لینڈرا

’’ارے او فقیرے․․․․جرا انگئے کو (ذرا ادھر) آنا۔‘‘
بابا رحیم کی آواز پر فقیر محمد ، دوڑتا ہوا آیا۔
’’جی بابا۔ کاکئے ریو(کیا کہہ رہے ہو؟)‘‘
’’ارے جرا حقہ بھرلا— اور تاجا بھی کرلائیو—‘‘
بابا کے کہنے پر اس نے حقے کی پیتل کی فرشی کو اس کی گردن سے پکڑ کر اٹھایا۔ بڑی احتیاط سے چلم کو نہچے سے اتارا۔ نہچے کو فرشی کی گردن سے الگ کیا۔ نہچے کی بناوٹ بالکل بندوق جیسی تھی۔ فقیر محمد کے دل میں لمحے بھر کو ایک خیال آیا۔ اس نے حقے کے نہچے کوبندوق کی طرح پکڑ لیا اور تصور میں اپنے سبھی دشمنوں کو ٹھائیں ٹھائیں․․․․ کردیا۔ اس کو گاؤں کے ہر اس شخص سے نفرت تھی جو اسے لینڈرا کہتا تھا۔ کتنی نفرت اور حقارت ہوتی تھی ان کے لہجے میں۔ اسے وہ دن بھی یاد تھا جب وہ پہلی بار گاؤں صدر پور میں اپنی ماں کے ساتھ آیا تھا۔

فقیر محمد، اپنی ماں کے ساتھ سلیم پور گاؤں میں رہتا تھا۔ اس کی عمر ۵ ؍سال تھی۔ اس کے والد ٹی بی کے مریض تھے۔ انھیں خون کی الٹیاں ہوتی تھیں۔ ایک دن بیماری نے انھیں شکست دے دی۔ لوگوں نے والد صاحب کو خاک کے سپرد کردیا ۔ وہ اور اس کی ماں روتے رہ گئے۔ وہ دونوں بھری دوپہری میں بے سایہ ہوکر رہ گئے تھے۔ غریبی کا زمانہ تھا۔ لوگوں کے پاس کھانے کو وافر مقدار میں اناج نہیں ہوتا تھا۔ گیہوں کی روٹی کم لوگوں کو نصیب ہوتی تھی۔ گیہوں کا آٹا مہمانوں کے لیے رکھا جاتا تھا۔ باقی دنوں گھر کے لوگ جَو،بے جھڑ ،مٹر اور باجرے کی روٹیاں کھاتے تھے۔․․․․فقیر محمد کو گیہوں کی روٹی ہی اچھی لگتی تھی۔ اسے جَو اور باجرے کی روٹی بالکل پسند نہیں تھی۔ جب کبھی مہمان آتے، تو وہ انتظار میں بھوکا رہتا۔ کاش مہمانوں کے آگے سے روٹی کا کوئی ٹکڑا بچ جائے۔ بچا ہوا ٹکڑا ماں اسے ہی دیا کرتی تھی۔ بعد میں وہ، مجبوری میں جَو کی روٹی سے پیٹ بھرتا تھا۔

فقیر محمد کے والدکے انتقال کے بعد عدت پوری ہوتے ہی اس کے ماما ان دونوں کو اپنے گاؤں مہیپے لے آئے تھے۔نانا کا انتقال پہلے ہی ہوچکا تھا۔ بوڑھی نانی— اور دوماموں— مائیں اور ان کے بچے——سب نے ان کے غم میں برابر کا شریک ہوتے ہوئے ان سے ہمدردی جتائی تھی۔ بڑے ماموں افسردہ لہجے میں بولے۔
’’اب جیسی اوپر والے کی مرجی— ایک دن تو سب کو‘ جانوَ(سب کو جانا) ہے۔‘‘
نانی کی آواز بمشکل گلے سے نکل رہی تھی۔
’’بٹیا ہمار کو تو بھاگیہ ہی پھوٹ گیو(ہمارا توبھاگیہ ہی پھوٹ گیا)۔‘‘
مائیں نے فقیر محمد کو گود میں اٹھالیا اور پیار کرنے لگی تھیں۔
نانی اور امی، مائیں اور امی، باری باری گلے مل کر روئیں تھیں۔ کچھ دیر بعد حالات معمول پر آنے لگے تھے۔ ہر شخص فقیرمحمد اور اس کی ماں کا خیال رکھتا۔

وقت پرواز کرتا رہا۔ فقیر محمد اب ۱۰؍ برس کا ہوگیا تھا۔ وہ ماموں کے ساتھ کھیت کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتا۔ اس کی امی گھر کے کام کاج میں جٹی رہتیں۔ ان سب کے باوجود گھر کے ماحول میں ایک زبردست تبدیلی پیدا ہوگئی تھی۔ نانی کے علاوہ گھر کے سبھی افراد ان دونوں سے اندر اندر کڑھنے لگے تھے۔ کئی بار فقیر محمد نے خود اپنی مائیوں کو آپس میں باتیں کرتے سنا۔
’’ہماری چھاتی پر آپڑی ہے۔‘‘
’’پتہ نہ کب ٹلن گے(ٹلیں گے) یہاں سو۔‘‘

حد تو اس وقت ہوگئی جب ماموں کے رویے میں بھی تبدیلی آنے لگی ۔ ان کے بچے بھی اب فقیر محمد کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ بلکہ اس کی توہین اور بے عزتی کرنے کا موقعہ تلاش کرتے رہتے۔ ایک بار فقیر محمد اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ساتھ میں ان کے دوست بھی تھے۔ بال کسی پڑوسی کے گھر چلی گئی تھی۔ ماموں زاد نے بڑی حقارت اور تحکمانہ انداز میں کہا۔
’’او، فقیر— جا بال لی آ—‘‘
فقیر محمد کو بہت برا لگا۔ وہ اپنی جگہ کھڑا رہا۔ ماموں زاد بدتمیزی پر اتر آیا۔
’’ ابے او۔ جا وے کہ نا․․․ سالے بہت مارن گو(ماروں گا)— ‘‘
اور اسے اس کے دوستوں نے بھی گھیر لیا تھا۔ وہ قہر اً جبراً بال کے لیے چلا گیا تھا۔

