طرز بدلیں، ایسے نہیں ایسے

 ٭ربیع الاول کے مہینے میں نبی ٔ اکرم ﷺ کا یوم ولادت اور یوم وصال ہوا اس ماہ کو مسلمانوں کا ایک طبقہ جشن عید میلادالنبی ؐ کے نام سے مناتا ہے جبکہ دوسرے طبقات اسے بدعت قرار دے کر سیرت رسول عربی ؐ پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے ہیں آج تک اس پر کاربند ہیں مخالفین اوراس رسم کی حمایت کرنے والوں کے پاس بے شمار دلائل ہیں اس پر مناظرے بھی کثیر تعداد میں ہوچکے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا ہر کوئی اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ ہمارے دلائل قرآن وسنت کے مطابق ہیں راقم کو اس موضوع پرمتعدد کتب پڑھنے کا موقعہ ملا ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسلام رسومات کو ختم کرکے قرآن وسنت پرعمل کرنے کا درس دیتا ہے یہ جو عمل ہورہا ہے یقیناً اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ عمل صحابہؓ ،تابعینؒ،تبعہ تابعینؒ نے نہیں کیا (از میلاد النبیؐ ،ڈاکٹر طاہر القادری) ، لیکن بدقسمتی سے اسے فرض کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اس عمل کو عشق رسولؐ کا نام دیا جارہا ہے لیکن غور طلب مقام ہے کہ اس رسم کے کیا نتائج برآمد ہورہے ہیں ؟ ہم سب جانتے ہیں کہ اﷲ ورسولؐ نے بے حیائی،فحاشی عریانی،فضول خرچی،محرم اور نا محرم کے اختلاط کو سختی سے روکنے کا حکم دیا ہے جبکہ اس دن اسلام کے ان احکامات کا جس طریقے سے جنازہ نکالاجاتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔اس وقت کرہ ارض پر امت مسلمہ میں غربت کا ناسور اس قدر پھیلتا جارہا ہے کہ اس کی حد نہیں اﷲ کے رسولؐ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے مہاجرین کامعاشی مسٔلہ حل کیا یعنی کسی کو معاشی تنگی نہ ہو ۔اس کے برعکس آج مسلمان دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہا ہے اور مسلمان ہیں کہ نبی اکرم ؐ کی اس عظیم سنت کو پس پشت ڈال کر جشن منانے میں لگے ہوئے ہیں۔اربوں روپے ،ڈالرز ہم مسلمان یوم ولادت پر ہواؤں میں اڑا دیتے ہیں لیکن غریبوں کی معاشی پسماندگی کا کبھی خیال نہیں کیا ۔اس دن کو اس طرح منانے سے ایک بہت بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ اسلا م کے بنیادی حکم محرم اور محرم کا تقدس پامال ہورہا ہے بے حیائی عریانی فحاشی کا بازار گرم ہورہا ہے یہ مناظر ٹی وی سکرینوں پر ساری قوم نے دیکھے جب بازار سجائے دئیے گئے خانہ کعبہ،مسجد بنویؐ کے ماڈلز کو وہاں رکھ دیا گیا مختلف کھلونے،پہاڑیاں گلی محلوں میں بن گئیں تو انھیں دیکھنے کیلئے نوجوان لڑکیاں،لڑکے نیم عریاں لباس زیب تن کرکے بے پردہ بازاروں میں نکل آئے ۔