ذہنی مریض

 طبی سائینس میں مختلف امراض پر تشخیص اورتحقیق کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے لیکن جن امراض سے دوسروں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو تو ان پر تشویش اور تحقیق کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے لیکن ایک ایسا مرض جو کسی ایک شخص میں موجود ہواور وہ پورے معاشرے کو متاثر کرے تو اس کے نتائج کتنے خطرناک ہوں گے آپ اس کا اندازہ لگایئے ہم بات آگے بڑھاتے ہیں ۔نفسیاتی امراض ایسے ہیں جو صرف مبتلا مریض کو ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ اگر مرض میں مبتلا شخص کسی ایسی جگہ پہنچ چکا ہو جہاں سے اس نے ملک و قوم کی قیادت کرنی ہو تو اسکا ایک جملہ،ایک حرکت،ایک عمل یا ایک فیصلہ قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے انہیں ترقی سے تنزلی کی جانب دھکیل سکتا ہے ۔ماضی میں کئی مثالیں تلاش کی جاسکتی ہیں لیکن سب سے پہلے ہم ہٹلر کی مثال کو سامنے رکھتے ہیں جس نے ایک عظیم قوم کو جنگی ذہنیت کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ وقت کے پہیہ نے ہٹلر کے بعد ایسے ذہنی بیماروں کو آگے بڑھنے سے روک دیا بلکہ ایسے قبیل کے کئی ذہنی مریض آج بھی دنیا کو جنگ و جہل میں مبتلا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ان پر آنے سے پہلے یہ جان لیجئے کہ ذہنی مریض ہر وقت ہر لمحے اپنے آپ کو دُرست اور ساری دُنیا کو غلط ثابت کرنے پر تُلا رہتا ہے خواہ اس کی ہٹ دھرمی کے شکار اس کے اپنے گھر کے افراد ہوں،دوست و احباب ہوں ،ہسپتال کا عملہ ہویا ساری دُنیا ہو اُس کے نزدیک خود کے علاوہ تمام بشرغلط سو چ رکھتی ہے۔جس کے نتائج اب تک یہ ہی ہوتے آئے ہیں کہ لمحہ بہ لمحہ وہ اپنی قدر کھوتا چلا جاتا ہے اور آخر میں وہ تنہا رہ جاتا ہے لیکن ا گر قومیں ایسے مریضوں کے سحر میں مبتلا ہوجائیں تو تباہی و بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہیں اور اگر قومیں شعوری طور پر پختہ ہوں تو اپنے مستقبل کو تباہی سے بچا لیتی ہیں حالیہ دنوں اور گذشتہ مہینوں میں دنیا نے علم و عقل کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قوموں کو بچایا بلکہ دنیا کو بھی بچا لیا۔ یہاں میں تذکرہ کرنا چاہوں گا دنیا کے چند ذہنی مریضوں کا جو دنیا میں اہم شخصیات کی صفوں میں موجود ہیں ان شخصیات نے سیاست کی تاریخ میں گزشتہ دنوں کچھ ایسے اعمال کئے اور بیانات داغے جس کی بنیاد پر دنیا کے سیاسی کاریگروں نے اُنھیں ذہنی مریض قرار دیا ان کی بیمار سوچ کے بیان کے بعد ان کے حمائتیوں نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا جس کے بعد ان کے کئے گئے سرطانی بیانات کی خوب سرجری کی گئی۔

سب سے پہلے میں دُنیا کے سب سے بڑے ذہنی مریض بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا ذکر کرونگا جس کی تمام صلاحیتوں کا اور اس کی تمام سوچوں کا منبہ صرف اور صرف پاکستان کو دہشت گر د ملک قرار د دینا اور ہندوستان سے مسلمانوں کا خاتمہ تھا اس تعصب پرست ذہنی مریض نے اپنی تمام سیاسی کیریر کو بنیاد پرستی تک محدود رکھا وزیر اعلیٰ گجرات سے لیکر وزیر اعظم بننے تک اس نے مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک رکھا اسکی دنیا اور سیاسی اوراق شاہد ہیں کہ پورا ہندوستان ایک طرف اور مودی کی سوچ ایک طرف کہ" ہندوستان صرف ہندووں کا ملک ہے "۔اپنی علیحدہ سوچ رکھنے والے کو جب طاقت میسر آتی ہے تو طاقت کے نشے میں وہ اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والے پر عتاب بن کر نازل ہوتا ہے پھر وہ پستی کی کتنی گہرائی میں چلا جاتا ہے اس کا اندازہ وہ خود بھی نہیں کر پاتا کیونکہ وہ اپنے حریف کے حوصلے آزمانے کی خواہش میں بس ایک جنون کی جانب گامزن ہو جاتا ہے مودی کی اسی خواہش نے کئی مسلمانوں کی جانیں لے لیں ہندوستان کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ،لیکن اس ذہنی مریض کی خواہش کوشاعروں،دانش وروں ،ادیبوں،فن کاروں،اور ان کے بعد بہاریوں نے پنپنے نہیں دیا خود مودی کے حمایتی مودی کو ذہنی مریض قرار دینے لگے ایک وقت ایسا آیا جب مودی کو اپنی ہی سو چ کے متعلق سوچنا پڑا۔