فقیر محمد کو اس وقت بہت غصہ آتا جب کوئی اس کی ماں کوبرا بھلا کہتا۔ جی میں آتا کہ کہنے والے کامنھ نوچ لے۔ لیکن بے بس ہوکر رہ جاتا۔ ابھی اس کی عمر کم تھی دوسرے وہ ان کے رحم وکرم پہ ہی تو تھے۔ دراصل انسان کی پہچان، برے وقت میں ہی ہوتی ہے۔ برا وقت جب کسی پر آتا ہے تو رشتہ دار اور احباب کچھ ہی دن اس سے ہمدردی جتاتے ہیں۔ پھر ایک ایک کرکے اچھے دنوں کی مانند رخصت ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک تو عام بات ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمدردی جتانے والے اقربا اور احباب شدید نفرت کرنے لگتے ہیں۔ مخالف ہوجاتے ہیں۔ نقصان پہنچانے کے منصوبے بنانے لگتے ہیں۔ماں بیٹے پر ایسا ہی وقت آگیا تھا— فقیر محمد سب سمجھنے لگا تھا۔ اب وہ دونوں نانہال میں بوجھ بن گئے تھے۔ پر وہ کرتا بھی تو کیا۔ ابھی تو اس کی عمر ہی کم تھی۔ دل مسوس کر رہ جاتا۔ بس اﷲ سے دل ہی دل میں دعا کرتا۔
’’اے اﷲ،ہمارے اوپر رحم کریو—‘‘
•••••••
گاؤں صدر پورمیں رحمت اور رمضان دوبھائی رہتے تھے ۔ دونوں کے پاس گزارے لائق زمین تھی۔ رحمت کی بیوی کو کینسر ہوگیا تھا۔ غریبی اور کینسر جیسی بیماری — غریب تو بیمار ی کا نام سن کر ہی مرلیتا ہے۔ یہی ہوا، رحمت کی بیوی علاج کے فقدان میں وقت سے قبل ہی موت کی آغوش میں سماگئی۔ رحمت کے پاؤں میں لنگ تھا۔ انھیں زیادہ تر لوگ رحمت لنگڑے ، لنگڑا اور لنگڑے بابا کہہ کرپکارتے تھے۔ رحمت کی عمر بھی کوئی ۳ کم چالیس رہی ہوگی۔ لیکن غربت نے انھیں، جلد ہی بوڑھا کردیا تھا۔ ان کی لنگڑاہٹ کا بھی ایک قصہ تھا۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ گاؤں میں ایکھ(گنّے کا کھیت) شباب پر تھی۔ کولہو لگ چکے تھے۔ کولہوؤں پر رات دن کام ہوتا تھا۔ رات کو کولہو کے کڑھاؤ کے پاس لوگوں کی بھیڑ ہوتی۔ کچھ توسردی دور کرنے اور کچھ گڑکی خوشبو لینے آجاتے– گڑ کے بھیلے بنائے جارہے ہوتے۔ کولہو کے آس پاس زندگی ہی زندگی نظر آتی۔

کولہو پر اب رحمت اور رمضان کی ایکھ کی باری تھی۔ دونوں بھائیوں نے گانڈے (گنّے) ڈھوکر پہلے ہی کولہو کے پاس ڈھیر لگادیا تھا۔ رحمت نے کولہو میں گانڈے لگانے کا کام لے لیا اور رمضان بیلوں کو ہانک رہا تھا۔ رحمت تین۔تین،چار۔چار گانڈے ایک ساتھ لگاتا۔ گانڈے لگانے پر کولہو کے بیلن ٹائٹ ہوجاتے۔ بیلو ں پر بھی زو رپڑتا لیکن اگلے لمحے ہی رس دھار کی شکل میں نکلتا۔ لکڑی کے پتنالے سے ہوتا ہوا گول (گھڑے نمابرتن)میں جاگرتا۔ جوکہ گڈھے میں رکھی ہوتی۔ دوسری طرف گانڈے کی کھوئی نکل کر گرتی۔ کھوئی جمع ہوتے ہوتے ایک چھو ٹا سا پہاڑ بن جاتا۔ رحمت باربار اُسے کولہو سے دور کرتا رہتا۔ رحمت کولہو میں گانڈے پیلتا اکثر سوچتا۔ انسان کی زندگی بھی کولہو کی طرح ہے، جسے گانڈے کی شکل میں ہر وقت خوراک چاہیے ورنہ، رَس کہاں سے نکلے گا، اور رَس نہیں نکلے گا تو گڑ کہاں سے آئے گا۔ چینی کیسے بنے گی۔ یعنی زندگی میں مٹھاس کہاں سے آئے گی؟ ہم سب زندگی میں کبھی کولہو کے بیل ہوجاتے ہیں۔ کبھی کولہو میں گانڈے پیلتے ہیں۔ کبھی بیلوں کو ہانکتے ہیں۔ کبھی کڑھاؤ کے نیچے بنے جھوک میں آگ سلگاتے ہیں اور کبھی رس کو کَھولاتے ہیں۔ طرح طرح کے پاؤڈر ڈال کر اسے صاف کرتے ہیں اور روادار بناتے ہیں۔ یہ سب کام ایک شخص کا نہیں ہے۔ کولہو مشترکہ نظام زندگی ہے۔ لوگوں کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ اکیلا آدمی سارے کام خود نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکیلا آدمی زندگی کی دوڑ میں بھی کبھی کبھی ناکام رہ جاتا ہے—
’’ابے رحمت! دوسری طرف سے کھوئی ہٹا— کہاں کھویو(کھویا ) ہے؟‘‘

رمضان کی آوا ز پر رحمت چونکا۔اُس نے بیٹھے بیٹھے ہی اپنی ایک ٹانگ کھوئی کے چھوٹے سے پہاڑ پر ماری ۔اس سے قبل کے وہ اپنی ٹانگ کو کھینچ پاتا۔ اس کا توازن بگڑ گیا اور اس کی ٹانگ کولہو کے بیلن میں آ گئی۔
’’کڑاک۔‘‘
ٹانگ کا نچلا حصہ ہڈیوں سمیت پس گیا۔ اور ایک فلک شگاف، جگر خراش چیخ بلند ہوئی۔

