آئے موسم رنگیلے، سہانے
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
ہر آرٹ زندگی کو بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے
لیکن زندگی ہے کہ کسی دائرے اور حصار میں سمانے سے سراسر انکار کئے جا رہی
ہے۔ بلکہ آرٹسٹوں اور ان کے شاہکار فن پاروں کا مذاق آڑاتے ہوئے ایک چنچل
حسینہ کی طرح یوں بے رخی سے گزر جاتی ہے کہ اربابِ فن ہاتھ ملتے اور منہ
تکتے رہ جاتے ہیں۔آرٹ جاننے میں بھی تو زمانے لگ جاتے ہیں اور آرٹ ہے کہ
پھر بھی نہیں آتی۔ کیا کیا جائے۔
اسی آرٹ کا ایک رسیا چھانگا مانگا گارڈن کے گیٹ سے چند قدم باہر بیٹھ کر
اپنی پرانی بانسری کے ساتھ مست ہو کر یوں سر الاپتا ہے کہ سننے والے اپنے
اوپر ہونے والے طلسماتی اثر سے کسی طور بھی بچ نہیں پاتے۔بابا برکت ہر سہ
پہر کو ادھر آجاتا ہے اور پھر گہری شام تک اس کا کام بس اپنی مرلی کو اپنے
عمر رسیدہ ہونٹوں میں یوں دبائے رکھنا ہے کہ جیسے اس کی جوانی رستہ بھول کر
اس کے پاس پھر سے آ گئی ہو اور وہ اسے کسی طور پھر سے دنیا کے ویرانوں اور
بازاروں میں کھو جانے کی اجازت نہ دینا چاہتا ہو۔ ہاں بات تو ٹھیک ہے کہ
جوانی اگر رستہ بھول کر واپس آجائے تو اسے جانے کیوں دیا جائے۔بابا برکت
اپنے آس پاس کے ماحول سے کٹ کر یوں اپنی بانسری کی تانوں میں کھو جاتا کہ
جیسے اس کی بانسری اپنے اندر بہت سے راز رکھتی ہو جنہیں وہ زمانے کی نگاہوں
سے پوشیدہ رکھنا چاہتی ہو لیکن اس میں انہیں اپنے دل کے گورستان میں دفن
کرنا بھی مشکل ہو ۔کیوں کہ وہ دفن ہو کر بھی بھوتوں کی طرح پھر سے اس کے
سامنے منڈلانے لگتے ہوں تو پھر ان کو رام کرنے اور اپنا دل بہلانے کا ایک
ہی حربہ یہ رہ جاتا ہے کہ ان رازوں کو الفاظ کی عریانی سے چھپا کر ساز کی
سر بستگی میں ہواؤں میں بکھرنے دیا جائے، جن سے دل کو سکون بھی ملے اور راز
بھی سرِ عام نہیں آئے ۔
یہ بات بھی تو سمجھ نہیں آتی کہ بابا برکت ہر شام یہی سُرہی کیوں الاپتا
ہے: آئے موسم رنگیلے سہانے۔۔۔۔جیا نہیں مانے۔۔۔۔تو چھٹی لء کے آ جا
بالماں۔۔۔۔
یہ گیت تو بہت پرانا ہو چکا ہے ۔ اب تو نوجوان ان پرانے گیتوں سے بہت دور
جا چکے ہیں۔وہ تو نئی نئی دھنوں پر گائے جانے والے گیتوں سے سارا دن دل
بہلاتے ہیں۔ لیکن بابا برکت اسی دھن کو اپنی بانسری میں ڈھالتا ہے اور اس
ساز میں اتنا سوز بھرتا ہے کہ وہ سوز ابھر کر دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں
لے لیتا ہے۔آخر اس میں کوئی تو بات ہے۔ کوئی تو راز ہے۔ کسی بھی آرٹ میں
سوز بھرنے کے لئے اس میں اپنی روح کو اتارنا ضروری ہوتا ہے ورنہ آرٹ اور
