صدیقی دورخلافت: سیدنا خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کی فوجی زندگی کا عہد زریں - قسط نمبر۶
(Ata Ur Rehman Noori, India)
عہدصدیقی کاآغاز حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کی فوجی زندگی کے عہدزریں کاآغازبھی ہے۔حضورﷺ کی وصال کی خبرپھیلتے ہی عرب میں بغاوتیں اور شورشیں شروع ہوگئیں،ان بغاوتوں کوفروکرنے میں سب سے نمایاں کردار حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے اداکیا۔
|
|
جنگ عقرباء(جنگ یمامہ)
وصال رسولﷺکے بعدسب سے شدیدبغاوت یمامہ کی تھی،جہاں مسیلمہ کذاب نے جھوٹی
نبوت کادعوی کرکے لوگوں کی ایک کثیرتعداد اپنے گرد جمع کرلی تھی۔مسیلمہ ایک
اسلا می دستے کوشکست بھی دے چکاتھا،اب امیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ
عنہ نے اﷲ کی تلوارحضرت خالد رضی اﷲ عنہ کواس کی طرف روانہ کیا۔آپ یمامہ
پہنچے تومسیلمہ چالیس ہزار فوج کے ساتھ عقرباء کے میدان میں صف
آراہوگیا۔شوال ۱۱؍ھ بمطابق دسمبر۶۳۲ء کوگھمسان کارن پڑااور جنگ لمحہ بہ
لمحہ تیز ترہوتی گئی،آپ نے جب دیکھاکہ دشمن کازور کسی طرح کم نہیں
ہورہاتوآپ نے فوج کی ترتیب بدل دی۔آپ نے فرمایا:ہرقبیلہ علیٰحدہ علیٰحدہ
ہوجائے اور علیٰحدہ ہوکر ہی دشمن سے مقابلہ کرے تاکہ یہ دیکھاجاسکے کہ کس
قبیلے نے کیاکارہائے نمایاں انجام دیئے۔آپ کی اس تدبیر سے مسلمانوں کے حملے
کازور بڑھ گیالیکن جب دشمن اس کے باوجود بھی میدان میں جمارہاتوآپ نے
مسیلمہ کوگھیرنے کی کوشش کی اور اس کواس حدتک دبایاکہ وہ قریب کے باغ میں
پناہ لینے پرمجبور ہوگیا بالآخر مسیلمہ ماراگیا۔اس کی موت اس کی فوج کے لیے
شکست کاباعث بنی ۔عقرباء کی جنگ میں اکیس ہزار کافرومرتد مارے گئے اور ان
میں ساٹھ ہزار تعاقب میں ہلاک ہوئے۔مسلمان شہداء کی تعدادمیں ایک بہت بڑی
تعدادقرآن پاک کے حافظوں کی بھی تھی،اب تک کسی جنگ میں نہ اتنی تعداد میں
کافر مارے گئے اور نہ ہی مسلمان شہیدہوئے۔ غالباًاس جنگ میں مسیلمہ کی فوج
کے اکیس ہزار(۲۱۰۰)لوگ مارے گئے اور بارہ سو مسلمان شہید ہوئے۔(حضرت خالد
رضی اﷲ عنہ بن ولید کی آپ بیتی،ص۲۰)
سلطنتِ فارس(ایران) کی مہم
حضرت خالد رضی اﷲ عنہ ابھی یمامہ ہی میں تھے کہ فرأت کی وادی میں ایرانیوں
اور عربوں کے مابین جنگ چھڑگئی۔خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبررضی اﷲ عنہ کے
فرمان پرآپ کوعراق کارخ کرنا پڑا۔سلطنت ایران کے خلاف لشکرکشی سے حضرت خالد
رضی اﷲ عنہ کی فوجی زندگی کے ایک نئے باب کاآغازہوتاہے۔اب تک ان کامقابلہ