رمضان بیلوں کو چھوڑ، رحمت کی طرف لپکا۔ آس پاس کے لوگ گرتے پڑتے، دوڑے، رحمت کا خون گانڈے کے رس میں تحلیل ہوکر گول میں جا پہنچا تھا۔ اور اس نے رس کی رنگت تبدیل کردی تھی۔ سرمئی رنگ بھی خون میں مل کر گہرا لال ہوچکا تھا بلکہ کچھ کچھ کتھئی— ایسا لگ رہا تھا گویا کسی جاگیر دار نے گاؤں کے کسانوں اور مزدوروں کو کولہو میں پیل کے ان کا رس نکال دیا ہو۔

رحمت کو فوراً بُگی میں ڈال کر شہر لے جایا گیا۔ جہاں ڈاکٹر نے اس کی ٹانگ کا آپریشن کیا۔ زہر پھیلنے سے بچانے کے لیے رحمت کی ٹانگ کو گھٹنے کے نیچے سے کاٹا گیا۔ غریبی کا زمانہ تھا آپریشن او ر علاج معالجے میں ہزاروں روپے کاصرفہ آیا، رحمت کے بابا نے دو بیگھہ زمین پر رحمت کو فوقیت دی۔

رحمت ایک مہینے سے زیادہ اسپتال میں رہا۔ اسپتال سے آنے کے بعد کچھ دن لوگوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ رہیں۔ لوگ اس سے اسپتال کا حال پوچھتے۔ حادثے کے بارے میں جاننا چاہتے۔ وہ صرف اتنا ہی کہتا۔
’’ہونی کو کون ٹال سکے َ—‘‘
لوگوں کی ہمدردیاں آہستہ آہستہ مذاق کا روپ دھار چکی تھیں۔ اب لوگ اسے دور سے ہی آوازیں لگاتے۔
’’رحمت لنگڑے—‘‘
’’او لنگڑے—‘‘
’’ابے لنگڑے کی اولاد—‘‘

رحمت کے دل پر گھونسے پڑ تے۔ پر وہ مجبور تھا۔ رحمت کی غریبی کا مذاق اس وقت مزید اُڑا، جب دو سال بعد ہی اس کی بیوی کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر اس کا سا تھ چھوڑ گئی، وہ بھری پری دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا۔ لوگ اُس سے طرح طرح کا مذاق کرتے ۔
’’ لنگڑے تو، رنڈوا ہو گوَ‘‘
’’اب کون تیرے دانت دیکھےَ گوَ‘‘
لو گوں کے جملے اس کے زخموں کو ہوا دیتے، وہ تلملا کر رہ جاتا۔

عرصے بعد رحمت کی زندگی میں خوشی کا کوئی پیغام آ یا تھا۔ اُ سے پتہ چلا کہ اس کے بابا نے اس کی دوسری شادی کی بات کی ہے۔ لڑکی کا شو ہر مرچکا ہے۔ ایک بیٹا ہے۔ بابا نے لڑ کی کے بیٹے کو اپنے یہاں لانے سے منع کردیا۔لیکن لڑکی کے ما موں وغیرہ نے شا دی کی شرط ہی لڑکے کے ساتھ بدائی رکھ دی تھی۔ کا فی گفتگو اور تبادلۂ خیال کے بعد رحمت کے بابا کو لڑکی وا لوں کی شرط ماننی پڑی۔
سادہ طریقے سے نکاح ہو گیا۔ فقیر محمد اپنی ماں کے ہمراہ رحمت کے گھر آ گیا۔
•••••••
گاؤں صدر پور میں یہ پہلا وا قعہ تھا جب کسی عورت کے سا تھ، اس کا بیٹا بھی جہیز میں آیا ہو۔جیسے رحمت نے شا دی نہ کی ہو بلکہ گلا ؤ ٹھی کی پینٹھ سے ایک بھینس، کٹرے سمیت خرید لایا ہو۔پورے گا ؤں بلکہ آس پاس کے گا ؤں میں بھی فقیر محمد کے چرچے پھیل گئے۔لوگ بے سبب بھی فقیر محمد کو دیکھنے آ نے لگے۔ پہلی بار گا ؤں میں ایسا ہوا کہ دلہن کی بجائے لوگ فقیر محمد کو دیکھنے آرہے تھے۔گویا فقیر محمد دنیا کی نئی نویلی خوبصورت دلہن ہو، اور رحمت کی شادی اس کی ماں سے نہیں فقیر محمد سے ہو ئی ہو۔

تقریباً دس برس کا فقیر محمد، ان سب باتوں سے زیا دہ با خبر نہیں تھا۔ اُسے تو یہ پتہ تھا کہ اُسے ماموں کے گھر سے نجات ملی ہے۔ لیکن لوگ اُ سے حیرا نی سے کیوں دیکھ رہے تھے۔ اس کے اندر ایسی کون سی بات تھی۔ اُ سے خود پتہ نہیں تھا۔ اُس دن اُ سے بڑی حیرا نی ہو ئی جب گا ؤں کے ایک بے حد مذا قیہ ملکھان چاچا ان کے گھر آ ئے۔ اور آواز لگائی۔
’’ ابے رحمت! کہاں ہے تو․․․․․․․‘‘
رحمت کے بجا ئے فقیر محمد باہر آ یا۔
’’اچھا، تو، تو ہے۔ لو نڈے، لینڈرا۔‘‘
فقیر محمد کچھ نہیں سمجھ پا یا۔ہاں اتنا ضرور ہوا کہ اس دن کے بعد سے گاؤں میں اس کا نام لینڈرا پڑ گیا۔چھو ٹے ،بڑے سبھی اُ سے لینڈرا پکا رتے۔
’’اولینڈرے․․․․․․․‘‘
تخا طب میں حقا رت شامل ہو تی۔
فقیر لینڈرے․․․․․․․یہ کام کردے۔‘‘
’’ اپنی ماں کے دہیج میں آ یوَ لینڈرے․․․․․․․‘‘
ہر نسل اور ہر شخص کا اپنا الگ انداز ہو تا۔ شروع شروع میں تو اُ سے عجیب سا لگتا۔ اس کی شریا نوں میں گرمی سی آ جاتی۔ غصے کی ایک رمق چہرے کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچ جاتی۔لیکن جلد ہی رفو چکر بھی ہو جاتی۔وہ بے بس تھا۔
•••••••
وقت کا دریا بہتا رہا۔لینڈرے کی ماں نے یکے بعد دیگرے دو بیٹے پیدا کیے۔ بھو را اور کلوا۔ بتا نے کی ضرورت نہیں کہ ان کے نام ان کے رنگوں کے اعتبار سے گاؤں کے ان پڑھ لوگوں نے رکھ دیے تھے۔رحمت کو اتنا ہوش کہا ں تھا کہ وہ اپنی لنگڑی زندگی سے فرصت کے لمحات نکالتا اور دماغ کو اچھے ناموں کے لیے استعمال کرتا۔