آرٹسٹ علیحدہ علیحدہ ہی رہ جا تے ہیں۔اپنی روح اپنے فن میں اتارنے کا مطلب
جزوقتی موت بھی ہے۔ جو آرٹسٹ یہ مرنا جانتا ہے اسی کے فن کو زندگی نصیب
ہوتی ہے۔ ورنہ اس کی آرٹ، آرٹسٹ سے پہلے یا بعد میں ضرور مر جاتی ہے۔
بابا برکت چھنگا مانگا کے مالیوں میں سے تھا کچھ سال پہلے وہ ریٹائر ہوا
تھا ،اس دن سے آج تک کافی سال بیت گئے تھے۔ اس کا روزانہ اس گارڈن کے گیٹ
کے باہر اپنے فن کا اظہار ایک معمول بن چکا تھا۔کوئی دن نہیں گزرتا تھا کہ
وہ ادھر کی راہ نہ لے۔ اس کا ادھر سے جانے کو دل ہی نہ کرتا تھا۔ یہاں کے
درختوں کو اوہ اپنے بچوں کی طرح پیار کرتا رہا تھا۔ بہت سارے درخت اور پودے
اور جھاڑیاں اس کے اپنے ہا تھوں کے لگے ہوئے تھے۔ بہت سے رستے اور کیاریاں
اس نے اپنے گھر کی طرح بہت محبت سے سجائے تھے۔ اس سادہ لوح کو اپنے اور
سرکاری کام میں فرق سمجھ ہی نہیں آیا تھا، جیسا کہ بہت سے ذہین اور اعلیٰ
تعلیم یافتہ لوگوں کو آتا ہے۔ یہ فرق اسے اب بھی سمجھ نہیں آیا تھا جب کہ
وہ ریٹائر ہو چکا تھا۔ یہ گارڈن اس سے محبت کرتا تھا اور اس کو یہ گارڈن دل
و جان یہاں تک کہ اپنے گھر بار سے بھی زیادہ پسند تھا۔ اتنے سادہ لوگ بھی
ہوتے ہیں لیکن وہ اکثر زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔
بابا برکت لبِ سڑک ایک جھونپڑی میں قیام پذیر تھا ۔ اس کے ساتھ بس اس کی
تنہائی رہا کرتی تھی۔ وہ بہت صدیاں پہلے کا انسا ن دکھائی دیتا تھا۔ اسے
دنیا میں ہونے والی ترقی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔اس کا گزارہ اپنی پنشن کی
رقم پر آسانی سے ہو رہا تھا۔ دن میں دوچار کپ چائے اور ایک وقت کی روٹی، اس
کے چوبیس گھنٹے گزارنے کے لئے کافی ہوتے۔ آٹھ پہروں میں سے دو پہر تو اس نے
چھانگا مانگا کے اس گیٹ سے باہر کے پرانے درختوں کو دیئے ہوئے تھے۔یہ درخت
اس کے بچپن کے ’بیلی ‘ تھے۔ ان سے اس کا پیار بہت پرانا تھا ۔ یہاں اس کی
یادوں کا خزانہ دفن تھا اپنے خزانوں سے کوئی دور جاتا ہے ۔ ہرگز نہیں۔ یہ
یادیں ہی اس کا سب کچھ تھیں۔ یہی یادیں اس کی بانسری کی تانیں اور اس کے
گلے کے سُر تھے۔ یہی یادیں اس کا اثاثہ اور کمائی تھیں۔
یہ یادیں کتنی صدیاں پرانی تھیں لیکن پھر بھی اتنی ترو تازہ تھیں جیسے کل
کی نہیں بلکہ آج ہی کی ہوں۔بلکہ ابھی کی ہوں ۔ بلکہ یادیں نہیں حقیقت ہو۔
جو ذہن اتنا سفر طے کر لے وہ حال میں رہنا کیوں پسند کر ے گا ۔ انسان کا
ذہن اس جہان سے بھی بڑا جہان رکھتا ہے۔اس جہان سے تو ہمارا دل مطمئن نہیں
ہوتا لیکن یادوں کا جہان ہمیں کوئی کمی کجی رہنے نہیں دیتا۔یہ یادیں بابا
