31دسمبرکو سجدۂ شکر ، عبادت وریاضت اورصدقہ وخیرات کرکے
نئے سال کوخوش آمدیدکہیں
نئے سال کی آمد پر دنیابھرمیں جشن کی مختلف محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔جشن
کا عجیب سماں ہوتاہے۔کوئی رقص وسرور کی محفل منعقد کرتاتوکوئی شراب کے جام
چھلکاتاہے،کوئی شباب میں مدہوش ہوتاہے تو کوئی اخلاق کی تمام حدوں کوپار
کرجاتاہے۔نہ کسی کو تہذیب کی پرواہ اور نہ ہی کسی کوتمدن کاخیال۔ہر ایک
اپنے نشے میں چورہوتاہے۔نہ جانے کتنی بچیاں اپنی عزت کو شوق سے نیلام کرتی
ہے اور نہ جانے کتنے نوجوان گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں؟کوئی بیئربار کا رُخ
کرتاہے تو کوئی سمندروں کے ساحلوں کی پرعیاشیاں کرناچاہتاہے۔ہوٹلوں
کوآراستہ کیاجاتاہے،نئے نئے آفرہرسال منظرعام پر آتے ہیں،نوجوانوںکوشراب
وشباب میں مدہوش کیاجاتا ہے،موسیقی کے سُراورتال پرخواتین کے تھرکتے ہوئے
جسموں کی نمائش کی جاتی ہے، غرضیکہ دنیاکاایک بڑاطبقہ نئے سال کے جشن میں
ناچ،گانے،شراب و شباب،فحاشی،عریانیت اور جنسیت میں ڈوب جاتاہے۔اس دن
شیطانیت اپنے عروج کے نقطۂ انتہاپرہوتی ہے، عصمت دری اور عصمت فروش ایک
نیاباب رقم کرتے ہیں،عورتوں اور مردوں کااختلاط ہوتاہے،یہ شیطانی جشن
ایساہوتاہے جہاں انسانیت دم توڑرہی ہو تی ہے اورپاکبازحضرت مریم کی ماننے
والیاں اپنی عزت وآبروکونیلام کررہی ہوتی ہے۔افسوس تو اس بات کاہے کہ معلم
انسانیتﷺکی ماننے والی قوم بھی اس دن نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مگن
ہوجاتی ہے۔اب یہ وَبابڑے شہروں کے ساتھ ساتھ قصبوں دیہاتوں اور مضافات میں
بھی جڑپکڑچکی ہے۔چھوٹے شہروں یادیہاتوں میںبھلے ہی بڑے جشن کا اہتمام نہ
کیاجاتاہو مگر کچھ نہ کچھ انتظام ضرور کیاجاتاہے۔ یاران محفل کی پسندکی
خاطر ہزاروں روپئے خرافات کی نذر کئے جاتے ہیں۔جشن کایہ طریقہ یہودونصاری
اور دیگرقوموں کاتوہوسکتاہے مگر اہل اسلام کانہیںکیونکہ اسلام تو تہذیب
وتمدن،اخلاق وکردار، اوصاف حمیدہ وخصائص جلیلہ کی تعلیم دیتاہے،اسلام تو
خرافات اور فضول خرچیوں سے منع کرتاہے۔مسلمان مغربی تہذہب کے دلدادہ
نہیںبلکہ پروردۂ آغوش غیرت ہوتے ہیں،عصمت فروش نہیں بلکہ عفت وعصمت کے
محافظ ہوتے ہیں،تہذیب وتمدن کے نام پرانسانیت کی دھجیاں نہیں اُڑاتے بلکہ
اخلاق کی اعلیٰ قدروں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کاش!!جواسلامی تعلیمات کتابوں میں
گم ہوکررہ گئی وہ ہماری زندگی میں بھی نظرآجائیں؟؟اسی لئے شاعر مشرق ڈاکٹر
اقبال نے کہاتھا ؎
گفتار کے غازی بن تو گئے کردار کے غازی بن نہ سکے
آج جتنانقصان اسلام کو اسلام کے ماننے والوں سے ہورہاہے شایدہی کسی اور سے
پہنچ رہاہو،آج قوم مسلم عیش وعشرت اور مغرب کی رسیابن چکی ہے۔حضرت
مولانامحمد شاکر علی نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی ) نئے سال کے حوالے
سے رقمطرازہیں:’’نیا سال اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ شروع ہونے
والاہے۔ ہر نیا سال اپنے دامن میں خوشیوں کی سوغات لیے جلوہ نما ہوتا ہے یا
پھر غم و اندوہ اور حزن و ملال کے بد نما نقوش سے داغ دار نظر آتا ہے۔ہمیں
اپنے ماضی، حال اور مستقبل کو سالِ نو کے بدلتے حالات کے لحاظ سے دیکھنا ہے
اور اسے خوش نما بنانے کی جدو جہد کرنا ہے۔گزشتہ سال ہم نے
کیاکھویااورآئندہ سال کے لیے ہم نے کیامنصوبہ بنایا۔یہ سوال آج اگراُمت
مسلمہ سے پوچھاجائے تونوّے فی صدلوگ بھی اس کاجواب دینے سے ناکام رہیں
گے۔ہماری قوم بس جی رہی ہے نہ اس کے پاس کوئی مقصدہے اورنہ کوئی منصوبہ
۔آخریہ کب تک چلتارہے گا۔جس قوم کاکوئی نصب العین نہ ہو،مقصدزیست نہ ہووہ
قوم کامیابی وکامرانی کیوںکرحاصل کرسکتی ہے۔یادرکھیں! ہماراہدف قرآن مقدس
اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کردیاہے بس اس طرف چل پڑنے اور
سنجیدگی سے جدوجہدکی ضرورت ہے۔آج ہرطرف سے ہمارافرض ہمیں پکاررہاہے کہ
خواب غفلت کی چادراتارپھینکو،اقامت دین کے لیے کمربستہ ہوجائو ،علم کی شمع
روشن کرو،دعوت وتبلیغ کے لیے قریہ قریہ نکل پڑواوراپنے وجودکواسلام کی دلیل
بنائوورنہ فرض سے عدم توجہی تمہیں ذلت ورسوائی کے عمیق غارمیں گرادے گی
اورتمہاری صرف داستانیں رہ جائیں گی۔‘‘(ماہ محرم اور عظمت امام حسین رضی
اللہ عنہ )ہمیں چاہئے کہ حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ نئے سال میں
قدم رکھیں،فضول خرچیوں سے اجتناب کرتے ہوئے تعلیم پر توجہ مرکوز کریں،شراب
وشباب اور بے جاخواہشات پر حلال کمائی لُٹانے سے بہتر ہے کہ غریبوں کی
مددکریں،یتیموں کی کفالت کریں،حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کریں،تیمارداروں
کی عیادت کریں اورموت کی آخری ہچکی تک اسلامی شریعت پر سختی کے ساتھ عمل
کریں۔ویسے بھی خوشی کا موقع ہویاغم کا،اسلام ہر وقت اپنے معبودبرحق کی
بارگاہ میں سر جھکانے کا درس دیتا ہے۔اگر31دسمبر مناناہی ہے تو اپنے خداکی
بارگاہ میں سجدۂ شکر ، عبادت وریاضت،صدقہ وخیرات اداکرکے منائو۔مولیٰ!ہم
سب کو توفیق عطا فرمائے۔ |