امریکی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا ٹرمپ کارڈ استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف جو اشتعال انگیزی اورانتہا پسندی سے بھرپور تقریر کی اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی بیمارہونے کی عکاسی کی۔ اپنی تقریر میں امریکہ کے تمام مساجد کو مسمار کرنے اور مسلمانوں پر امریکہ پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا لیکن امریکہ میں ہی اُس کو بے حد تنقید کا سامنا کرنا پڑا ڈیموکریٹس کی جانب سے نامزد صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہیں ،دیگر کئی حلقوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو "فاترالعقل"بھی قرار دیا ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اپنے تئیں ہیجان انگیز تقریر کر کے انتخابات سے قبل ووٹرز کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی بھونڈی کوشش کی تھی لیکن اس بھونڈی کوشش نے اُس کے بھونڈے بیمار ذہن کے حامل شخص ہونے کی جانب اشارہ کر دیا اور اسی کوشش نے اُس کو سیاسی حلقوں میں تنہا کر دیا ۔بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کے قدم ایک نو وارد بحران کی جانب بڑھنے سے رُک گئے۔

پاکستان میں اس قسم کے ذہنی بیماروں کی کھیپ موجود ہے جس کی لا تعداد مثالیں ہیں اُن میں سے چند مثالیں گوش گزار کرنا چاہوں گا ، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ فرماتے تھے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی ،سندھ کے وزیر اعلیٰ نشے کی حالت میں مرنے والوں کو شہید قرار دیتے ہیں ،پنجاب کے وزیر اعلیٰ چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اور کرپشن کرنے والوں کا پیٹ پھاڑ کر پیسے وصول کرنے کا عندیہ دیتے ہیں،صدر پاکستان علماء سے سود میں گنجائش نکالنے کا میسج دیتے ہیں بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اﷲ کے مصداق ڈسکہ کے ایک نو منتخب کونسلر نے ایک میاں بیوی پر سر بازار ایک ستون سے باندھ کر تشدد کروایا اس فیملی کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے حالیہ بلدیا تی انتخاب میں اُس ظالم کونسلر کو ووٹ نہیں دیا تھا ایک سینئر سیاستدان بلندی پر چڑھ کر مارو اور مر جاو کا درس دیتے ہیں یہ سب کیا ہے ؟ ان تمام باتوں سے آپ خود نتیجہ اخذ کرلیں ،گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ نے کرپشن کی وکالت کرتے ہوئے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور سے کرپشن کو جوڑ دیا ایک ایسے شخص کی جانب انگلی اُٹھائی جن کی شہادت کے بعد انکے اکاونٹ میں چند روپوں کے سواکچھ نہ مل سکا جب کہ لیاقت علی خان نے اپنی نوابی جائیداد اور اباواجداد کو پاکستان کی خاطر چھوڑا۔اور اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ کرپشن لیاقت علی خان کے زمانے سے ہو رہی ہے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کیوں کر رکھی تھیں ؟ اگرلیاقت علی خان کے دور سے کرپشن ہو رہی تھی تو کیا موجودہ دور میں کرپشن جائز ہو گئی ؟ ان سوالو ں کے جواب کی ہمیں بھی تلاش تھی جس کا بہترین کھوجی تو میڈیا تھا لیکن المیہ یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا یا پرنٹ میڈیا کسی نے بھی وزیر اعلیٰ سندھ کی اس بات کا نوٹس تک نہیں لیا جب کہ الیکٹرونک میڈیا ملکی یا غیر ملکی متنازعہ بیان کو بار بار نشر کر کے اُس بیان کی خوب سرجری کرتا ہے ٹاک شوز میں ہر سیاسی پارٹی کے شرکاء متنازعہ بیان پر اپنی اور اپنی پارٹی کا موقف بیان کرتے ہیں لیکن افسوس لیاقت علی خان کے دور سے کرپشن کے اس بیان پر کسی بھی میڈیا نے اس کو غلط یا درست ثابت کرنے کی جسارت نہیں کی وزیر اعلیٰ سندھ کے اس بیان کے بعد ہم توقع کر رہے تھے کہ ہم جیسے ناقص العلم افراد کی رہنمائی میڈیا کے ذریعے کوئی توکرے گا۔ لیکن میڈیا پر سیاسی اکابرین،دانشوروں،سول سوسائیٹی کی خاموشی ہماری سمجھ میں نہیں آ سکی وزیر اعلیٰ سندھ کی کرپشن کو جائز ثابت کرنے کی کوشش، لیاقت علی خان کی جانب تنقیدی بیان اور میڈیا کی جانب سے مصلحتاً خاموشی کے باعث جو بات ہماری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم ذہنی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں ہم سب ذہنی مریض ہیں۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91592 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More