برکت کے بچپن اور جونی کی تھیں جنہیں وہ اپنی آنکھو ں سے پل بھر کے لئے بھی
دور نہیں ہونے دیتا۔ وہ صبح وشام ان ہی یادوں کے گھروندے میں جو کہ مکڑے کے
گھر سے بھی زیادہ نازک ہوتا ہے رہا کرتا کیوں کہ اسے کسی اور گھر میں جانے
کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔وہ خود بھی بھی ایک مالی کا بیٹا تھا اور اکلوتا
ہی تھا۔وہ اپنے ماں باپ کی محبت کا لا شریک مالک اور وارث تھا۔ اس کے ماں
باپ کا سب کچھ اس کا اور اس کا سب کچھ اس کے والدین کا تھا۔اس کے آباؤ اجدا
د چھانگا مانگا کے جنگل کے لگانے والوں میں سے تھے۔ اس کا باپ بھی ساری عمر
اس باغ کا مالی رہا ۔ اس کی ماں کے رشتے دار بھی اسی باغ سے منسلک تھے۔ ان
سب کو اس باغ سے یوں محبت تھی جیسے کسی کو اپنی ریاست سے ہوتی ہے۔لیکن
آہستہ آہستہ ایسے لوگ اس گارڈن کی ملازمت میں آتے جا رہے تھے جن کو ذاتی
اور سرکاری کام ور املاک میں فرق کا بہت اچھی طرح علم تھا یہ پڑھے لکھے لوگ
تھے جو زندگی کو ترقی دینے کے مقصد سے ملازمتیں اختیار کر رہے تھے۔افسران
بھی ایسے ہی آ رہے تھے جو ذاتی اور سرکاری کاموں میں بہت زیادہ فرق کرنے
لگے تھے۔ان کی تعلیم نے انہیں ترقی کرنا سکھا دیا تھا۔ جنگل سے لکڑی بڑی
مقدار میں غائب ہونے لگی تھی۔ چھوٹے ملازم بھی اپنی صحت کا اچھا خیال رکھنے
لگے تھے اور اکثر کے پاس موٹر سائیکلیں آتی جا رہی تھیں اور وہ بھی اپنے
افسروں کو خوش کرنے کے طریقے جان چکے تھے۔خیر یہ باتیں تو ہر شعبے میں ہوتی
ہیں۔
اچھا ہی ہوتا ہے کہ جس چیز کو چھوڑ دینا ہو اس کی محبت بھی کم سے کم ہوتی
جائے۔ لیکن برکت کی اس گارڈن سے محبت کم ہونے والی نہیں تھی۔وہ تو جیسے ازل
ہی سے اس کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔کسی بھی چیز سے محبت ، انسانی محبت
کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ ہر محبت کی بنیاد میں انسان ہی ملے گا ۔ اکیلا انسان
تو جنت سے بھی اکتا گیا تھا۔ وہ اور کہاں دل بہلائے گا۔دیوانے اور نشئی اگر
تنہائی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو دانش ور اور زیرک کیسے اٹھا سکتے ہیں۔
ہاں برکت کی اس باغ سے محبت میں کچھ انسانی محبتیں بھی شامل تھیں ۔ اور در
اصل یہ گارڈن تو ایک بہانہ تھا اصل تو وہ لوگ تھے جن سے اس کے جذبات کا
گہرا ملن ورتن تھا۔ان لوگوں میں سب سے پہلے برکت کے والدین تھے جو اپنی
ساری محبت برکت کو دے کر بھی یہی سمجھتے تھے کہ ابھی وہ اسے کچھ نہیں دے
سکے ۔ اور ہر وقت یہی سوچتے کہ وہ اسے اور کیا دیں۔ محبت مکمل ہونے والی
چیز ہی نہیں۔ جہاں یہ مکمل ہوتی ہے وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا استحکام اس
