سوہنی دھرتی َ3

سوہنی دھرتی
اتنے ترے قرض !
ذرا چین ملے
جو ادا ہو
میری بے توقیر سی
ہستی سے
بس یہی فرض

---------------------------------------------
"بیٹا ! اتنے سارے کپڑے .. اور سب ہی اتنے خوبصورت !"
بوا نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں " اسکی رلی تو بہت بڑی ہوگی ..."
"اور بے حد خوبصورت بھی " عطیہ نے آنکھیں مٹکائیں تو بوا بھی ہنس پڑیں
" بڑی رلی کو بنانا بھی مشکل کام ہوتا ہے مگر خیر اب بنانی تو ہے .. ہاں ہاں بھئ ! اس میں تو شک نہیں اتنی خوبصورت رلی شاید ہی کبھی بنی ہو " بوا کی بات پر وہ جھوم جھوم گئی
"میرا برسوں سے ارادہ تھا بوا ! کہ اس بار آپ میر پور جایئں گی تو مجھے رلی بنوانی ہی ہے ... مگر ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوجاتا ! اس بار اللہ نے ساتھ دے ہی دیا ہے بس آپ اگلے ماہ جب آئیں گی تو ساتھ ہی لائیے گا "
اے بی ! ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمایا کرو ! کوشش کروں گی ضرور وعدہ نہیں ہے ... شاید اکتوبر تک آجاۓ ! "
" ٢٠٠٥ کے ہی اکتوبر میں آجاۓ تو مہربانی ہوگی " وہ قدرے چڑ کر بولی
"ہاں ہاں .. ضرور انشااللہ پہلے ہی آجاۓ گا " بوا مسکراتے ہوۓ اپنی چادر اوڑھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں !

عطیہ کی رمضان کے بعد شادی تھی اسکی امی ازلی سلیقہ مند ! اور یہ سلیقہ عطیہ میں بھی موجود تھا ، یہی وجہ تھی کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے بہت عمدہ نہ سہی مناسب سا جہیز تیّار کر ہی لیا تھا . کہ لڑکے والے بہت اچھے بھی تھے تب بھی جہیز سے انکار نہیں کیا تھا انہوں نے ! عطیہ کی ایک ہی دوست تھی ممتاز . بے حد محبت کرنے والی اور ملنسار وہ میر پور خاص کی رہنے والی تھی والد کی جاب کی وجہ سے کراچی میں مقیم تھی . اسکے گھر میں جاکر عطیہ کو ہمیشہ روایتی انداز کی زندگی ملتی ... سب سے زیادہ جس چیز نے عطیہ کو متاثر کیا وہ انکے گھر بچھی ہوئی مختلف کپڑوں سے بنی ہوئی خوبصورت رلیاں تھی . عطیہ نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا ہوا تھا کہ ایک خوبصورت سی رلی اپنے جہیز کا حصہ ضرور بناۓ گی . ممتاز سے اس نے ذکر کیا تو ممتاز نے اپنی بوا کا بتایا جو کہ اکثر میر پور آتی جاتی رہتی تھیں اور رلی لانے لے جانے کا کام بھی ان ہی کا تھا . تب سے عطیہ بوا کا پیچھا لیے ہوۓ تھی کبھی بوا جی بیمار کبھی انکا کوئی بچہ بیمار کبھی عطیہ کی کترنیں پوری نہیں ! آج دو سالوں بعد یہ نوبت آئی تھی کہ اس نے رلی کے لئے تمام جہاں سے کترنیں جمع کر کے بوا جی کے حوالے کر ہی دی تھی .

____________ *___________ * __________

رمضان کی شروعات اور اکتوبر کی پانچ تاریخ کو ہی رلی آگئی ! رنگ برنگی خوبصورت اور دلکش ! عطیہ تو دل و جان سے فدا تھی اس رلی پر سب کو دکھا کر فارغ ہوئی تو اچھی طرح تہہ لگا کر پیک کردیا !

