چل رہی ہے۔افسوس کے ہم دین اسلام اور قران کریم کے ہوتے ہوئے بھی تنگ نظر ہیں ہماری سوچ وسعت نہیں رکھتی ہم مغربوں کے مداح بن گئے ہیں۔یہی مغرب والے جو بناوٹی خوشیاں لیے خود کو بڑا تصور کرتے ہیں یہ ظاہری تور پر تو خوش ہیں مگر ان کے دلوں میں بے چینی ہے ان کے زہن کسی نہ کسی کشمکش میں مبتلا ہیں۔بے چینی اور بے سکونی نے ان کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا ہے اہل مغرب کے پاس ایک چیز کی کمی ہے اور اس کمی کو مغرب والے ڈھونڈتے پھرتے ہیں بٹکتے رہتے ہیں۔آپ سب جانتے ہیں کے اہل مغرب والے محنتی اور عیاش بھی ہیں مغرب والوں کو ایک مذہب کی تلاش ہے ا یسے مذہب کی جو ان کی مکمل رہنمائی کر سکے۔یہ کائنات بے معنی پھیلاؤ نہیں رکھتی ایک با مقصد تخلیق بن جاتی ہے زندگی محنت اور عیاشی کا میری گو راؤنڈ نہیں رہتی بلکہ با مقصد ہو جاتی ہے چیزیں اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں انسان ابھرتا ہے انسانی قدریں اہمیت حاصل کر لیتی ہیں انسانوں سے ایک بھائی چارے کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے آپ چاہے خدا کو سمجھیں یا نہ سمجھیں لیکن اسے مانے بغیر چارہ نہیں۔ اگر آپ اسے نہیں مانیں گے تو مادیت کا ایک جہنم آپ کو چاروں طرف سے گھیر لے گا مغرب والے اس مادی دنیا کے گرداب سے صرف ایک ہی صورت نکل سکتے ہیں خود پر ایک خدا ایک رہبر مسلط کر لیں اتنی سی بات سے عظیم فرق پڑ جاتا ہے میرے ساتھیو ہماری اکثریت بھی نام کی مسلمان ہے مگر اسی نام والے مسلمان ہونے کی بدولت بھی ہم فیض یاب ہو رہے ہیں۔ مغرب والے کہتے ہیں ہائیں یہ کیسا مذہب ہے جو مو جودہ دور میں بھی مکمل رہنمائی کرتا ہے اس ضمن میں فرانس کے پروفیسر جاء گارودی کا اعتراف بھی ملاحظہ ہو۔یہ واقعہ میں مفتی صاحب کی کتاب سے لے رہا ہوں۔

’’پروفیسر تقریبا بارہ سال فرانسیسی کیمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین رہے اور لکھتے ہیں کے میرا دور یورپ میں فکری انارکی اور عملی انتشار کا دور تھا ذاتی تور پر میرا عالم یہ تھا کہ مجھے ساری آسائشیں اور مسرتیں حاصل تھیں اس کے با وجود میں زہنی سکون اور اطمینان سے محروم تھا لگتا تھا جیسے میں کسی خلا میں بھی رہا ہوں جب میں اکیلا ہوتا تو سوچتا کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی میں پر سکوں کیوں نہیں ہوں؟ کیوں مضطرب ہوں؟ کس بات پر غمگین ہوں؟ میرے والدین دہریے تھے اور میں کیمونسٹ تھا میری زندگی میں سبھی کچھ تھا مگر خدا نہیں تھا سوچ سوچ کر میں نے محسوس کیا کہ میری ایسی کیفیت اسی وجہ سے تھی کے میں خدا کے تصور سے محروم تھا میں نے جانا کہ یہ دنیا خود بخود نہیں بنی انسان کے لیے خدا کا سہارا بنیادی ضرورت ہے اس لیے میں عیسائیت پر ایمان لے آیا اور کیتھولک نوجوانوں کی تنظیم کا ممبر بن گیاپھر ایک عجیب واقع ہوا دوسری جنگ عظیم میں قید کر لیا گیا اور مجھے الجزائر کے جنگلی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا کیمپ کمانڈر نے ایک روز حکم دیا کے مجھے گولی مار دی جائے انہوں نے مجھے دو مسلمان فوجیوں کے حوالے کر دیا ان دونوں فوجیوں نے کمانڈر کا حکم ماننے سے انکار کر دیا انہوں نے کہا ہمارا مذہب نہتے انسانوں پر گولی چلانے کی اجازت نہیں دیتاکسی نے انہیں سمجھایا احمقو کیا کر رہے ہو اگر کمانڈر کو پتا چل گیا کے تم نے اس کے حکم کی عدولی کی ہے تو وہ تمہارا کورٹ مارشل کردے گاانہوں نے کہا بے شک کورٹ مارشل کردے لیکن ہم اپنے اﷲ کی نا فرمانی نہیں کر سکتے پروفیسر کا کہنا ہے کے ان کی بات سن کر میں سشدر رہ گیا کیا دنیا میں کوئی ایسا مذہب بھی ہے جو انسانیت کی اقدار پر عمل کرنا بھی سکھاتا ہے جب مجھے پتا چلا کے یہ مذہب اسلام ہے تو میں نے دیوانہ وار اسلام کا مطالعہ شروع کر دیااور نتیجہ یہ ہوا کے میں نے اسلام قبول کر لیا‘‘