کے جاری رہنے میں ہے۔ اور پھر ماں ، باپ کی فطرتی محبت کیسے اختتام پذیر ہو
سکتی ہے۔ اس محبت کے ہوتے ہوئے برکت کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا
تھا۔ حتیٰ کہ اس کی شادی بھی اس کے والدین کی معاونت سے اتنے اچھے اور آسان
اندازسے ہو گئی کہ کبھی کبھی اسے خود بھی یقین نہ آتا کہ اس کی زندگی اس
دنیا کی ہے یا کہ وہ کسی جنت میں رہتا ہے جہاں کسی غم کو داخل ہونے کی
اجازت نہیں ۔
اس کی شادی اس کی بچپن کی ہمجولی ’باوی‘ کے ساتھ ہوئی تھی۔ وہ بھی ایک مالی
اور مالن کی بیٹی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اس گارڈن میں آیا کرتی تھی۔
وہ دونوں اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ بچپن کی کھیلوں میں اتنی مٹھاس تھی کہ اسے
’باوی‘ سے محبت ہی ہو گئی۔ کچھ بڑے ہوئے تو ا ن کو اس محبت کا واضح طور پر
ادراک ہوا کہ ان کا بچپن ان کو کیا تحفہ دے کر روانہ ہوا ہے۔دونوں ایک
دوسرے کو یوں چاہنے لگے تھے جیسے پھول اور خوشبو ۔ کون پھول اور کون خوش بو
۔ اس کا فرق مشکل تھا۔ دونوں کے ماں باپ اس بات کو بھانپ چکے تھے۔ لیکن وہ
بھی ان کی محبت میں رکاوٹ بننے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ دنیا اتفاقات اور
امکانات کا مرکز ہے۔ یہاں کسی بھی وقت، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اتفاق سے باوی
بھی اکلوتی تھی۔ اور اکلوتے چہیتے تو ہوتے ہی ہیں۔ان کی اس شادی پر اس
گارڈن کا ایک ایک درخت خو شی سے جھوم رہا تھا اور پھول کلیاں مسکرا کر ان
کے لئے ہاتھ اٹھا کر آسمان سے دعا مانگ رہے تھے۔ان کا بچپن اسی گارڈن کی
کیاریوں میں سما یا ہوا تھا ۔ وہ یہاں کے ایک ایک گوشے سے یوں واقف تھے
جیسے کوئی اپنے گھر کی چاردیواری سے آشنا ہوتا ہے۔ان دنو ں یہ گیت ہر کسی
کی زبان پر محوِ گردان رہتا تھا:
آئے موسم رنگیلے، سہانے۔۔۔۔۔۔
اگرچہ برکت اور باوی کو گیتوں سے زیادہ دلچسپی نہ تھی، لیکن وہ بھی اسی گیت
کو اکثر دھرایا کرتے تھے۔ ان کی زندگی تو خوشیوں میں یوں جھوم رہی تھی جیسے
بادِ بہاری میں گلاب جھومتے ہیں۔
ایسا بھی بار ہا ہوتا ہے کہ جس کا دشمن آسماں نہ ہو اس کی دشمن زمیں بن
جاتی ہے۔لیکن نہ جانے کون ان بنے بنائے آشیانوں کو برباد کرنے میں اتنا
ظالم ہوتا ہے کہ اسے کوئی خوشی ، خوش نہیں آتی۔اور وہ ایسا کر کے ہی دم
لیتا ہے۔اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بہت اچھا موسم ہوتا ہے کہ یک دم منہ
زور طوفان چنگاڑتے ہوئے چلے آتے ہیں اور آن کی آن میں سکون کی بساط لپیٹ کے
