نئے سال کی آمد آمد ہے ۔ سال 2015ء اپنے
ساتھ کچھ خوشیاں اور کچھ غم لیے ہمیں الودع کہہ رہا ہے ۔نئے سال کے آغاز کے
ساتھ ایک اہم سوال جو اکثر ذہنوں میں آتاہے وہ یہ ہے کہ اس نئے سال میں نیا
کیا ہے ؟ انفرادی سے لے کر اجتماعی حالات ،سیاست ، راہنماؤں کے دعوے اور
انہی راہنماؤں کے پرٹوکول کی وجہ سے معصوم بچی کا جان سے ہار جانا ، سبھی
کچھ پچھلے سال کی مانند ہے ۔ اس نئے سال میں بظاہر نیا کچھ نہیں نظر آتا ۔
حکومتی سطح پر سال 2015 ء بھی ہر سال کی طرح دھاندلی کے نعروں میں با رہا ۔
پنجاب میں لوگوں کو میٹرو بس کا تحفہ دینے والے بجلی اور گیس کا بحران حل
نہ کر سکے ۔بجلی کا بحران حکومتی دعوؤں کے باوجود جوں کا توں رہا ۔ بجلی کی
لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی کم نہ ہو سکا ۔حالیہ حکمرانوں کا یہ دعویٰ تھا کہ
حکومت ملنے پریہ بجلی کا بحران ختم کریں گے لیکن یہ دعویٰ صرف لفاظی کی حد
تک ہی رہا ۔موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی چولہوں میں جلتی گیس بھی کم سے کم
ہوتے ہوتے ختم ہو جانے لگی ۔عوام گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے
۔ اگرچہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پولیس کا انظام بہت حد تک بہتر بنایا گیا
۔ اس صوبہ میں پولیس ریفارمز کی گئی جو کہ دوسرے صوبوں کے لیے مثال کی
حیثیت رکھتا ہے ۔
سیاسی منظر نامہ پر تمام برس سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بے عملی دھاندلی
کے الزام لگاتی نظر آئی ۔لیکن عملی طور پر کسی پارٹی کی جانب سے کوئی قابل
ِذکر کارنامہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔بدلیاتی انتخابات میں ہمیشہ کی طرح دنگل
اور بد انتظامی رہی ۔ انتخابات کے نتائج کو ہمیشہ کی طرح رد کیا گیا ۔یہاں
تک کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر جیالوں اور پولیس اہلکاروں کی کھانے
کی دیگوں پر ہاتھا پائی ہو گئی ۔ ملک میں وی آئی پی پرٹوکول کی وجہ ایک
ننھی جان ، جان کی بازی ہار گئی ۔ جسکی پورے ملک میں مذمت کی گئی ۔ تمام
صوبوں کی عوام صحت عامہ کی ناکافی سہولیات کا شکار رہے ۔ تعلیم پر حالیہ
سال میں بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ نہ تو سکولوں میں موجود بھوسے کے
گوداموں کو ختم کیا گیا اور نہ ہی بلوچستان میں موجود بنا چھت کے سکولوں پر
کوئی توجہ دی گئی ۔ گذشتہ برس بھی ملک میں افراطِ زر میں اضافہ ہوا اور
افراطِ زر کی شرح 2.73 فی صد رہی جبکہ شرح نمو میں کمی واقع ہوئی ۔دسمبر
میں منی بجٹ نے عوام کی قوت ِ خرید میں مزید کمی کی ۔ عالمی سطح پر پیڑول
کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ملک ِ عزیز میں عوام کو کوئی خاص ریلیف نہیں
دیا گیا ۔ ڈالر کی وہ قدر جو کہ سال کے آغاز میں اٹھانویں روپے تھی سال کے
اختتام پرپھر سے سو روپے سے زائد ہوگئی ۔ ٹیلی کام سیکٹر میں ٹیکس کی شرح
میں اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے ٹیلی کام سیکٹر کے منافع میں کمی واقع ہوئی
۔ھسب ِ سابق حکمرانوں نے بلند و بانگ دعوے کیے لیکن نہ تو وی آئی پی پروکول
کو روکا گیا اور نہ ہی سیاست دانوں کی شاہ خرچیوں کو کم کیا گیا۔ملک کے بجٹ
میں ایک بڑا حصہ حکمران طبقہ اور سیاست دانوں کے لیے مختص کیا گیاجبکہ
ترقیاتی بجٹ ، تعلیم ، صحت کا طبقہ بدستور حکمرانوں کی نااہلی کا شکار رہا
۔ سرکاری سکول اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار میں خاطر خوا ہ بہتری نہیں
آئی ۔ غریب عوام آج بھی انھی مسائل کا شکار ہیں جن کا وہ ہمیشہ سے شکار رہے
۔
اس برس بھی ملک قدرتی آفات کا شکار رہا ، زلزلے ، سیلاب اور قحط سالی نے
ملک کو اپنے پنجوں میں دبوچے رکھا ۔خصوصا ملک میں دوسرا بڑا زلزلہ آیا جس
نے ملکی تاریخ میں اگرچہ اتنی زیادہ تباہی نہیں مچائی تاہم بہت سا جانی اور
مالی نقصان ضرور ہوا ۔صوبہ سندھ میں تھر کا وہ علاقہ جہاں مور ناچتے تھے
وہاں موت کا رقص جاری رہا ۔ خطہ ء تھر کے لوگ اپنے بھوک اور پیاس سے
بلبلاتے ننھے بچوں ، عورتوں کی لاشیں اٹھاتے رہے۔ اسی وقت سندھ فیسٹیول میں
منعقد کیا گیا لیکن ان غریبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ۔ عوامی
نمائندوں چاہے وہ صوبائی سطح پر ہوں یا وفاق کی سطح پر کسی نے اس علاقے کی
جان کوئی توجہ نہیں کی اور نہ ہی اس علاقے کے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ
ہوا۔
اس بر س بھی ملک میں دہشت گردی کا راج رہا ۔ کئی بم دھماکوں میں ان گنت
معصوم لوگوں کی جانیں ہاتھ سے گئی ۔تاہم کراچی سے خیبر تک ملک میں پاک فوج
نے اپنی بہادری کے کارنامے سرانجام دئیے ۔ آپریشن ضرب عصب کو کامیابی سے
جاری رکھے ہوئے افواج ِ پاکستان ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے
کوشاں رہی ۔فوج کے دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن کی وجہ سے پچھلے سال میں
بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں کمی ہوئی ۔ فوج کی اعلیٰ ترین
قیادت جنرل راحیل شریف عملی اقدامات اور لڑنے والے افسران کے ساتھ خود
کمانڈ اینڈ کنڑول کی بنا پر پاکستانی افواج کے کامیاب ترین جنرل اور
پاکستان کی مشہور ترین شخصیت قرار پائے ۔ اس کی دوسری بڑی وجہ جنرل راحیل
شریف نے ہر سطح پر پاکستان کے موقف کو موجودہ حکمرانوں کی نسبت بہتر طریقے
سے حفاظت کی اور مفادِ پاکستان کو تمام عالم کے سامنے بیان بھی کیا ۔مشرقی
سر حد پر بھارتی افواج کی جانب سے کی جانے والی دراندازیوں کے ساتھ ساتھ
افغانستان سرحد کو بھی محفوظ کیا ۔
پہلی بار سندھ خصوصا کراچی میں رینجرز کو اختیارات دئیے گئے اور رینجرز نے
ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کراچی میں امن و امان کو بحال کیا اور
پہلی بار کراچی کے عوام نے بہت عرصے بعد بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ سے نجات
حاصل کی ۔ رینجرز نے کم و بیش ہر سیاسی جماعت میں موجود شر پسند عناصر کو
گرفتار کرکے کیفر ِ کردار تک پہنچایا ۔ کراچی میں رینرز کی تعیناتی کے بعد
ٹارگٹ کلنگ میں واضع کمی واقع ہوئی ۔
بین اقوامی سطح پر بھی مسلمانوں کی حا لت کچھ زیادہ بہتر نہ رہی ۔ بیشتر
مسلم ممالک دہشت گردی کا شکار نظر آئے ۔ داعش ایک ایسی اسلامی جماعت کے طور
پر سامنے آئی جو کہ مشرق ِ وسطی ٰ ، شام اور عرب ممالک میں دہشت گردی کی
کاروائیوں میں مصروف ِ عمل رہی ۔پیرس پر دہشت گردی کے حملوں نے شامی
مہاجرین کی مشکلات میں بیش بہا اضافہ کیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ شامپر مغربی
ممالک کی بمباری نے رونما ہونے والی اموات میں اضافہ بھی کیا ۔ بھارتی اپنی
ازلی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی میں پیش پیش رہا ۔ بھارتی وزیر دفاع اور
بھارتی وزیر ِ اعظم پاکستان کے خلاف ہر فورم پر زہر اگلتے رہے ۔ صرف یہی
نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کی غرض سے داعش جیسی
تنظیم کو ملوث کرنے اور اس کی مدد کرنے کی کوششیں تمام دنیا کے سامنے بیان
کے طور پر پیش کر دی گئی جس کی پاکستان کی جانب سے مذمت بھی کی گئی ۔ اس
تمام دشمنی کے باوجود بھارتی وزیرِ اعظم ایک نجی دورے پر پاکستانی وزیر ِا
عظم کی ساگرہ اور ان کی نواسی کی شادی میں شریک ہونے آن پہنچے ،جن کا
پاکستان میں خیر سگالی کے طور پر بہترین استقبال کیا گیا ۔
نئے سال میں کا آغاز نئے وعدوں اور نئے دعوؤں سے کیا جاتا ہے لیکن صرف یہ
کافی نہیں ہے ۔ تاریخ بدلنے کے علاوہ اس نئے سال میں ہمیں خود کو بھی بدلنا
ہوگا۔تہوار منا لینا کافی نہیں ۔ ہر شخص کو خود احتسابی کرنا ہو گی اور اس
خود احستابی کے بعد خود کو سدھارنا ہو گا ۔جب ہر ایک خود کو سدھار لے گا تو
معاشرہ خود بخود سدھر جائے گا۔
|