اس شرمناک منظر کو دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا تو درد دل کے ساتھ صرف اصلاح واحوال کی نیت سے توجہ دلاؤ نوٹس کی غرض سے ان مذہبی،دینی قائدین کی خدمت میں چند گذارشات پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں اگر اسے دین دشمنی یا کوئی اور خوفناک الزام سے تعبیر نہ کردیا جائے تو۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ وہ مذہبی قائدین جو اس دن کو ہر حال میں اسلام کا فرض عین دن سمجھ کرمنانا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ بازار سجانے ،ماڈلز لگانے کی بجائے اس دن پر دینی اجتماعات کا اہتمام کریں جو خالصتاً عشق رسول ؐ کو اجاگر کرنے لئے دین اسلام کی اصل روح کے مطابق ہوں ،اس کے ساتھ صاحب ثروت لوگ اپنے مال ودولت میں سے غرباء کو کاروبار کرنے کیلئے اپنی دولت میں سے کچھ نہ کچھ رقم دیں ،غریب بچیوں کی شادیاں کرنے کیلئے اس دن مسلمان اگر فنڈ جمع کرکے ان کی شادیوں کا اہتمام کریں تو ہمارے معاشرے میں پھیلتی ہوئی زنا کی لعنت کا دروازہ بند ہو سکتا ہے ،معزور افراد کی بحالی کیلئے اپنے مال و دولت کا رخ ان کی طرف کرنا نبی اکرم ؐ اور صحابہ کرام ؓ کی سنت ہے ۔ جشن ہم اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کرکے خدمت انسانیت کرکے بھی کر سکتے ہیں۔اسی طرح ایک اہم نقطہ کہ اس وقت پاکستان کا ہر بچہ یہودوہنود کے سودی قرضوں کے باعث 110000 (ایک لاکھ دس ہزار روپے ) کا مقروض ہے اگر مسلمان یو این او کے قرض کو اتارنے کیلئے اس دن چند جمع کریں تو پاکستان سمیت دنیا بھر کے ان مسلم ممالک کی طرف سے قرض ادا کرکے مسلمانوں کو سودی قرضوں کی لعنت سے نجات دلا کر بھی تو یہ دن منایا جاسکتا ہے اس طرح کرنے سے نہ تو بے حیائی عام ہو،نہ عریانی،نہ فحاشی ،نہ ہی کوئی قدغن ۔۔۔۔ایک اندازے کے مطابق اگر اس دن پر خرچ ہونے والا سرمایہ صرف دس سال تک مندرجہ بالا طریقے سے خرچ کیا جائے تو غربت سرے سے ختم ہوجائے گی اور مسلمانوں کو خوش حالی نصیب ہو سکتی ہے اور مسلمان اس طرح کفار کی پنجہ ٔ جبر سے بھی آزادی حاصل کرلیں گے ۔لیکن اگر ہمارے وہ مذہبی قائدین جو اس دن کو منانے پر بضد ہیں نے اپنا طریقہ نہ بدلا تو سیکولر ازم کے فروغ میں ان کا بھی اتنا ہی کردار ہوگا جتنا یہودوہنود کا ہے کیونکہ یہودوہنود امت مسلمہ میں بے حیائی،عریانی فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں اور سود کو عام کرنا چاہتے ہیں یہ ہمارے مذہبی قائدین کسی نہ کسی طرح سے ان کے معاون ومددگار بن گئے ہیں ۔لہٰذا ہمیں اپنا طرز تبدیل کرنا ہوگا بصورت دیگر ایک بھی مسلمان نوجوان لڑکا یا لڑکی اس غلط طرز کے باعث گناہ کی دنیا میں چلا گیا تو اس کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جو ولادت مصطفیٰ ﷺ(اختلاف کے باوجود) اور وصال یاوفات، مصطفیٰ ﷺ ( اتفاق کے باوجود)کا دن جشن عید میلادالنبی ﷺ کے نام سے اس طرح منانے پر بضد ہیں ۔اس کی شرعی حیثیت پر بحث کئے بغیر ہمارے ذہن میں جو مناسب رائے تھی ہم نے رقم کردی ۔