چلے جاتے ہیں۔قدرت کی فیصلے ، قدرت ہی بہتر جانتی ہے۔
ابھی شادی کو چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک رات اچانک ایک چیخ نے سارے گھر کو
پریشان کر دیا ۔ یہ چیخ برکت کی نئی نولی دلہن باوی کی تھی جسے ایک زہریلا
سانپ ڈس کر کہیں غائب ہو گیا تھا۔ رات کے اندھیرے میں ان کی چھونپڑی میں
ایک ناگ گھس آیا تھا۔ شاید یہ وہی تھا جس کے ایک ساتھی کو کچھ سال پہلے
برکت اور اس کے باپ نے مل کر ختم کر دیا تھا تا کہ وہ کسی کا نقصان نہ کر
سکے۔ سنا ہے کہ سانپ بھی بدلہ لینے میں ادھار نہیں رکھتے۔ یا شاید یہ بھی
قدرت کے حادثات میں سے ایک حادثہ تھا۔ لیکن برکت کا گھر تو برباد ہو ہی چکا
تھا۔ باوی کو بچانے کی جہاں تک ہو سکتی تھی کوشش کی گئی۔ لیکن اسے جدا ہونا
ہی تھا۔ آسماں کی بجائے زمین نے ان سے دشمن کا کردار ادا کیا تھا۔
باوی کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد برکت کے پاس صرف اور صرف اس کی یادیں
ہی رہ گئی تھیں۔ چند سال بعد تک اس کے والدین اسے نئی شادی کا مشورہ دیتے
رہے لیکن برکت کے دل میں اب کسی دوسرے انسان کے رہنے کی جگہ باقی نہیں بچی
تھی۔ ہر گوشے اور کونے میں باوی کی یادیں ہی سکون پذیر تھیں۔ برکت کے ماں
باپ سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے آہستہ آہستہ ملکِ عدم کو رختِ سفر
باندھتے گئے۔ برکت کی جوانی بھی تیزی سے بڑھاپے کی گھاٹی اترتی گئی۔ جس طرح
سردیوں کی دوپہر کھڑی کھڑی چلی جاتی ہے، اس کی جوانی بھی آتے آتے ہی جانے
لگی تھی۔ لیکن اسے جوانی کے ڈھلنے یا بڑھاپے کے آنے کا کوئی ملال نہ تھا۔
وہ تو شاید جلد ہی اس جہاں سے کوچ کرناچاہتا تھا ۔ لیکن زندگی کی دن پورے
کرنا بھی بعض اوقات لازم ہو جاتا ہے۔
باوی کی اچانک ہلاکت سے اس کے ماں باپ کے دل اس قدر مجروح ہوئے تھے کہ
انہوں نے یہاں رہنا اپنے لئے ناممکن پایا اور وہ جلد ہی یہاں سے بہت دور
چلے گئے۔ اور اب ان کا برکت سے بھی کوئی رابطہ نہ تھا ۔ برکت دنیا میں جلد
ہی تنہا سا ہو گیا تھا۔ اسے بچپن سے اب تک کبھی تنہائی کا سامنا نہیں کرنا
پڑا تھا۔ لیکن یک لخت ایسی آندھی چلی کہ اس کا سب کچھ اڑا کر لے گئی۔بس اسے
تنہائی کی حویلی میں چھوڑ گئی ۔ اسے کبھی کبھی تو یقین ہی نہ آتا کہ یہ سب
کچھ اس طرح اچانک بھی ہو سکتا ہے۔لیکن یہ تو ہو چکا تھا۔ اس کے ہو سکنے پر
غور کرنے کا تو کچھ بھی فائدہ نہ تھا۔ لیکن ایک چیز کسی سے کوئی نہیں چھین
سکتا ۔ اور وہ چیز ہی اب برکت کے پاس رہ گئی تھی اور اسی کاا سے سہارا تھا۔
باوی کو بانسری کی تان بہت پسند تھی۔ برکت نے کئی بار اسے بانسری کی تانیں