ماہ رمضان اپنی رحمتیں لٹاتا رواں دواں تھا کہ اچانک ایک قیامت خیز گھڑی نے سب کچھ نگل لیا ! ... آٹھ کی صبح کو گویا قیامت کی خبریں گشت کر رہی تھیں .... ایک تباہ کُن زلزلے نے کئی جانیں لے لی تھیں اور بہت زیادہ مالی نُقصان بھی ہوا تمام چینل بالا کوٹ ،آزاد کشمیر مظفر آباد میں سب سے زیادہ تباہی دیکھا رہے تھے سب کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کیوں کہ سب قدرت کی مرضی کے آگے بے بس تہے!

اذا زلزلت الارض زلزالها
________________

سحری وہ پر سکون تھی سب روزہ دار تھے۔
سارے تھے ان میں پارسا کچھ داغ دار تھے

بعد از نماز فجر کچھ کاموں میں کھو گئے
باد نسیم خنک تھی سو باقی سو گئے

غافل تھے بے خبر تھے وہ بے نیاز تھے
لیکن قضا کے پاس پوشیدہ راز تھے

سانسوں کو تسلسل کی مہلت قلیل تھی
اس کا تھا کچھ ثبوت نا کوئی دلیل تھی

اب تم کو سناتا ھوں اک گھر کی کہانی
میں نے سنی ھے بات یہ اک ماں کی زبانی

کہتی ھے قضا لے گئی خاوند کو مرے دور
بچوں کے لیئے جینے کو ھو گئی مجبور

میں حوصلے کے ساتھ انھیں پال رھی تھی
تھا مجھ پہ کڑا وقت جو میں تال رھی تھی

کرتی شبانہ روز میں کپڑوں پہ کڑھائی
دو وقت کی روٹی اور بچوں کی پڑھائی

جانے قضا سے ھو گئی اس روز کوئی بھول
اس وقت میں قرآں کی تلاوت میں تھی مشغول

لرزی زمین ایک دم سے آیا زلزلا
یہ موت کی جانب کے سفر کا تھا مرحلہ

نکلی تھی گھر کے صحن میں دیکھوں ھوا ھے کیا
میرا مکان میرے ھی بچوں پہ آ گرا

چیخی تھی مری بچی دھاڑے تھے مرے لعل
ان کو بچا سکوں میری تھی کیا مجال

بے یارومدد گار پاگل سی کھڑی تھی
گنگ تھی زبان آنکھوں میں آنسو کی لڑی تھی

عمر بھر کی ھائے مری لٹ گئیی پونجی
بچوں کی صدا بار ھا کانوں میں گونجی

عید آے گی تو پانچ روز چھٹی کریں گے
مانی نہ بات آپ نے تو کٹی کریں گے

وہ عید سے پہلے ھی رستے میں کھو گئے
بچے مرے مکان کے ملبے میں سو گئے
-------------------------
ہر طرف ایک حشر برپا تھا سب ہی حیران تھے سب ہی دکھی تھے ... کیا کیا جاۓ؟؟ پھر حیرت ٹوٹی حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا گیا عمل ؟؟ کوئی عمل بھی ہو تو حالات قابو کے جایئں.. حکومت کو ہوش آیا .. حزب اختلاف کے ساتھ معاہدے شروع ہوۓ
لوگوں کا چونکہ اس حکومت پر شروع سے ہي اعتماد نہيں تھا اور لوگوں کا يقين تھا کہ يہ حکومت چوروں کا ايک ٹولہ ہے اس لۓ دل ماننے کو تيارہي نہيں کہ زلزلہ زدگان کي بحالي کا سارا سسٹم فول پروف ہوگا اور حکومت کے لوگ اس ميں گھپلا نہيں کريں گے۔ ۔ پھر ہر جگہ سے امداد آنا شروع ہوگئی زلزلے کے موقع پر پوری قوم ایک ہو گئی تھی اور پھر ذمہ داری کا احساس حکومتی سطح سے آگے بڑھا نوجوانوں نے گلی محلے میں گروپس بنا کر سامان اکٹھا کرنا شروع کیا ٹرکوں پر ٹرک بھر بھر کر جارہے تھے ... لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات بھی تھے اور انھیں یہی محسوس ہوتا تھا کہ ہم بھیج دیں اور سامان پہنچے ہی نہ ؟؟؟ مگر پھر اگلے خالی ٹرک کے آجانے کا شور اٹھتا اور وہ سب بھول بھال کر اپنا سارا سرمایہ اپنوں تک پہنچنے کی فکر میں لگ جاتے !