بھورا بڑا تھا اور کلوا چھو ٹا۔دونوں بھا ئی اب جوا نی کی سر حد میں دا خل ہو رہے تھے۔ جوانی تو لینڈرا پر بھی آ ئی تھی، پر کب آ ئی ،کب گذر گئی،اس کے نشان بھی با قی نہیں تھے۔لینڈرا، سب کے لیے لینڈرا تھا۔اس کے چھو ٹے بھا ئی بھی اُ سے لینڈرا ہی پکا رتے۔ طرح طرح کے کاموں کے لیے حکم دیتے۔ لینڈرا پو رے گاؤں کا بے اُجرت مزدور تھا۔کوئی اُس سے حقہ بھرواتا،کوئی بونگے سے بُھس نکلوا تا، کو ئی اپنی داڑھی بنوا تا،کسی کی گائے بھینس، ہری کروا نے لے جاتا، کسی کے کھیت سے برسن لاتا،کسی کے بچوں کو ٹیکہ لگوا تا۔ عورتیں بھی لینڈرا سے اپنے ذا تی کام کرواتیں۔لینڈرا سے کو ئی عورت پردہ نہیں کرتی․․․․․بازار جاتا تو سا رے محلے کے گھروں کا سامان لاتا۔حتیٰ کہ لینڈرا سے عورتیں میک اَپ کا سا مان اور دیگر خفیہ چیزیں بھی منگوا لیتیں۔ لینڈرا سب کے سا مان الگ الگ لاتا۔کسی کا سا مان رِلتا نہیں تھا،کسی کی چھان ٹوٹ جاتی تو لینڈرا مزدوروں کے ساتھ جٹ جاتا۔ شا دی بیاہ تو لینڈرا کی موجود گی کے بغیر تقریباً نا ممکن تھے۔ہر شادی میں اس کا ہو نا ضروری تھا۔ برتن صاف کرنا،دستر خوان لگانا۔کھانا شروع ہو جائے تو کھانا کھلوانا۔کسی کوکھیت میں پا نی لگوا نا ہو تا تو لینڈرا ہی کام آتا۔حتیٰ کہ مےّت کے بہت سا رے کام بھی و ہی کرتا۔ ان تمام کاموں کے صلے میں کوئی بچا ہوا کھانا دے دیتا۔کسی کے یہاں سے دھوتی مل جاتی۔ کسی کے یہاں سے کُرتا۔چائے تو وہ کسی کے بھی گھر پی لیتا تھا۔ہر گھر کے اندر اس کا آ ناجانا بے روک ٹوک تھا۔

اس کے اپنے گھر میں بھی بھو را اور کلوا زیا دہ تر کام لینڈرا سے ہی کروا تے۔حتیٰ کہ بھو را اور کلوا کی شا دی کے وقت بھی لینڈرا ہی آ گے آ گے تھا۔ وہ بھا ئیوں کی ایک سا تھ شا دی پربہت خوش تھا۔گو یا اس کی ہی شا دی ہو رہی ہو۔ٹھیک یاد آ یا۔اس بیچارے کی شادی کی تو بات بھی پیدا نہیں ہوئی۔گھر ،گاؤں اور پو رے سماج نے پہلے ہی سے مان لیا تھا کہ لینڈرا شا دی کے لائق نہیں ہے۔

گا ؤں کی عورتیں، جن میں بزرگ عورتیں بھی شا مل تھیں اور نو جوان لڑ کیاں اور بہو ئیں بھی،سب لینڈرا سے ایسی گھلی ملی تھیں جیسے لینڈرا انہیں کی نسل کا ہو۔کسی کو لینڈرا کے مرد ہو نے کا یقین نہیں تھا۔ وہ اس کی موجود گی میں اپنی خفیہ باتیں بھی کرلیتیں،بغیر دو پٹے اس کے سامنے آجاتیں۔لینڈرا سے نہا نے کا گرم پانی غسل خا نے میں رکھوا تیں۔کبھی کبھی ہاتھ پا ؤں بھی دبوالیتیں۔
•••••••
بھو را اور کلوا کی شا دی میں لینڈرا نے آ گے بڑھ کے خوب کام کیا۔سب لوگ بارات کے ساتھ گئے تھے اور لینڈرا کو گھر کی عورتوں کی رکھوالی کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔عورتوں اور لینڈرا نے مل کر دُلہنوں کے استقبال کی تیاری کی۔دو کمرے صا ف کرکے سجائے گئے۔ بستروں پر خوبصورت چادر اور پھولدار غلاف وا لے تکیے۔ لینڈرا نے گیندے اور گلاب کے پھول اور کچھ ہری پتیاں لاکر انہیں بستروں پر بکھیرا اور گلاب جل بھی چھڑکا۔

رات کو ۱۲؍ بجے کے قریب بارات دُلہنوں سمیت وا پس آ ئی۔ رسموں کی ادائیگی کے بعد سب نے اپنے اپنے بستر پکڑ لیے۔ دُلہنوں کے کمرے بند ہو چکے تھے۔ بارات کا گھر تھا،کام کرکے سب تھک گئے تھے۔جلدہی گھو ڑے بیچ کر سو گئے۔لینڈرا جاگتا رہا۔ وہ سب کے بستروں کا انتظام کرتا رہا۔کسی کے پائنتیں چادر،کسی کے سرہانے تکیہ․․․․․․․․کہیں پانی کا لو ٹا ،بھر کے رکھا۔
’’ارے او فقیرا‘‘