اپنے ہم قوم عربوں سے تھاجواگرچہ اپنی صفات کے لحاظ سے جنگجواور دلیرتھے
مگرجنگی سازوسامان اور جنگی تجربے کے لحاظ سے مسلمانوں پرکوئی خاص برتری
نہیں رکھتے تھے۔لیکن اب آپ کاسابقہ سلطنت ایران سے تھا،جن کاشمار دنیاکی
طاقتور حکومتوں میں ہوتاتھا،جس کے پاس ہرقسم کاجنگی سازوسامان وافر مقدار
میں موجودتھا،ایرانی فوجی تربیت یافتہ سپاہی تھے اور ایرانی سپہ سالارترکوں
اور رومیوں کے خلاف طویل جنگوں کاتجربہ رکھتے تھے لیکن سیف اﷲ کے مقابلے
میں ایران کی یہ کثیرتعدادفوجیں بھی عربوں ہی کی طرح بے بس ثابت ہوئیں۔اس
عبقری سپہ سالار نے سواسال سے بھی کم مدت میں اُبلہ سے لے کرفراض تک سات
سومیل کاطویل علاقہ،جودریائے فرات کے مغرب میں تھا ، فتح کرلیا۔آپ نے یہاں
شہروں اور قصبوں کے کامیاب محاصرے کیے اور ایران نے جوبھی فوج بھیجی اسے
شکست دی۔ان لڑائیوں میں آپ کے پاس کسی بھی جنگ میں دشمن سے زیادہ فوج کبھی
نہیں رہی اور دشمن بارہاایک لاکھ اورکبھی اس سے زیادہ فوج میدان جنگ میں
لایا۔آپ نے ایران کے خلاف تقریباًپندرہ جنگیں لڑیں اور ان میں کم سے کم
پانچ جنگیں،جنگ ذات السلاسل،جنگ ندار،جنگ کسکر،جنگ الیبس اور جنگ فراضی
ایسی ہیں جن کو ہم بڑی اور سخت لڑائیوں میں شمارکرسکتے ہیں۔
جنگ سلاسل
آپ نے ایرانیوں کے خلاف پہلی بڑی جنگ موجودہ کویت کے قریب کاظمہ کے مقام
پرلڑی۔اس زمانے کے دستور کے مطابق آپ نے مغربی عراق کے حاکم ہرمزکوپہلے ایک
خط لکھاجس میں اس کواسلام کی دعوت دی اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھاکہ
:’’یادرکھوتم کوایسی قوم سے لڑناپڑے گاجوموت کی اتنی ہی آرزومند ہے جتنی تم
زندگی کی تمنارکھتے ہو‘‘۔(نورانی حکایات،ص؍۶۲،حضرت خالد رضی اﷲ عنہ بن ولید،
ص۶ ، از: محترم ثروت صولت)ہرمز نے کسریٰ فارس کو اس کی اطلاع دی اور خود
ایک بھاری بھرکم فوج لے کر آیا۔انفرادی زورآزمائی میں آپ نے ہرمز کوقتل
کردیااور ہرمزکی فوج کوشکستِ فاش ہوئی۔سیدناصدیق اکبررضی اﷲ عنہ نے ہرمز
کاقیمتی تاج آپ کویہ کہہ کرلوٹادیاکہ ’’یہ تمہارا حق ہے‘‘۔آپ نے ایک لاکھ
درہم میں اسے فروخت کیا۔اس جنگ میں ایک عجیب واقعہ رونماہواتھاامیرالمومنین
نے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کی مدد کے لئے ایک آدمی پرمشتمل کمک’’ قعقاع بن
عمرو ‘‘کوروانہ کیاتھا۔ہرمز کے سپاہی زنجیریں باندھے کھڑے تھے اس لیے اسے
جنگِ سلاسل کہاجاتاہے جوکہ محرم۱۲؍ھ مطابق اپریل۶۳۳ء میں ہوئی۔(مرجع
سابق،ص۲۴) |
|