ایک کے بعد ایک گلی وہ بے تحاشا سرپٹ دوڑ
رہا تھا بدحواس، خوفزدہ چہرہ لیئے وہ بار بار پیچھے مڑکے دیکھتا جیسے کوئ
اسکے تعاقب میں ہو.حلق میں پیاس کی شدت سے مانو جیسے خاردار کانٹے اگ آئے
ہوں.مسلسل دوڑتے رہنے سے اسکے جسم کی طاقت جواب دے چکی تھی.لیکن وہ رک نہیں
سکتا تھا.ورنہ زندگی موت کی اس دوڑ میں موت جیت جاتی کاش وہ ایسا کرسکتا
اسکی سوچوں کا محور یہ تین حرفی لفظ اسکے سامنے پوری زندگی کو ایک چلتی
سلائیڈ کی صورت میں سامنے لے آئے کاش کوئ معجزہ ہوجائے اس نے حسرت سے
سوچا.سارے رشتے ناطے دنیاوی لذتیں خواہشات اسکے ذہن و دل سے مٹ چکیں تھیں
بے ترتیب ہوتی اور اکھڑتی سانسیں ایک ہی کلمہ پڑھ رہیں تھیں گالوں پر بہتے
آنسو ماتھے پر چمکتا پسینہ ہی حقیقت تھے. اس لمحےسوائے رب کے کسی اور کا
خیال آبھی نہین سکتا تھا.لاکھ پہلو تہی کرو دنیا میں گم کرلو پر اسکے ذکر
سے کبھی غافل نہیں ہوسکتے.یہی تو قدرت کا معجزہ ہے.ڈگ ڈگ کرتے تیز قدموں نے
دوڑ کی شکل اختیار کرلی تھی پر گلیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہین لے رہیں
تھیں آج شام وہ جیسے ہی تھانے سے ڈیوٹی ختم کرکے نکلا تب سے ہی جیسے قسمت
کی خرابی نے پیچھا پکڑ لیا ہو بائیک خراب ہوگئ .سروس ریوالر بھی تھانے کے
لاکر میں بھول آیا پھر شومئ قسمت اسنے گھر کے لیے پیدل کا راستہ اختیار کیا
جو اب ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا. تھوڑی دور چلنے کے بعد ہی اسے
محسوس ہوا کہ اسکا پیچھا کیا جارہا ہےیہ احساس ہوتے ہی ا یک عجیب سا خوف
اسکی ذات کا حصار کرنے لگا.گھر نزدیک آگیا تھا پر تعاقب میں دوڑتے قدموں کی
آواز اور قریب آتی جارہی تھی. ریاض جیسے ہی اپنی گلی میں داخل ہوا تو سامنے
ایک بند پڑے کیبن کی آڑ میں چھپ گیابیچ دسمبر کی ہلکی سرد رات گلی سنسان
پڑی تھی لوگ گھروں میں تھے مناحل بھی سرد ہوا سے بچنے کے لیئے گھر کے
کھڑکیاں دروازے بند کرنے بڑھی تب ہی اسنے حیرت سے سامنے چھپے ریاض کو دیکھا
اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ پاتی. اسنے ہاتھوں میں اسلحہ لیئے کچھ لوگوں کو اس
سمت آتے دیکھا ہڈیوں میں سرایت ہوتے ایک انجانے خوف سے اسنے ایک دم دروازہ
بند کیا اور وہیں دیوار کے ساتھ بیٹھ گئ.بے جان گارے سیمنٹ سے بنی دیواریں
کم سے کم ہم زندہ انسانوں سے تو لاکھ بہتر ہوتیں ہیں. تم یہاں دیکھو اور
پرویز تم دوسری گلی میں جاؤ.ندیم وہ سامنے گلی میں جہاں دوکانیں ہین وہاں
ڈھونڈو آخر بچ کے جائے گا کہاں بہت شوق تھا خون سے کھیلنے کا آج ہم اس.....
سے کھیلیں گے.ایک کثیف گالی کے ساتھانکے بھیانک قہقہوں میں موت کی گونج
نمایاں تھی مناحل نے اپنے کانوں پر ہاتھوں کی گرفت سخت کرلی.پر بھاگتے
قدموں کی دھمک نے جیسے دیواروں میں بھی ارتعاش پیدا کردیا تھا.بس کچھ وقت
اور .وہ دیکھو وہاں چھپا ہے ریاض کیبن سے نکل کر پھر بھاگا اس بار گھر
سامنے تھا وہ چاہتا تو گھر میں داخل ہوجاتا اگر میری وجہ سے میری فیملی بھی
...نہیں یہ سوچ کے ہی اسکی روح کانپ گئ میرا بیٹا آج ہی تو اسنے پہلا قدم
اٹھانا سیکھا بیوی بہن ماں وہ سب یہاں ہیں یہ لوگ تو نہیں جانتے نا شاید
ایک سیکنڈ کے بھی ہزارویں حصے میں اپنے قدم پھر دوسری گلی موڑ لیئے جانے کس
احساس کے تحت جسم باقی تھا روح تو بہت پہلے ہی جانے کا فیصلہ کرچکی تھی.
ایک مناحل ہی کیا سب سن رہے تھے زندگی سے موت تک بڑھتے قدموں کی چاپ پر
جیسے سب پس دیوار مردہ ہوچکے تھے زندگی بھی تو ایک بند گلی ہی ہے جسکا ہر
راستہ موت پر جاکر ختم ہوتا ہے. سانسوں کے زیروبم کے بیچ دل کی بڑھتی
دھڑکنیں اضطراب ،وحشت بے بسی کا تماشہ دکھارہیں تھیں بس تھوڑی دیر اور پھر
اسٹیج کا پردہ بہت ساری تالیوں کی گونج کے ساتھ گرجائے گا. سنیں نا پھر ہر
ایک نے سنیں وہ موت کی آگ اگلتی آوازیں نفرت بھرے قہقہے پورے کے پورے برسٹ
خالی کرنے کے بعد بھی بند نہیں ہوئے. خاموش فضا گولیوں کی آواز سے گونج
اٹھی پھر ہر طرف خاموشی کسی طوفان کے جانے کے بعد کی جس میں سوئ کے گرنے کی
آواز کو بھی سنا جاسکتا تھا.سب منتظر تھے قدموں کی چاپ ختم ہونے کے کون پہل
کرےگا.نہیں پہلے وہ تڑپتا جسم ٹھنڈا ہونے دو.تاکہ کسی بچانے والے کی بھی
ضرورت نہ پڑے اسکے بعد چوپالیں سجیں گیں گرم گرم دھواں اٹھاتے قہوؤں کی مزے
دار چسکیوں کے بیچ یہ بحث کی جائے گی کہ آیا وہ اس موت کا حقدار تھا بھی کہ
نہیں پیچھے رہ جانے والوں کے لیئے تاسف کا اظہار اور چہ ءمگویاں کیں جائیں
گیں. پر ریاض کے جسم کو شاید تڑپنے کی بھی مہلت نہیں ملی .اسکے چہرے پر ایک
ابدی سکون تھا اسکا اضطراب ختم ہوچکا تھا اور شاید سب کا بھی .زندگی پھر
لوٹ آئ آگے کا کوئ راستہ ہی نہیں تھا. جب ہی تواسکے گھر سے بین کی آوازیں
بلند ہونے پر بند گھروں کے دروازے ایک ایک کرکے کھلنے لگے. |