سامان لے جانے والے ٹرکوں پر ملی نغمات لگے تھے نوجوانوں کے چہرے شدت جذبات سے سرخ تھے کچھ کر گزرنے کا خیال انھیں توانائی بخش رہا تھا
وطن کی مٹی گواہ رہنا گواہ رہنا !
" یا الله رحم ! " عطیہ کی امی سجدے میں گری اپنے رب سے رحم کی درخواست کر رہی تھیں اور عطیہ اپنے جہیز کے بکس کے پاس بیٹھی سامان نکالتے ہوۓ ، وقفے وقفے سے باہر سے انے والی قوم کی محبت سے سرشار آوازیں سن رہی تھی ....
اے میرے جنت نشین عزیزوں
وہ ساری مائیں وہ ساری بہنیں
بزرگ سارے وہ سارے بچے
جو تم نے چھوڑے
ہمارے ہی درمیاں بسے ہیں
ہمارے ہی درمیاں بسیں گے
سبھی وسائل کو یکجا کر کے
سبھی مسائل کو حل کریں گے
یہ تمہاری امانتیں ہیں
امانتوں کو سنبھال رکھنا
ہماری تہذیب ہے پُرانی
اے میرے جنت نشین عزیزوں
یہ عہد ہم تم سے کر رہے ہیں
یہ عہد ہم تم سے کر رہے ہیں
اسی دوران عطیہ کے ابو نے نے ٹی وی کھول کر دیکھنا شروع کیا تا کہ پتا چل سکے کہ کتنا نقصان ہوا ہے اور تمام ٹی وی چینل پر بالا کوٹ ،آزاد کشمیر مظفر آباد میں سب سے زیادہ تباہی کا بتا رہے تھے ...اور اس کے بعد جب اگلے دن جگہ جگہ لاشیں دیکھا رہے تہے اس کے بعد ٹی وی پر لوگوں کے گھر دکانیں سب کچھ ختم ہو گیا اور کتنے ہی معصوم بچے بھی اس زلزلے کی نظر ہوگئے ایک لڑکا زلزلے کا حال بتا رہا تھا عطیہ نے دل تھام کر سننا شروع کیا .
" میں صبح جب اٹھا تو بہت تیز ہوا چل رہی تھی ہر طرف اداسی چھائی ہوئی تھی -جیسے ابھی کچھ برا ہونے والا ہے اور وہی ہوا تھوڑی ہے دیر بعد جب میں گھر میں اپنی امی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا -کہ امی آج دن کچھ اداس سا لگ رہا ہے امی نے کہا ہاں مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے اس کے بعد اچانک سے ایک زور دار جھٹکا آیا اور سب کچھ ہلا کر رکھ دیا میں نے اپنی امی کا ہاتھ پکڑا اور ایک درخت کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ درخت اتنی تیزی سے ہل رہا تھاجیسے ہمیں بھی ساتھ اچھال رہا ہو ایک عجیب سا خوف انے لگا زمین جیسے اچھل رہی ہو اس کے بعد زلزلہ تو تھم گیا لیکن جب آفٹر شاکس کا سلسلہ شروع ہوا تو لوگوں کی رات کی نیندیں اڑ گیئں لوگ خوف زدہ ہو گئے تہے کہ کہیں پھر سے زوردار زلزلہ نہ ا جائے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا !" عطیہ کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں ..
پھر کچھ سروے کرنے والی ٹیموں نے بتانا شروع کیا ....