اگر کوئی عمل کرے گا تو امت کو فائدہ ہوگا اگر نہیں تو ایسے ہی خسارہی ہ خسارہ،نقصان ہی نقصان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭یوم قائد اعظم ؒپراس مرتبہ تمام اخبارات نے پہلے سے کہیں زیادہ اہتمام کے ساتھ رنگین صفحات پر خصوصی ایڈیشز شائع کئے ان میں سے کچھ تحریریں قائداعظم ؒ کو راسخ العقیدہ مسلمان ثابت کرنے کیلئے تھیں ان کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ اس وقت بھی موجود ہے جو پاکستان کو سیکولر بنانے کیلئے سرگرم عمل ہے اس کا موقف ہے کہ قائداعظم ایک سیکولر (بے دین) رہنماء تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے بعدمیں مذہبی لوگوں نے پاکستان کو یرغمال بناکر اس پر اسلام کا ٹھپہ لگا دیا ۔ وہ سرعام اس موقف کا اظہار کرتے ہیں انھیں روکنے والا کوئی نہیں ۔کیا یہ قائداعظم ؒ کی توہین نہیں؟یقیناً ہے تو پھر پاکستان کا قانون قائداعظم ؒ کے مقام کے تحفظ کیلئے حرکت میں کیوں نہیں آتا ؟وہ ان لوگوں کو جو یہ موقف صبح شام ذرائع ابلاغ میں کہتے پھرتے ہیں لگام کیوں نہیں ڈالی جاتی ؟انھیں کالعدم قرار دے کر ان کی سرگرمیوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟ آخر کب تک اسلامیان پاکستان قائداعظم ؒ کی حرمت کے دفاع اور صفائی میں تحریریں لکھ لکھ کر قائد کی صفائی دیتے رہیں گے ؟ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قوم کے ساتھ ہی نہیں قائد کے ساتھ بھی کھلا مذاق ہے ۔یہ بھی کھلی دہشت گردی ہے اس کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے ۔کیونکہ آئین پاکستان اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا مسلمان ریاست کے طورپر ابھرا ،قائدین تحریک پاکستان نے اس پر مہر ثبت کی پھر اس کی مذہبی حیثیت و تشخص کو مجروح کیوں کیا جارہا ہے ؟ میاں نواز شریف کی خدمت میں گذارش ہے کہ خدارا لبرل ازم کے نشے سے نکل کر پاکستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت کریں اس پر عملی اقدام کریں اگر ایسا نہ ہوا تو تحریک پاکستان کے قائدین ،شہدائے تحریک پاکستان اور یہ قوم آپ کو دنیا وآخرت میں معاف نہیں کریں گے۔

٭کراچی میں بے نظیر بھٹو کے لعل جناب بلاول بھٹو زرداری کی آمد پر سڑکیں بند کردی گئیں کراچی شہر میں گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں لوگوں کا ہسپتالوں،گھروں،میں پہنچنا محال ہوگیا اسی دوران ایک کم سن بچی بسمہ بروقت ہسپتال تک نہ پہنچ سکنے پر موت کی آغوش میں چلی گئی ۔پاکستان کے بیدار میڈیانے اس زیادتی کو ہائی لائٹ کیا تو سب حکومتیں حرکت میں آگئیں سیاست شروع ہوگئی ،اپنی اور پی پی پی کی عزت بچانے کیلئے صوبہ سندھ کی سائیں سرکار بسمہ کے گھر پہنچ گئی صرف زبانی کلامی تسلی دی ۔دوسری طرف کے پی کے کے سرخیل عمران خان نے پرٹوکول کے نام پر سڑکیں بند نہ کرنے کا اعلان کردیا جو کہ ایک احسن فیصلہ ہے اگر اس پر عمل ہو تو۔۔۔۔۔ دیگر صوبوں اور وفاق کو بھی چاہیے کہ پروٹوکول کے نام پر سڑکیں بند کرنے والا قوم کے ساتھ مذاق بند کیا جائے۔ عمران خان نے سچ کہا کہ اگر کسی کو جان کا ڈر ہے تو وہ گھر بیٹے ۔۔۔ہونا بھی ایسے ہی چاہیے کہ جو بھی سڑک پر آئے عام آدمی کی طرح آئے اور اپنا کام کرکے واپس جائے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سڑکیں بند کرکے عوام کو ذلیل کیا جائے ۔یہ شاہی طریقہ کار ختم ہونا چاہیے ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.