مٹی کے برتنوں کی تیاری اور ان کااستعمال ایک دم توڑتی ثقافت اور صنعت

مٹی کے برتن بنانے کا فن کم ازکم آٹھ دس ہزار سال پرانا ہے۔اور صنعت دنیا کی سب سے قدیم صنعت ہے۔ انسانی سمجھ کی ابتدا ءسے انسان مٹی کے برتن بناتا اور انھیں آگ میں پکا کر مضبوط کرتا رہا ہے چین میں اس فن کو عروج حاصل ہوا مٹی کی ظروف سازی میں ایک نئی جدت لائی گئی جس میں نفاست بھی ہے مسلمانوں نے اس فن میں یہ اضافہ کیا رنگ دارمٹی کے بنانے کی ابتداءبھی مسلمان ہنرمندوں نے کی مراکش سے لے کر اندلس اسپین تک اور برصغیر میں بھی اس ہنر کو رواج دے کر عروج پر پہنچایا گیا پاکستان میںرنگ دارمٹی کے برتن اور اس پر کاشی گری کمال فن کی عروج پر پہنچی۔ قدیم زمانہ سے لے کر آج کے جدید دور تک برتن انسان کی ضرورت رہے ہیں

روئے زمین پر اپنی آمد کے ساتھ ہی حضرت انسان نے جن چیزوں کی ضرورت محسوس کی ان میں کھانے پینے اور دیگر استعمال کے برتن بھی شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ برتنوں کی اقسام اور ان کی بناوٹ میں جدت لائی جاتی رہی۔ فرد سے افراد اور پھر ایک بڑے مجموعہ یعنی کثیرالاتعدادانسانی گروہ بنتے گئے اسی طرح گروہ در گروہ یعنی قبیلے بن گئے۔ ضرروت کے تحت ایجادات کی جاتی رہیں۔ زندہ رہنے کے لیے خوراک کا انتظام اورخود کو محفوظ رکھنے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش کے بعد ہتھیار،اوزاراور برتن اہم تھے۔ جس قبیلہ کے پاس خوراک کا ذخیرہ ،رہنے کے لیے مناسب و محفوظ رہائش، دفاع کے لیے ہتھیار، کام کرنے کے لیے اوزار اور اسی طرح استعمال کے برتن ہوتے وہ قبیلہ قبائل میں نمایاں مقام کا حامل ہوتا تھا۔ رہن سہن کھانا پینا اور ،اوڑنا مہذب قبیلہ کی پہلی نشانی تھی۔ تین قدیم تہذیبیں جن میں ایک دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے کنارے عراق میں میسوپوٹامیہ، دوسری دریائے نیل کے کنارے مصر اور تیسری وادی سندھ کی تہذیب کہلائی ہے ۔ Civilized معاشرہ کہلائیں وادی سندھ تہذیب کو باقی تہذیبوں سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب تسلیم کیا گیا جہاںماضی کا آئینہ صاف دکھائی دیتا ہے اس دور کے نمایاں خدوخال یہاں گزشتہ سال پانچ ہزار سال پرانے مگر جدیددور کے انتظام وانصرام کے عین مطابق لگتے ہیں جیسے ڈرینج سسٹم ،خوراک کے ذخیرہ کرنے کا طریقہ اور ظروف ساز بھٹیاں ۔تحقیق کے مطابق یہاں سے بھٹیاں ملی ہیںیہ بھٹیاں سیاہ رنگ کی چوڑیاں اور مٹی کے چھوٹے برتن پکانے کیلئے استعمال کی جاتی تھیں۔انہی بھٹیوں کے قریب رہائشی مکانات، غلہ جمع کرنے کے لئے قد آور مٹی کے بنے ہوئے مٹکے۔ بھی ملے ہیں مٹی کے برتن بنانے کا فن کم ازکم آٹھ دس ہزار سال پرانا ہے۔اور صنعت دنیا کی سب سے قدیم صنعت ہے۔ انسانی سمجھ کی ابتدا ءسے انسان مٹی کے برتن بناتا اور انھیں آگ میں پکا کر مضبوط کرتا رہا ہے چین میں اس فن کو عروج حاصل ہوا مٹی کی ظروف سازی میں ایک نئی جدت لائی گئی جس میں نفاست بھی ہے مسلمانوں نے اس فن میں یہ اضافہ کیا رنگ دارمٹی کے بنانے کی ابتداءبھی مسلمان ہنرمندوں نے کی مراکش سے لے کر اندلس اسپین تک اور برصغیر میں بھی اس ہنر کو رواج دے کر عروج پر پہنچایا گیا پاکستان میںرنگ دارمٹی کے برتن اور اس پر کاشی گری کمال فن کی عروج پر پہنچی۔ قدیم زمانہ سے لے کر آج کے جدید دور تک برتن انسان کی ضرورت رہے ہیں ۔اگرچہ آج مٹی کے برتنوں کا استعمال تقریباً ختم ہو چکا ہے پہلے گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتنوں کا استعمال ہوتا تھا مٹی کے برتن جن میں پانی ‘ گھڑے میں ڈال کر رکھا جاتا تھا۔ دال سبزی چولہے پر چڑھانے کے لئے ہنڈیا استعمال کی جاتی تھی۔ پانی مٹی کے پیالہ سے پیا جاتا تھا۔ لیکن آج مٹی کے برتن کا استعمال ختم ہوتا جارہا ہے۔ مٹی کے برتنوں کی تیاری اور ان کااستعمال روایت اور ثقافت کا حصہ ہیں مگر یہ روایت اور ثقافت اب دم توڑتی جارہی ہے۔ استعمال ہونے والے قدیمی برتن ناپید ہورہے ہیں اس سے نہ صرف ہماری ثقافت متاثر ہورہی ہے بلکہ آہستہ آہستہ ہماری نئی نسل ان چیزوں کے نام تک بھول رہی ہے۔ مٹی کے برتنوں کی دو پہلوں ہیں ایک تاریخی دوسرا ثقافتی اور ان کی ختم ہونے سے ہمارا ثقا فتی ورثہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے مٹی کے برتن بنانے کی صنعت کے خاتمے کی وجہ سے ثقافت متاثرہونے کے ساتھ ہماری معیشت پر بھی برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ کبھی یہ صنعت معروف صنعت کا درجہ رکھتی تھی دنیا کی قدیم ترین صنعت سے وابستہ ہنرمندوں میں کام کے حوالے سے مایوسی بڑھی ہے۔ماہر کاریگر یا تووفات پاگئے یا پھر ان کے دوسرے شعبوں میں چلے جانے سے اب یہ صنعت ختم ہوتی جا رہی ہے۔اس ہنر کے متروک ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مٹی کے برتنوں کا استعمال کا رحجان کا کم ہونا ہے۔ اب صرف خاص مذہبی رسومات یا پھر کبھی کبھار مخصوص کھانے پکانے تک محدود ہو گیا ہے۔ مٹی کے برتن تین قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ برتن جن سے پانی رستا ہے۔ دوسرے پتھر چینی Stoneware کے برتن اور تیسرے چینی مٹی کے برتن ۔پہلے مٹی کو اچھی طرح سانا جاتا ہے اور ایک پہیہ پر چڑھا دیا جاتا ہے اور پھر پہیہ کو گھما دیا جاتا ہے۔ اسی حرکت کی حالت میں ہاتھ سے برتن کو حسب مرضی شکل دے کر نکال لیا جاتا ہے۔ اس پر نقش ونگار بنائے جاتے ہیں اور سوکھنے کے بعد بھٹی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اس میں ہوا پہنچنے کے راستہ اور مقدار پر اس کا انحصار ہوتا ہے کہ پکنے کے بعد یہ سیاہ رنگ کا ہوگا یا سرخ۔ مٹی کے مختلف برتن تیار کئے جاتے ہیں۔ جن میں آٹا گوندھنے والی کنالیاں، جسے سرائیکی وسیب میں پاتری بھی کہا جاتا ہے روٹی پکانے کے لیے تندور، کھانے بنانے والی ہنڈیا، پانی کے” گھڑے مٹکے“ طہارت خانوں کے لیے” استاوہ یا لوٹا“تیل کے دِیے یا دیوے“، لسی بنانے کے لیے” چاٹی “گھروں میں آٹا محفوظ کرنے کے لیے ”چٹورے“ گندم کو محفوط کرنے کے لیے” کلوھٹی“ پیاز، سبز مرچ پیسنے کے لیے ”’دَورِی“ دابڑا‘ جس میں بچہ بیٹھ کر کھیل سکتا ہے ،حقے کا چِلم اور لسی پینے کا برتن ”ڈولا “پانی پینے کا کٹورا ،سالن کے استعمال کے لیے” کٹوری“ پیالی اور پیالیہ ،گھڑے اورمٹکے کے اوپر رکھی جانے والی” چھوڑنیں“ مٹکے کے ساتھ رکھی جانے والی” ڈولی“ اچار ڈالنے والا مرتبان، پرندوں اور جانوروں کا پانی پلانے کا برتن” پھیلی“ شامل ہیں۔ مٹی کے برتنوں کی تیاری اور ان کااستعمال روایت اور ثقافت کا جو حصہ ہے ۔اس کو بچانے کی خاطر حکومتی سطح پراقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس دم توڑتی ثقافت اور صنعت کو زندہ رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ اس سے وابستہ ہنرمندوں کاریگروں سپورٹ کیا جائے۔تاکہ یہ فن بھی رہے اور فنکار بھی یہی فن ان کے روزگار کا وسیلہ بھی بن پائے اس کے ہنر کی پذیرائی کے کچھ کرنا ہوگا۔وگرنہ ان کا ذکر صرف کتابوں میں ملے گا۔

Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 52951 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.