بابا کی آواز پر وہ یا دوں سے با ہر نکل آ یا’’جی بابا‘‘ کہتا ہوا بھا گا۔بابا نے اُسے حقہ بھرنے اور تا زہ کر نے کو کہا تھا۔ اُسے بابا بہت اچھے لگتے تھے۔وہ اُ سے فقیرا کہتے تو اُسے برا نہیں لگتا۔بابا رحیم ،رحمت کے وا لد تھے۔وہ لینڈرا سے محبت کرتے تھے۔ اسی لیے جہاں سا ری دنیا اُسے لینڈرا کہتی تھی، بابا اُ سے فقیرا کہتے․․․․․․اُ سے ان کی چھوٹی سی سفید دا ڑھی بہت اچھی لگتی تھی․․․․․․․رات کے دو بج رہے تھے۔ بابا کو بھی نیند نہیں آ رہی تھی۔ویسے بھی وہ رات کو جاگتے تھے اور دن میں بیٹھک میں پڑے خراٹے بھرتے رہتے۔ وہ حقہ لیے اندر آ نگن میں آ یا۔ ہر طرف چارپائیاں بچھی تھیں۔کسی پر ایک کسی پر دودو لوگ سورہے تھے۔نل کے چبوترے پر حقہ رکھ کر اس کی فرشی کو اٹھا کر پا نی گرا یا۔نل سے پا نی کھینچ کر اُس نے فرشی کو خوب رگڑ رگڑ دھو یا۔نہچے کے ایک سرے سے پانی ڈالنا شروع کیا اور دوسرے سرے پر انگو ٹھا رکھ لیا۔ پا نی بھرنے کے بعد اُسے خوب آگے پیچھے ہلایا اور انگو ٹھا ہٹا دیا۔ پو را پا نی ایک رفتار کے ساتھ پیچھے آ رہا گویا پتنالے کی مٹی ہٹا دی گئی ہو۔فرشی اور نہچے کو خوب اچھی طرح تازہ کر کے اس نے برآمدے میں رکھا ۔تمبا کو کی تھیلی سے تمبا کو لیا اس کا گولا سا بنایا۔چلم کے بیچوں بیچ رکھی چغل پر رکھ کر اس کے اوپر توا رکھ دیا،جس کی پتلی سی زنجیر چلم کی گردن سے جڑی ہو تی تھی۔ اُسے یہ پتلی سی زنجیر بہت اچھی لگتی تھی۔ چلم کو سجا کر وہ اُسارے کے اُس حصے کی طرف بڑھا جدھر مٹی کا چولہا اور بروسی ہو تی تھی۔بروسی میں ہر وقت آگ ہوا کرتی تھی۔ اس کی ماں رات کو بروسی میں اُپلے داب دیا کرتی تھی۔ پھر شا دی کی رات تو چو لہے بھی دیر تک گرم تھے۔ اس کا اندازہ تھا کہ آ گ ضرور مل جائے گی۔وہ اطمینان سے چولہے میں آگ تلاش کررہا تھا۔ آگ میں تپے سرخ اُپلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے کچھ کام تو بنا لیکن ابھی آگ کی کمی تھی۔ اس نے بروسی میں آگ ٹٹولی۔چلم میں آگ پو ری طرح رکھ کر جیسے ہی وہ پلٹا، اس کاپاؤں چمٹے پر پڑا۔’’پڑاک‘‘ کی آواز کے سا تھ ایسا لگا گویا کسی نے خا موشی کی کمر میں خنجر اتار دیا ہو۔پاس ہی چار پائی پر حرکت ہو ئی پھر کسی نے پکا را۔
’’کون ہے․․․․․․․․؟‘‘
آواز کلوا کے ماموں کی شادی شدہ بہن کی تھی۔ جو شا دی میں شریک ہو نے ایک ہفتے سے آئی ہو ئی تھی۔
’’میں․․․․․․․میں․․․․․‘‘
’’میں کون․․․․․․لینڈرا․․․․․․․‘‘
’’ہاں․․․․․․ چلم بھرنے آیو تھو۔(آیا تھا)‘‘
لینڈرا کہنے پر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی گویا چلم کی آ گ نے اس کے بدن کے حُقّے کو سلگا دیا ہو۔ نجانے کیوں وہ ایک عورت کے منہ سے لینڈرا سن کر جل گیا تھا۔
’’ادھر کو آ نا لینڈرے․․․․․․․․․‘‘
’’جی․․․․․․․․․‘‘
وہ چار پائی کے پاس چلا گیا۔ پو را گھر محو خواب تھا۔ سناٹے اور خا موشی کی حکومت تھی۔لینڈرا کے پاس آ نے پر، پھر حکم ہوا،
’’حُقہ رکھ دے اور جرا مری ٹانگیں داب ۔‘‘
لینڈرا رو بوٹ کی طرح شروع ہو گیا تھا۔ عورتوں کی ٹانگیں دبانے کا اس کا یہ کو ئی پہلا موقع نہیں تھا۔وہ اکثر اپنی اماں کی ٹا نگیں دبایا کرتا تھا۔ اُ سے اچھا لگتا تھا۔ اُ سے خدمت کرکے خوشی ہو تی تھی۔
’’لینڈرے جرا جور سے دبا۔اور اوپر تک۔‘‘
لینڈرا زور زور سے ٹانگیں دبا نے لگا۔اوپر کی طرف جب اس کے ہاتھ گئے تو اس کے بدن میں عجب سی چینٹیاں رینگنے لگیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لینڈرا کو لگا جیسے اُسے ہلکا ہلکا بخار ہونے لگا ہے اور اس کے ہاتھوں میں جان نہیں ہے۔
’’ارے کہاں مرگو َافقیرا․․․․․․․․․․‘‘
بابا کی آ واز پر لینڈرا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حقہ لے کر با ہر آگیا۔بابا نے حقہ کے انتظار میں ایک جھپکی لے لی تھی۔حقہ دے کر وہ باہر ہی کو نے میں پڑی جھنگولہ کھاٹ میں پڑ گیا۔نجانے کب اس کا بخار کم ہوا اور کب نیند نے اُسے بے خبر کردیا۔
اگلے دن گھر میں خا صی چہل پہل تھی۔ مہمان رخصت ہو رہے تھے۔لینڈرا کو کچھ بھی یاد نہیں تھا۔خواب کی طرح وہ سب کچھ بھول گیا تھا۔
••••••••
وقت کی ہوا کب رکتی ہے۔پچھوا ہوا کی طرح،فصلوں کو جلد پکا دیتی ہے۔بچوں کو جوان اور جوانوں کو بو ڑھا کرنا اس کا معمول ہو تا ہے۔لینڈرا پچاس کے لپیٹے میں آ چکا تھا۔اس کے بابا، اور اس کی ماں اﷲ کو پیا رے ہو چکے تھے۔ کلوا اور بھو را اپنی اپنی زندگی گذار رہے تھے۔لینڈرا کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آ یا تھا۔ وہ آج بھی گاؤں کے لیے لینڈرا ہی تھا۔گاؤں میں کسی کے بھی چھول پڑتی، لینڈرا، بل کٹی لیے کھیت میں ملتا۔کھیت بو نے کا وقت ہو یا فصل کاٹنے کا۔کھلیان میں اناج نکالنے کی بات ہو،یا اناج کو دھڑی کے با ٹوں سے تولنے کی․․․․․․․لینڈرا ہر جگہ موجود ہوتا۔ لینڈرا کو کبھی کبھی ایسا محسوس ہو تا گو یا پو را گاؤں ہی اس کا کُنبہ ہے۔لیکن اگلے ہی پل اُسے لینڈرا کہنے وا لے کچھ لوگ، برے بھی لگتے تھے۔اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اُن سب سے کہے کہ میں ہی اکیلا لینڈرا نہیں ہوں بلکہ تم سب لینڈرے ہو۔تم سب اپنے باپوں کی اولاد نہیں ہو۔ تم سب کم اصل ہو۔لیکن وہ یہ بات دل کے اندر ہی اندر کہتا اور سکون حاصل کرلیتا۔