" اس کے بعد جب ہم ایبٹ آباد گئے تو وہاں بھی تباہی مچی ہوئی تھی اور لوگ بہت ہی خوف زدہ تہے اس زلزلے نے لاکھوں لوگوں کی جان لی اور ہزاروں لوگ معذور ہوۓ اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ... ہمارے مُلک کے ہزاروں نہیں ، لاکھوں لوگ اِس وقت عجیب و غریب کیفیت میں مُبتلا ہیں ، ماؤں کے بچے بِکھر گئے ہیں ، گھروں کے گھر برباد ہو گئے ہیں ، لوگ برباد ہو گئے ہیں۔ کئی لاکھ ایسے لوگ ہیں جو کہ اِس وقت خوراک کے مُنتظر ہیں۔ اس وقت ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم ایک جسم کی مانند ہیں اور اپنے ملک کے ہر فرد کا دکھ ایسے ہی محسوس کرتے ہیں جیسے آنکھ کی تکلیف سارا جسم محسوس کرتا ہے ! آپکی بھیجی ہوئی ایک چھوٹی سی مالی اور غذائی مدد بھی انکے لئے آپکا تحفہ ہوگا ایک کلو چاول کا پیک یا ایک چادر ہی سہی ! " کسی پروگرام کے میزبان کی بات پر عطیہ کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ ٹپکا اور اسکے ہاتھ میں پکڑی رلی میں جذب ہوگیا !
میزبان نے پھر کہنا شروع کیا
" میری گذارش اِس میں یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر اعتماد کا بُحران بھی ہو تو لوگوں کے اندر ایک ایسی طاقت ہونی چاہیئے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور ایسے راستے تلاش کریں کہ جن سے بہرحال اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے پہنچ سکیں۔ اِس المیے میں اپنا کردار مجھے بھی ادا کرنا ہے ، آپ کو بھی کرنا ہے ، ہر شخص کو ادا کرنا ہے۔ اِس میں اگر اِتنا سخت اخلاقی بُحران پیدا ہو گیا ہے کہ ریاست پر ، اُس کی مشینری پر لوگوں کا اعتماد نہیں رہا تو بہرحال خدا کی زمین خالی نہیں ہو جاتی۔ ابھی بھی ایسے ذرائع موجود ہیں۔ آخر ریڈکراس کی تنظیم موجود ہے ، بعض ایسی جماعتیں اور تنظیمیں موجود ہیں جن پر لوگ کسی حد تک اعتماد کرتے ہیں۔ تو میرا احساس یہ ہے کہ آگے بہرحال بڑھنا چاہیئے ، راستے تلاش کرنے چاہیئں۔ راستے بند نہیں ہو جاتے۔
یہ ہم جانتے ہیں کہ جس علاقے میں اس وقت آفت ہے وہاں کے اکثریتی علاقے ایسے ہیں جن کی خواتین گھروں سے باہر نہیں آتیں۔ آج وہ خواتین کھلے آسمان تلے بیٹھی ہیں۔ تو وہاں سائبان کی بہت ضرورت ہے۔ اور یہ میں اور آپ نہ بھولیں کہ یہ میرے اور آپ کے گھر کو خواتین بھی ہو سکتی تھیں یا ہو سکتی ہیں۔ نیکیوں میں اپنا حصّہ ڈالیے الله آپکو سات گنا لوٹانے کا وعدہ کر چکا ہے "
عطیہ نے اپنے سامان کو ایک ڈبے میں بند کر کے آخری گرہ لگانے سے پہلے اپنی جان سے پیاری رلی کو غور سے دیکھا (اتنی حسین رلی ! کیا پتہ سامان پہنچ بھی پاۓ یا نہیں؟؟ کوئی اور ہی اڑا لے جاۓ بچ میں؟ خواہ مخواہ دے دوں میں ) پھر ایک سر جھٹکتے ہوۓ سے اس نے وہ رلی تہہ کی اور باقی سامان میں باندھ دی !