سنائیں تھیں۔ لیکن اب بانسری اور اسے بجانے والاتو تھا لیکن اسے سننے والے
وہ محبت بھرے کان کہیں کھو چکے تھے۔ کچھ عرصہ تک تو برکت باوی کی قبر پر جا
جا کے اپنے جذبات کی ادھوری تسکین کرتارہا لیکن ظالم زمین کو یہ بھی گوارا
نہ ہوا ۔ شدیدگرمی میں سیلابوں نے جہاں شہروں، پلوں اور بہت سی چیزوں کو
مسمار کیا وہاں ساتھ والے گاؤں کا قبرستان جہاں باوی کی قبر تھی وہ بھی
طوفان کی بے رحمی کا نشانہ بننے سے اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھ سکا ۔اب برکت
بیچارہ اس کی قبر کی نشانی سے بھی محروم ہو گیا۔ وہ قبر اب برکت کے دل کے
گورستان میں بن چکی تھی۔ اب اسے کسی قبرستان جانے کی ضرورت نہ تھی۔
لیکن وہ اپنی باوی کی یاد سے پھر بھی غافل رہ نہیں سکتا تھا۔ اس نے گارڈن
میں کام کرتے کرتے کئی بار یوں محسوس کیا کہ باوی اس کے کہیں آس پاس ہی ہے۔
کبھی تو وہ دیوانوں کی طرح اپنا کام چھوڑ کر کسی جھاڑی یا درخت کے پیچھے جا
کے یوں دیکھنے لگتا جیسے اپنی کوئی کھوئی ہوئیچیز ڈھونڈ رہا ہو۔ چلتے چلتے
کتنے ہی سال چلے گئے اور برکت کے بال سیاہی سے سفیدی میں ڈھل گئے جیسے رات
کے بعد صبح ہو جاتی ہے۔ اس کا چہرہ جھریوں کی آرام گاہ بن چکا تھا۔ اور اس
کا دل بھی یادوں کے قبرستان میں تبدیل ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے زندہ رہنے کا
حوصلہ بھی کمال تھا۔بعض کو موت مار دیتی ہے اور بعد کو زندگی مار دیتی ہے
لیکن موت زندہ رکھتی ہے۔ برکت جو کہ اب آہستہ آہستہ بابابرکت بن چکا تھا
۔جن انسانوں میں سے تھا جنہیں موت زندہ رکھتی ہے،زندگی کو ان کی کوئی ضرورت
نہیں ہوتی۔
ہر کسی کو زندگی کا کوئی نہ کوئی نشہ درکار ہوتا ہے ، تھوڑا یا زیادہ ۔
بابا برکت کا نشہ اس کی یادوں کی بارات کو بلانے والی بانسری تھی۔ جسے وہ
ہر وقت اپنے پاس رکھتا۔ اس کی زندگی بس ایک تان اور ایک سر تک محدود ہو کر
رہ گئی تھی۔ اور وہ سُر تھی: آئے موسم رنگیلے، سہانے۔۔۔لیکن یہ موسم اس کی
زندگی میں بہت کم مدت کے لئے ہی آئے تھے۔ لیکن ایسے آئے تھے کہ پھر دنیا سے
تو چلے گئے لیکن برباددل کی دنیا میں ہمیشہ کے لئے آبادہو گئے۔ اب وہ وہاں
سے بابا برکت کے مر جانے سے بھی نہیں نکلیں گے۔ کیوں کہ پھر ہی تو وہ
دوبارہ رنگیلے اور سہانے ہوں گے جب اس کی مدتوں سے بچھڑی باوی دوبارہ مل
جائے گی۔ ویسے تو وہ اسے ہر روز ہی ملنے آتی تھی۔ وہ جیسے ہی اس بڑے سے
شیشم کے درخت کے نیچے دوپہر کے ڈھلتے ہی جا کر یہ دھن بجاتا : آئے موسم
رنگیلے سہانے۔۔۔۔۔۔ کوئی اس کے پاس آ کر براجمان ہو جاتا ۔ اسی لئے تو پھر
بابا برکت پھر نظر اٹھا کر دیکھتا ہی نہ کہ کون آیا اور کون گیا کیوں کہ اس