ایک دن اس کے گھر میں کہرام مچا تھا۔کلوا اور اس کی بیوی میں لڑا ئی ہو رہی تھی․․․․․محلہ اکٹھا ہو گیا تھا۔کسی نے کلوا کو کہہ دیا تھا کہ تمہا ری بیوی را مو کے بیٹے کے سا تھ کھیت میں رنگ رلیاں منا رہی تھی۔کلوا نے بنا تحقیق کیے گالیاں دینا شروع کردیا تھا۔ اس کی بیوی اپنی صفائی دے رہی تھی۔
’’میں کھیت پر گئی ہی۔نیار کاٹ کر گٹھری باندھ تو لیٔ پر موسو‘ اُٹھی نا۔پاس ہی را مو کا بیٹا کھیت میں پانی لگا رؤ تھوَ۔میں نے گٹھری اُٹھوانے کو کہو۔بس․․․․․․․․․․گٹھری اُٹھوانا جُرَم ہے۔؟‘‘
کلوا کچھ سننے کو تیار نہیں تھا۔
’’چلی جا حرام جادی۔جا میں نے تجھے طلاق دی۔‘‘
’’طلاق․․․․․․طلاق․․․․․․․طلاق․․․․․․․․‘‘

طلاق کا گولہ منھ کی توپ سے نکل چکا تھا۔گولے کی آواز اس قدر شدید تھی کہ اُس نے پورے گاؤں کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔گاؤں کارُخ رحمت کے گھر کی طرف ہو گیا۔بات گھر سے گاؤں پھر کھلیا نوں اور کھیتوں سے ہو تی ہوئی جنگل اور دوسرے گاؤں میں پھیل گئی۔ علا قے میں پہلی بار کسی نے طلاق دی تھی․․․․․․․․گاؤں کے بزرگ کلوا کو لعن طعن کررہے تھے۔
’’پہلے جانچ پرکھ لینو چیئے۔‘‘
’’طلاق تو کھدا کو بھی بُری لگے ہے‘‘
’’اب جرور گاؤں پر آپھت آوے گی․․․․․․․․․‘‘

جتنے منہ اتنی باتیں۔شام ہو تے ہو تے بات کا فی سنجیدہ ہو چکی تھی۔لوگوں کے سمجھانے اور بُرا بھلا کہنے کا اثر کلوا پر بھی ہوا۔ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو نے لگا تھا۔اُسے لگا جیسے اُس نے اپنی بیوی پر زیادتی کی ہے۔پر اب کیا ہو؟ کسی طرح معاملہ رفع دفع ہونا چاہیے۔گاؤں کے سمجھ دار اور ہوش مند لوگوں کی میٹنگ ہو ئی۔
’’تین بار طلاق ،کہنے سے بھی ایک ہی طلاق ہو تی ہے۔‘‘
حافظ الیاس نے اپنی را ئے دی۔
’’امام صاحب سو‘ پوچھ لیو۔وہ کا کہویں۔‘‘
’’اہل حدیث کے کائی مولانا کے پاس چلو۔‘‘
باہم مشورے سے طے پا یا، جس میں امام صا حب بھی شامل تھے،کہ طلاق تو ہوگئی ہے۔ اب عدت پوری کی جائے۔ اور اس کے بعد حلالہ کرا کے دو بارہ کلوا کا گھر بسا دیا جائے۔
کلوا کی سسرال والے اپنی بیٹی کو لینے آ ئے تھے لیکن گاؤں کے لوگوں نے منع کردیا ۔اور عدت بھو را کے گھر پو ری کرنے کی بات طے ہو گئی۔
•••••••
کلینڈر کے تین ورق پلٹے جا چکے تھے۔عدت پو ری ہو نے وا لی تھی۔ گاؤں کے بزرگوں کا اجتماع پھر ہوا اور گاؤں کے کسی ایک شخص کی تلاش شروع ہوئی جو بڑی عمر کا ہو، نکاح کے بعد کی رات․․․․․․․․․․․․ کے بعد طلاق دے دے۔لوگوں کی نظر یں کئی اشخاص پر گئیں۔خوبیوں اور برائیوں پر بحث ہو ئی۔مسجد کے امام پر سب کی رضا مندی ہو نے ہی وا لی تھی کہ کسی بزرگ کی چشمِ تصور نے لینڈرے کو دیکھ لیا۔ بس پھر کیا تھا۔سب خوشی خوشی تیار ہو گئے۔لینڈرا سے بہتر کوئی اور اس کام کے لیے نہیں ہو سکتا تھا۔گھر کے گھر میں بات رہے گی اور لینڈرا سب کچھ ہما رے مطابق کر بھی دے گا۔
عشاء کے بعد امام صاحب نے لینڈرا کا نکاح پڑھوا دیا۔دس پندرہ افراد کی موجودگی میں سب کچھ انجام پذیر ہو گیا۔گا ؤں کے بزرگوں نے کئی کئی بار لینڈرا کو سب کچھ سمجھا دیا تھا۔گاؤں کی عورتوں میں بھی کھسر پسر ہو رہی تھی۔ سبھی عورتوں کی رائے تھی لینڈرا تو لینڈرا ہے۔کلوا کی قسمت اچھی ہے کہ حلالہ ہو کے بھی اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔
لینڈرا کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے بستر میں سو نے جارہا تھا کہ ایک بزرگ نے کہا۔
’’یاں نہیں۔آج تو،تُوے ،اندر سو نو ہے۔‘‘