مں یقرض الله قرضا حسنا ! میں اپنے ہی لوگوں کو اپنی پسند کی چیز نہ دی تو اللہ کو کیا جواب دوں میں نے اللہ کی راہ میں اپنوں کو کیا دیا؟؟ سب کی نیت اسکے ساتھ مگر اجر تو اللہ کے زمے ہوا ناں؟؟
وہ اس ڈبے کو بند کر کے امی کے پاس آئی " امی یہ سامان بھی ٹرک میں رکھوا دیں یہ ہماری طرف سے ہموطنوں کو حقیر سا نذرانہ ہوگا "
امی نے جانماز لپٹتے ہوۓ نم آنکھوں کے ساتھ اسکو دیکھا " یہ تو تمہارا .. " وہ اتنا کہہ کر رک گئیں
"امی ہمارے گھر والے مشکل میں ہیں میری استطاعت بس اتنی ہی ہے، بے جا جہیز تو ویسے بھی ناپسددہ چیز ہے دین کی نگاہ میں اور وہ بھی جب ماں کا جگر چھلنی ہو تو جہیز بچانا ٹھیک ہے یا ماں کی پکار پر لبّیک کہنا؟؟ " امی نے خاموش مگر سوالیہ نگاہ اسکی طرف ڈالی عطیہ انکا سوال پڑھ کر مسکرادی "امی ! اگر کوئی ان مشکل حالات میں بھی بغیر جہیز کے مجھے قبول نہیں کرتا تو اسکا قبول نہ کرنا میرے حق میں بہتر ہے ناں؟ " بس آپ ابو سے کہیں یہ سامان باہر بھیجیں نیا ٹرک لوڈ کیا جارہا ہے کچھ تو قرض ادا ہو ہی جاۓ گا " امی نے عطیہ کے ماتھے پر پیار کیا اور سامان لے کر باہر نکل گئیں !
__________________*_______________* _____________
اے میرے جنت نشین عزیزوں
ہمیں یہ دنیا بتا رہی ہے
کہ تم پہ اپنے پہاڑ ٹوٹے ۔۔۔ تمہاری اپنی چھتوں نے تم کو کچل دیا ہے
زمیں نے تم کو نگل لیا ہے
سو مر گئے تم
یقین جانو یہ سب غلط ہے
مرے نہیں تم ۔۔۔۔ مرے تو وہ ہیں ۔۔۔ جو بچ رہے ہیں
تمہاری فرقت میں جی رہے ہیں
تمہیں خبر کیا کہ مرنے والوں کے بعد جینا
عذاب ہے ۔۔۔۔۔اور عذاب ایسا کہ جس پہ آئے
سنبھل نہ پائے ۔۔۔ وہ مرنا چاہے تو مرنا پائے
اے میرے جنت نشین عزیزوں ۔۔۔ مرے نہیں تم مرے تو ہم ہیں
یقین نہ آئے تو اپنی روحوں کو بھیج دیکھو
وطن میں ہیں جس قدر بھی آنکھیں
وہ آنسوؤں سے بھری ہوئی ہیں
تمام چہروں پہ وہ قیامت جو تم پہ ٹوٹی
بہت نمایا لکھی ہوئی ہے
لبوں کو دیکھو تو یوں لگے گا کہ مسکرائے
انہیں تو صدیاں گزر گئی ہیں !
______________* _____________ * ____________
عطیہ نے کچن میں برتن سمیٹتے ہوۓ ٹی وی پر کسی کی آواز سنی اور مسکرانے لگی
"شمال کے علاقوں میں کشمیر کی تاریخ کا بد ترین زلزلہ آیا سینکڑوں کوہستانی بستیاں ملیامیٹ ہوگئیں مگر اپنے ہم وطنوں کا جذبہ دیکھ کر میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اسقدر نقصان کے باوجود ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے انشااللہ . ان قدرتی آفتوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو کوئی سندھی سندھی رہتا ہے نہ کوئی پنجابی ، نہ کوئی پٹھان نہ کوئی بلوچی ....
"ہم پاکستانیوں کا کچھ اعتبار نہیں اگرچہ تھوڑے پاگل ہیں لیکن کچھ بھی کر سکتے ہیں "

nebula
About the Author: nebula Read More Articles by nebula: 14 Articles with 25689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.