کے دل کی مراد تو اسے تصور کی آنکھ میں حقیقت بن کر نظر آ رہی ہوتی اور اس
نے کسے دیکھنا تھا۔
کچھ لو گ اسے فقیر ، بھکاری سمجھ کر چند روپے دے جاتے۔ جنہیں وہ واپسی پر
کسی غریب، مسکین کو دے جاتا۔ جب اس کا دل اچھی طرح سیر ہوجاتا اور روحوں کی
ملاقات کے اثرات اس کے دل و دماغ میں اتر جاتے تو وہ واپسی کی راہ لیتا۔
آخر ایک دسمبر کی سرد نمدارسہ پہر کو اسے محسوس ہونے لگا کہ کوئی مرحلہ طے
ہونے والا ہے۔ وہ کافی بوڑھا تو ہو ہی چکا تھا۔ اور اس کی زندگی بھی اب ایک
رسمی موت کا انتظار کررہی تھی۔ کب وہ آئے اور وہ اگلی دنیا جانے کا اخلاقی
جواز حاصل کرے۔ آج اس کی بانسری میں کچھ بیگانگی سی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے
لگنے لگا جیسے پہلے تو اس کے دل کا سوز ہی بانسری کے گلے سے فروغ پا کر
ہواؤں میں بکھرا کرتا تھا لیکن آج بانسری کا اپنا سوز بھی اس کی آواز میں
مل گیا تھا ۔ کیا اس کی بانسری بھی رونے لگ پڑی تھی۔ہاں کچھ ایسا ہی لگ رہا
تھا۔آج جیسے وہ اور بانسری بھی ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لئے جدا ہونے والے
تھے۔آنے والے واقعات اپنے سائے پہلے بھیجنے لگتے ہیں۔بابا برکت کسی ایسی
چیز سے منسلک ہو چکا تھا جس سے اب بچھڑنا مشکل نہیں محال تھا۔ وہ اب خود
بھی سروں کی دنیا میں ایک سُر کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اس کی تانیں
سننے والے کانوں سے بہت اوپر جا چکی تھیں وہ فضاؤں میں ان آوازوں کا حصہ بن
چکا تھا جنہیں فوق الفطرت ہی سن سکتے ہیں ۔ وہ زمینی حواس کی دنیا سے آزاد
ہو چکا تھا۔ وہ ابدیت کے اس جھولے میں بیٹھ چکا تھا جس میں اس کی باوی،
اتنے سال پہلے ہی، بیٹھ گئی تھی اور آج وہ اسے بھی اپنے پاس لے گئی تھی۔
جہاں ان کے ماں باپ بھی ان کا استقبال کرنے کے لئے تیار کھڑے تھے۔
وہ آج اپنی ہی بجائی ہوئی بانسری سن رہا تھا لیکن وہ اسے بجا نہیں رہا تھا۔
یہ آوازیں فطرت نے اپنے نظام میں محفوظ کر لی تھیں اور آج اس کو سنائی جا
رہی تھیں۔ وہ ، باوی اور ان کے والدین ایک بار پھر چھانگا مانگا جیسے گارڈن
میں بیٹھ کر وہی گیت سن رہے تھے اور سب کے سب بہت خوش تھے۔ وہی رنگیلے موسم
پھر سے اتنے سالوں بلکہ صدیوں بعد لوٹ آئے تھے۔ ہر طرف بہار کا سماں تھا ۔
اور بالم پکی چھٹی لے کر اپنی دل نشیں باوی کا ہم نشیں بن چکا تھا۔اور اب
تو یہ گیت حقیقت بن کر ہر طرف گونج رہا تھا: ائے موسم رنگیلے سہانے۔۔۔۔جیا
نہیں مانے۔۔۔ادھر لوگ بابا برکت کو ہلا جلا کر اس کے فوت ہو جانے کی تصدیق
کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ |
|