اور مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق لینڈرا دُلہن کے کمرے میں آ گیا۔ کمرے کی کنڈی لگاتے ہو ئے وہ بستر پر آ کر ایک طرف کو لیٹ گیا۔ دوسری طرف منھ کیے دُلہن لیٹی تھی۔لینڈرا کو کلوا کی شادی کی رات یاد آ گئی۔ اس کے جسم میں چیونٹیاں چلنے لگی تھیں اور وہ بخا ر میں تپ گیا تھا۔ بابا نے آواز نہ دی ہو تی تو نجانے اس کا کیا ہو تا۔ اس دن لڑکی نے اُسے اپنی طرف پُکارا تھا۔آج لڑکی منھ اُدھر کیے لیٹی تھی۔شا ید اُسے لینڈرا سے ڈر تھا۔مارے خوف کے وہ دوسری جانب منھ کیے تھی۔نہیں وہ لینڈرا سے خوف زدہ نہیں تھی،بلکہ انتہائی مطمئن․․․․․․․․․․کہ لینڈرا بھی کو ئی مرد ہے؟اس اطمینان کے باعث وہ آ رام سے منھ پھیرے لیٹی تھی․․․․․․پھر لینڈرا تو اس کا جیٹھ لگتا تھا۔

لینڈرا سونے کی کوشش کررہا تھا۔لیکن نیند اُس سے کو سوں دور تھی۔ جب کہ وہ بستر میں گرتے ہی سو جایا کرتا تھا۔اس کی زندگی کا یہ پہلا مو قع تھا ․․․․․․․جب نیند اس سے دور تھی․․․․․پہلا ہی مو قع تھا․․․․․․جب اس کی شادی ہو ئی تھی․․․․․․․․․شادی کیا ہو تی ہے؟ لینڈرا کو اس کا علم نہیں تھا۔نہیں،علم تو تھا پر ادھو را ادھورا․․․․․․․․․اُڑی اُڑی باتیں اُس نے سن رکھی تھیں۔پہلی رات، یہ بھی اس کی زندگی کی شاید پہلی رات تھی․․․․․․․نہیں شاید آ خری بھی۔پہلا مو قع تھا جب اُسے گاؤں کی عزت کا واسطہ دیا گیا تھا۔ رحمت نے اُسے اپنے خاندان کی عزت کی دُہائی دی تھی․․․․․․رحمت،اس کی ماں کا شو ہر․․․․․․․․جس نے اُسے نئی زندگی دی تھی،نہ صرف اُسے بلکہ اس کی ماں کو بھی․․․․․․جو آج بالکل قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا تھا ․․․․․․․․پھر کلوا بھی تو اس کا بھا ئی ہی تھا، اس کی ماں کا بیٹا․․․․․․․․نکاح کے وقت کلوا کی آ نکھوں میں تیرتے آ نسو جو التجا کررہے تھے،اُسے سب یاد تھا․․․․․․․․اُسے تو بس آج رات گزار کر، گاؤں کی عزت، گاؤں کے حوا لے کرنی تھی۔وقت نے کیسی کروٹ بدلی تھی۔آج وہ گاؤں کی عزت کا محا فظ بن گیا تھا۔اب سب کچھ اس کے ہا تھ میں تھا۔گاؤں کے بڑے، جوان، عورتیں سب کو اُ مید تھی، ہو نا وہی ہے جس کا سب کو اندازہ تھا․․․․․․․لینڈرا کا انتخاب اسی پس منظر میں کیا گیا تھا۔ گاؤں کے بزرگوں نے دنیا دیکھی تھی، ان کی نظروں میں لینڈرا اس کام کے لیے مناسب ترین شخص تھا۔لینڈرا کے تقریباً ۴۰؍سال ان کی آنکھوں کے سامنے تھے․․․․اُس نے کبھی کسی لڑکی کو نظر بھر کا بھی نہیں دیکھا تھا۔

چار پائی نما پلنگ کی نواڑ میں سرسراہٹ ہوئی۔دُلہن نے شا ید کروٹ لی تھی۔ لینڈرا کا دل تیز دھڑکنے لگا تھا۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اس کے اندر اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ کروٹ بدل کر دیکھ لے کہ دُلہن کس کروٹ لیٹ چکی ہے․․․․․آہستہ آہستہ اس کی حا لت ٹھیک ہونے لگی۔دل کی دھڑکنیں سست ہونے لگیں۔دل نے سمجھا یا دیکھو تو سہی․․․․․وہ کیا کر رہی ہے؟سو رہی ہے یا سو نے کی ایکٹنگ کررہی ہے یا پھر میری طرح․․․․․․․․․نہیں ․․․․․نہیں․․․․․․میری طرح کیسے ہو گی۔وہ تو اس دور سے گذر چکی ہے۔ہم بستری کا بھی اس کا یہ پہلا مو قع نہیں۔نہیں وہ میری طرح تو نہیں ہو گی۔

