گزشتہ ہفتے دو دنوں میں ہم نے تین تہوار بہت عقیدت و
احترام اور دھوم دھڑاکے سے منائے، اول عید میلاد النبیﷺ جو کہ 24دسبر کو جب
کہ 25دسمبر کو کرسمس اور بابائے قوم حضرت قائد اعظم ؒ کی سالگرہ منائی گی۔
سنا ہے کہ اپنے میاں نواز شریف صاحب بھی اچانک 25دسمبر کو پیدا ہونے لگے
ہیں۔ خیر یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہمارا موضوع تو عید میلاد النبیﷺ کی
تقریبات ہیں۔
تمام مسلمان خواہ وہ کس بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، نبی اکرم ﷺ سے محبت
رکھتے ہیں۔ ہاں پیارے نبی ؐ سے اپنی محبت کے اظہار کا طریقہ الگ الگ اختیار
کرتے ہیں۔ کوئی درود و سلام کی محفلیں سجاتا ہے، کوئی اس دن نوافل کا
اہتمام کرتا ہے، کوئی اس دن شکرانے کے طور پر اور خوشی کے اظہار لیے ایک
دوسرے کا منہ میٹھا کرتے ہیں، ایک دوسرے کے گھر شیرینی، کوئی میٹھا پکوان
یا بریانی وغیرہ بھیجتے ہیں، کوئی گھر اور شہر کو سجاتا ہے۔ یہ سارے عقیدت
اور خوشی کے اظہار کے طریقے ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی اکرم
ؐ کی ولادت باسعادت کی خوشی منا لینا ہی کافی ہے؟ کیا آقا ﷺ سے عقیدت کا
اظہار کرکے ہم اپنا فرض ادا کرلیتے ہیں؟
نہیں بلکہ سیرت النبی ؐ کا پیغام یہی ہے ک ہپیارے نبی ﷺ کی تعلیمات کو عام
کیا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔ میرے اور آپ کے آقا ﷺ کی ولادت کا جشن
منانے کا بھی درست طریقہ یہی ہے۔ اس وقت میرے سامنے دو خبریں ہیں۔ ایک تو
یہ کہ ملتان میں جشن میلاد النبی ؐ کے موقع پر 12ہزار پونڈ وزنی کیک کاٹا
گیا۔ اس کیک کی تیاری میں 22سو کلو مکھن، 9سو کلو چینی،6سو کلو میدہ ،
2ہزار 6سو انڈے اور مربہ جات استعمال کیے گئے۔خبر کے مطابق یہ کیک تاریخی
تلوار سے کاٹا گیا، ہزاروں زائرین میں تبرک کے طور پر بانٹا گیا۔ دوسری خبر
بھی ملتا ن سے ہی ہے اور انتہائی کرب ناک خبر ہے۔اسی ملتان کے علاقے شریف
پورہ کے رہائشی 45سالہ مزدور اشفاق نے غربت اور فاقوں سے تنگ آکر اپنے چار
بچوں اور بیوی کو قتل کرکے خودکشی کرلی۔یہ مزدور انتہائی کسمپرسی کے حال
میں زندگی گزار رہا تھا، غربت کے ہاتھوں ستایا ہوا تھا اور حالات سے تنگ
آکر اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔
پیارے نبی ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’’ وہ مومن نہیں جو خود تو
پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔‘‘ یہاں تو بات بھوکا سونے سے
بڑھ کر قتل اور خود کشی تک پہنچ گئی۔یہ سوچنے کی بات ہے۔ پروفیسر عنایات
علی خان کے نعتیہ کلام پر اپنی بات ختم کروں گا۔
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمالِ روئے حیات تھا، جو دلیل راہِ نجات تھا
اسی رہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایتِ کم نظر ! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
یہ میری عقیدت بے بسر ،یہ میری ریاضت بے ہنر
مجھے میرے دعویٰ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا |