کرسمس اور تحفۂ کرسمس اور مسلمان! ایک لمۂ فکریہ

 بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

گنواں دی ہم نے اسلاف سے میراث پائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔سلسلہ وار مضمون نمبر ۴

ہر سال کی طرح اس سال بھی پورے عالم میں کرسمس تہوارپورے اہتمام سے منایا جا رہا ہے او ر تجارتی ٹھکیدار ا ور کمپنیاں اس کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں ہیں، اس موقع پر مختلف انواع کے مصنوعات بنا کر یا طرح طرح پیشکش کے بہانے لوگوں سے پیسہ بٹورہ جاتا ہے، اور خاص و عام ایک دوسرے کو تحفہ دینے و لینے اور کھلانے پلانے میں مصروٖف نظر آتے ہیں اور ہمیں اس سے کوئی سروکارہے نہ کچھ اعتراض۔۔۔۔ہر کسی کواپنے اپنے طور پر خوشیاں منانے کا حق ہے ، مگر مسٔلہ یہاں مسلمانوں کا بنتاہے جو جانے انجانے میں اس میں ملوث ہو جاتے ہیں یا ان ہتکنڈوں کا شکار ہو کر اپنا ایمان خطرہ میں ڈال لیتے ہیں ، اور بعض تو گنواں بیٹھتے ہیں مگر اس کا انہیں احساس و ادراک تک نہیں ہوتا، کیسے اور کیوں؟؟ بس یہی نکتہ آج ہمارے لئے دعوت و فکر دے رہا ہے، ایک مسلمان کو تو ان چیزوں سے حد درجہ نفرت ہونی چاہئے،کیوں کے جو چیزیں بنا بنا کر پیش کی جا رہی ہیں اس کی نسبت کیا ہے ؟اس کا علم مسلمانوں کو ایک حد تک توہے ، مگر اکثریت فکری ارتداد کا شکار اسمیں ملوث نظر آتے ہیں، در اصل یہ کرسمس جومنائی جاتی ہے وہ اﷲ کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے نام پر ہے مگر انتہائی گلو کے ساتھ یعنی اﷲ رب العالمین پر بہتان عظیم باندھ کر عیسیٰ ابن مریم کی جگہ نعوذبا ﷲ عیسیٰ ابن اﷲ، اﷲ کا بیٹا بنا کر بیش کرتے ہیں، جو گھناونا جرم ، سراسر جھوٹ ،ظلم اور شرک عظیم ہے ، اور اسلام یعنی توحید کی ضد ہے،پھر کیسے مسلمان اس میں موافقت اختیار کر سکتا ہے؟اگر کوئی اس میں بھی مصالحت کی بات کرتا ہے تو پھر کہاں رہا ایمانِ ؟کیا کفر و شرک اور عقیدہ ٔ توحید پر کوئی مصالحت ہے؟ کیا سورۃ کافرون بھول گئے؟ اسی لئے تو خالق کائنات نے انبیا و رُسُل بھیج کر انسانوں تک یہ پیغام پہنچاتا رہا،مگر پیغمبروں کو اس آواز کے بلند کرنے پر ستایا ومارا پیٹا گیا ،یہاں تک کہ کسی کو آرے سے بھی چیرا گیا ۔ہمارے نبی اور آخری پیغمبر اسلام محمدﷺ کو بھی صرف اسی وجہ سے انتہائی درجہ تک ستایا گیا اور جو ممکن ہوسکا جسمانی و روحانی اذیتیں دی گئیں، اور قتل کی سازشیں کی گئیں۔پیارے رسول ﷺخود فرماتے ہیں کہ جس کا مفہوم ہے::جتنا مجھے ستایا اور دھمکایا گیا اس(توحید) دین کے لیے کسی اور نبی کو نہیں ستایا گیا::صرف انتا نہیں جو بھی ایک اﷲ معبودِ برحق یعنی لا الہ الا اﷲ کی گواہی دی ان تمام کو نامساعد حالات سے گزرنا پڑا اور طرح طرح کی تکالیف کو برداشت کرنا پڑا ہے اور ان میں مرد و زن دونوں برابر شامل رہے،کیا مسلمان حضرت آسیہ( فرعون کی بیوی) او ر حضرت سمیہ رضی اﷲ اور دیگروں کی بے مثال قربانیوں کوبھول گئےِ؟ ایک کو تو کھولتے ہوے ٔ تیل میں ڈالا گیا ،دوسری کو تو ابوجہل ملعون نے شرم گاہ پر برچہ مار کر شھید کر دیا تھا،اور صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سینکڑوں واقعات ایسے ملیں گے، جن کو اس توحید کا نعرہ یا آواز بلند کرنے پر نا قابل برداشت حد تک پیٹ کر اس کلمۂ توحید سے ہٹانے کی کوشش کی گئی،اور کسی کو انگاروں پر لٹایا گیا یہاں تک کہ آگ انکے جسم کی چربی پگھلنے سے بجھ جاتی تھی ،تپتی اور گرم ریت پر لیٹا کر سینہ پر چٹان رکھ کر گھسیٹا جاتا ، اور کوڑے مار کر کہا جاتا کہ یا تو کلمۂ طیبہ کو چھوڑ دو یا اس حال میں مرجاو ٔ ،تکلیف دینے والا تھک جاتا مگر احد احد کی صدا بلند کرنے والا یعنی اﷲ ایک کہنے والا نہ تھکتا ،نہ ہی اس کلمۂ طیبہ کے اقرار سے بعض آتا۔۔۔۔صرف عماؓر صہیبؓ، خببیب ؓ،زید ؓ اور خباب ؓو بلالؓ حضراتِ صحابہ ؓ کو پڑھ لیجئے،اسی طرح بعد والوں نے بھی اس توحید پر قائم رہنے اور اس توحید کے نعرہ کو بلند کرنے کے لئے بہت کچھ سعوبتوں کو جھیلا ہے، اور بے شمار قربانیوں کو پیش کیا ہے،اور یہ ان کا ہم پر احسان ہے اسلئے اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا،جس کے نتیجے میں یہ دین ہم تک پہنچا ہے مگر افسوس آج ہم چند کوڑیوں کے خاطر اپنا ایمان کا سودہ کر بیٹھتے ہیں۔ کیا ہم میں سے اکثر اس (کرسمس پر) مدعی توحید کی طرف سے ملنے والے تحفوں و آشیاء خوردنوش ودیگر پیشکش کی طرف للچاتی نظروں سے نہیں دیکھتے ؟ سوچئے عقیدہ ٔ توحید اور ایمان کے آگے اس کی کیا حقیقت؟ ہمارے اسلاف نے تو بڑی بڑی پیشکش یہاں تک کہ حکومتوں کے تحائفوں و جاگیروں اور حکومت میں حصّہ داری دینے کے وعدوں کو بھی ٹھکرا کر ہم تک یہ توحید(اسلام) کے پیغام کوپہچایا ہے، اور یہی تو ہماری اصل میراث ہے، اگر یہ باقی نہیں رہی تو سب بیکار ہے ، اسلئے ہمارے لئے ہر حال میں اسکی نگہداشت یا حفاظت انتہائی درجہ تک کرنا لازمی ہے ،ورنہ دنیا وآخرت کی ذلّت و رسوائی سے نکلنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوگا، اور پھر سے اور بڑے دکھ و افسوس سے یہی کہنا پڑیگا ۔۔۔گنواں دی ہم نے اسلاف سے میراث پائی تھی،
Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed
About the Author: Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed: 28 Articles with 37836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.