اپنی تمام قوت کوسمیٹتے ہو ئے اُس نے سر گھما کر دیکھا۔ پھر فوراً سر کو واپس موڑ لیا۔اُسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اُسے دیکھتے ہو ئے نہ دیکھ لے۔ لینڈرا نے دیکھا تھا․․․․دُلہن نے کروٹ بدل کر رُخ سیدھا کرلیا تھا۔اب اس کا منھ اور سامنے کا حصہ چھت کی طرف اور پشت پلنگ پر تھی۔ اور وہ مزے سے سو رہی تھی۔سو تے میں اس کی سا نسوں کی آمد و رفت سے اس کا سینہ کچھ اس طرح اوپر نیچے ہو رہا تھا کہ لینڈرا کی سانسیں تھمنے لگیں۔حلق خشک ہو گیا۔ اگر اُس نے فو راً سر نہ گھما لیا ہو تا تو شاید اس کا دل، دھڑکنا بھول جاتا۔بڑی مشکل سے اُس نے اپنے آپ پر قا بو پایا۔ اُسے کیا پتہ تھا عورت کی قربت کیا ہو تی ہے۔ قربت کی تپش کیسی ہو تی ہے۔ کیسے وہ اچھے اچھوں کو جلا کر خا کستر کردیتی ہے۔ اُسے بھی جلا ہی تو دیا تھا۔ اس کا بدن تپنے لگا تھا۔اُسے زندگی میں اتنی گرمی کبھی نہیں لگی تھی۔جیٹھ کی بھری دوپہری میں کھیتوں میں کام کرتے وقت بھی اُسے اتنی گرمی کا احساس کبھی نہیں ہوا تھا۔

اچانک اس کے اندر برسوں پرا نا فقیر محمد، بیدار ہو گیا۔ اُسے یا د آ نے لگا، سا را گا ؤں اُسے لینڈرا کہتا تھا۔جب شروع میں لوگوں نے اُسے لینڈرا کہنا شروع کیا تھا تو اُ سے بہت غصہ آتا تھا۔لیکن اس کی بے چارگی اور بے بسی نے انہیں مزید تقویت پہنچا ئی تھی۔آج لوگ اس کے اصل نام کو بھی بھول گئے تھے اور لوگوں کا کیا وہ خود فقیر محمد سے دور ہو گیا تھا۔ آہستہ آہستہ سب کچھ عام ہوتا گیا،لیکن کہیں نہ کہیں اس کے دل میں نفرت کی ایک چنگا ری تھی جو برسوں سے دبی پڑی تھی۔اچانک چنگا ری سُلگ اُٹھی۔ لینڈرا ،کے اندر خود اعتمادی، حوصلہ اور ہمت آ گئی تھی۔گاؤں والے اُسے ذلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ہمیشہ اس کی تضحیک کرتے ۔لینڈرا کہتے وقت ان کے لہجے میں کیسی حقا رت ہو تی تھی۔فقیر محمد بے بس تھا۔لیکن انسان ہمیشہ بے بس نہیں ہو تا۔

اﷲ تعالیٰ ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی دولت، شہرت،مو قع،ہمت اور حوصلہ ضرور عطا کرتا ہے۔آج فقیر محمد کو خدا نے وہ مو قع دیا تھا۔خدا نے آج اسے فقیر سے بادشاہ بنا دیا تھا۔ اُسے ایک رات کی بادشاہت ملی تھی ۔فقیر محمد نے طے کرلیا کہ وہ انتقام لے گا۔ وہ گا ؤں والوں کو بتائے گا کہ لینڈرا کسے کہتے ہیں۔ اُسی بچے کو نا، جو اپنی ماں کے سا تھ جہیز میں آ تا ہے۔ آج میں بتاؤں گا۔ عزت کیا ہو تی ہے۔کلوا،جو میرا بھا ئی ہے ۔ اس نے بھی کیا کمی کی ۔ وہ بھی مجھے لینڈرا کہتا ہے۔ اُسے آج پتہ چلے گا کہ لینڈرا کیا ہو تا ہے۔ لینڈرا بزدل، کمزور اور ڈر پوک نہیں ہوتا۔ آج میری ہمت دیکھنا کلوا․․․․․․․اور کلوا کی بیوی․․․․․․آج رات کی اس کی دُلہن․․․․․․․․․کتنے اطمینان سے محوِ خواب ہے۔گو یا شادی کی پہلی رات، کو ئی بات ہی نہ ہو۔کتنا اطمینان ہے حرام زادی کے چہرے پر․․․․․․․کیوں ہے یہ اطمینان،صرف اس لیے نا کہ میں لینڈرا ہوں۔ لینڈرا جو شاید مرد نہیں ہوتا۔گاؤں کی سا ری عورتیں مجھے یہی سمجھتی ہیں نا۔انہیں یہ نہیں پتہ لینڈرا، مرد ہے،لیکن بد کردار نہیں۔کبھی کسی لڑکی کو نہیں چھیڑا، کسی عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں مرد نہیں․․․․․․نا مرد ہوں۔سا رے گھر کو،پورے گاؤں کو اطمینان ہے۔سب مجھے نامرد سمجھتے ہیں․․․․․آؤ، گاؤں وا لو دیکھ لو․․․․․․․میں نا مرد نہیں ہوں۔

رات کے پچھلے پہر لینڈرا کے کمرے سے ابھر نے وا لی چیخوں اور کرا ہوں نے فضا میں ارتعاش پیدا کردیا تھا۔صُبح کی نماز کے بعد لینڈرا، نہیں فقیر محمد، جو آج با دشاہِ وقت سے کم نہ تھا، نے حسبِ وعدہ گہنا چکے چاند پر اپنے دروا زے ہمیشہ کے لیے مقفل کردیے۔
٭٭٭
Dr. Aslam Jamshedpuri
About the Author: Dr. Aslam Jamshedpuri Read More Articles by Dr. Aslam Jamshedpuri: 3 Articles with 4401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.