صرف پروفیسر گارودی کی ہی بات نہیں مغرب میں بے اطمینانی کی فضا عام ہے لوگوں کو تمام آسائشیں حاصل ہیں مگر ایک بے نام سا احساس محرومی ہے سکون ۔چین۔فرصت۔ فراغت اور قلبی سکون میسر نہیں ایسا لگتا ہے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے ایک بے منزل ومقصد دوڑ مغربی لوگ اپنی زندگی سے اکتا کر ایک مذہب کی اہمیت محسوس کرنے لگے ہیں مگر مغرب کے مروجہ مذہب کھوکھلے اور بے ہنگم ہیں وہ جدید انسان کے لیے مکمل اورقابل قبول نہیں ہیں پتہ نہیں کیسے یہودی رہبروں اور عیسائی پادریوں نے اسلام کے خلاف ایسا جال بچھایا ہے کہ اہل مغرب اسلام کو مذہب سمجھتے ہی نہیں وہ سمجھتے ہیں مسلمان ایک ظالم لٹیروں کا ٹولہ ہے جسکا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں یورپ ۔امریکہ اور دوسرے مسلمانوں کا متفقہ خیال ہے کہ موجودہ دور میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو ماڈرن مین کے لیے قابل قبول ہے باقی سب مذہب توہمات کا پلندہ ہیں جنہیں دور جدید میں قبول نہیں کیا جا سکتا اہل مغرب کے اسلام قبول کرنے میں صرف ایک رکاوٹ ہے وہ یہ کے انہیں اسلام کے متعلق کچھ علم نہیں وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایک ایسا مذہب جو عقل کو اہمیت دیتا ہے اور علم و تحقیق کو عبادت کا درجہ دیتا ہے ہمارے ہاں متعدد تعلیمی ادارے متعدد جماعتیں ہیں لیکن انکا تبلیغ کا انداز کچھ ایسا ہے جو نو جوانوں میں مثبت اثرپیدا کرنے کی بجائے ری ایکشن پیدا کرتا ہے امریکہ کے نو مسلم سلیمان مسفر کا کہنا ہے کہ’’مجھے اﷲ تعالی نے دین حق کی توفیق عطا فر مائی حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے باشندے کو اسلام کی صحیح صورت دکھانے کی ضرورت ہے آج تک مغرب کو اسلام کی صحیح صورت میں نہیں دکھایا گیا آج لوگ عیسائیت اور یہودیت کے مذاہب سے اکتا کر ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں انہیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کی دعوت حکمت اور جرئات سے دی جائے یہ امر یقینی ہے کے مغرب کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے‘‘قارئین کچھ ہی دنوں پہلے امریکا کے صدارتی امیدوار نے مسلمانوں کے خلاف باتیں کیں جسکا جواب امریکا میں موجود غیر مسلموں اور مسلموں نے دیا مارک زکر برگ جو فیس بک کے بانی ہیں تعارف کے محتاج نہیں اﷲ تعالی نے ان پر اپنی رحمت کے دروازے کھولے ہیں انہوں نے بھی مسلمانوں کے حق میں بیان دیا جو کے خوش آئین ہے مارک نے کچھ عرصہ پہلے اپنی بیٹی کی پیدائش کے موقع پر خوشی انوکھے طریقے سے منائی اس نے اپنی ۹۹ فیصد دولت خیرات کرنے کا اعلان کیا ایک نان مسلم ہوتے ہوئے بھی اس نے بہت عمدہ فیصلہ کیا اور مسلمان بزرگوں کی روایت پر مارک نے عمل کیا اگر ہمارے موجودہ کسی سیاستدان یا مولانا صاحب کے پاس اتنی رقم ہوتی تو اسکا سر غرور سے اوپر رہتا اور وہ ہم پر حکومت اور نا انصافیوں کے نئے طریقے ڈھونڈتا ہم لوگوں میں وہ جذبہ اور ایمان نہیں جو ایک مسلمان میں ہوتا ہے ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اور اس مسلمان ہونے کی بدولت ہی فیض یاب ہو رہے ہیں ہے کوئی ہمارا پاکستانی یا مسلم بھائی جو اپنی ساری رقم ضرورت مندوں پر نچھاور کردے اصل میں یہ اسلامی تعلیمات ہیں جو غیر مسلم اپنا رہے ہیں اور غیر مسلم دوسرے مذہبوں سے اکتا گئے ہیں وہ کوئی اسلام جیسا مذہب چاہتے ہیں ہمرے عالموں کو مارک جیسے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینی چاہیے اور مغرب جا کر اسلام کی تبلیغ کرنی چاہیے میری مولانہ طارق جمیل اور دوسرے عالموں سے گزارش ہے کے وہ مارک اور دوسرے غیر مسلموں کو مغرب جا کر اسلام کی دعوت دیں جرمنی کے ڈرک والڑ موسک لکھتے ہیں کے’’ میں نے ہر مذہب کا بغور مطالعہ کیا ہے لیکن اسلام کے سامنے دوسرے مذاہب کی حیثیت ایسی ہی ہے جو سورج کے سامنے ماچس کی تیلی کی میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ جو شخص بھی قرآن کو سمجھ کر پڑھے گا وہ انشاء اﷲ اسلام قبول کرے گا‘‘ اس کے بر عکس ہمارے ہاں اسلام کی اجارہ داری ان پڑھوں نے سنبھال رکھی ہے جو دھڑا دھڑ دینی علوم رٹتے ہیں اور دوسرے علوم سے بھی با خبر ہیں۔۔
کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد
جاتا ہے جدھر بندہ حق تو بھی ادھر جا
Ch Zulqarnain Hundal
About the Author: Ch Zulqarnain Hundal Read More Articles by Ch Zulqarnain Hundal: 129 Articles with 107708 views A Young Pakistani Columnist, Blogger, Poet, And Engineer
Member Pakistan Engineering Council
C. E. O Voice Of Society
Contact Number 03424652269
.. View More