نئے سال کا جشن اور انسانیت کی سسکیاں
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
گزشتہ کئی دہائیوں کی طرح اس سال بھی
دسمبر جاتے جاتے لاشوں کے تحفے ہماری جھولی میں ڈال گیا۔ہم سال2016ء کا
استقبال بھی ماضی کی طرح خودکش دھماکوں سے اُڑتے انسانی جسموں کے چیتھڑوں
کی بارش میں خوب دھوم سے کریں گے۔پاکستانیوں کے گھروں میں صف ماتم بھی ہے
اورخوب چراغاں اورڈانس وانس بھی ہوگا ۔جانوربھی اپنی نسل کے کسی جانور کی
موت پرکچھ دیرافسردہ ہوجاتے ہیں پرانسان اپنی لاش پربھی نئے اورپرانے سال
کاجشن مناتاہے۔دنوں کی گنتی کے ہیرپھیرکاجشن منانے سے پہلے ہمیں فیصلہ
کرلیناچاہئے کہ جشن کسی خوشی کے حاصل ہونے پرمنایاجاتاہے یاپھرخودکش
دھماکوں میں درجنوں بھائیوں کی موت کے باوجودسال کی تبدیلی کاجشن ضروری
ہے؟جنازے آنگن میں سجاکرماتم کیاجاتاہے جشن نہیں ہوتا۔سال2015ء میں بھی
ماضی کی طرح لاکھوں انسان دہشتگردوں کے ہاتھوں مارے گئے،لاکھوں کوبیماریاں
اپنے ساتھ لے گئیں ،ہزاروں بیٹیوں کی عزتیں داغدارکردی گئی،ہزاروں نے حالات
سے تنگ آکرخودکشی کرلی،کروڑوں بے روزگاری اورمہنگائی کے ہاتھوں پریشان
خودکشیاں کرنے کوتیارہیں،مہنگائی نے جیتے جاگتے انسانوں کو لاشوں میں تبدیل
کرکے رکھ دیا ہے پھربھی حکمران سال 2015ء میں اپنے حسین ترین کارناموں کی
لسٹ بناکرپیش کریں گے،جس میں بتایاجائے گاکہ دہشتگردی،بے روزگاری،لوڈشیڈنگ
،مہنگائی،خودکش حملوں،کرپشن،ناانصافی اوردیگرمسائل میں اتنے فیصدکمی آئی
جبکہ ملک کے حالات بہترہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری اور،اور،اور،اور میں
اتنے فیصد اضافہ ہوا۔نئے سال کی مبارکباد اوروہ تمام دُعائیں جوراقم نے سوچ
رکھی تووہ کسی اورسال کیلئے بچارکھتے ہیں اورآج بات کرتے ہیں کہ آخرخوبصورت
انسان بے درددرندہ کیوں بن جاتاہے؟کیوں نفرت کے بیج بوتاہے ؟کیوں لہوکی فصل
اُگتی ہے؟حقیقت تویہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پربہت ہی معصوم پیداہوتا ہے
پراس کی فطرت میں خالق نے سرکشی رکھ دی ہے جو اسے انسان سے حیوان بنانے
کیلئے کافی ہے۔سرکشی،بغاوت اورحکم عدولی انسان کو اپنے خالق سے دورکرنے کا
سبب بنتی ہے اوراﷲ تعالیٰ سے دوری کامطلب اپنے مقصد سے روح گردانی ۔یوں بھی
کہاجاسکتاہے کہ انسان کواپنی سرکشی یا اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی میں سے کسی ایک
کاانتخاب کرناہوتاہے ۔انسان کو رب رحمٰن کے احکامات پرکس حدتک عمل
پیراہوناچاہئے اورسرکشی کس قدر نقصان دے ہے یہ الگ اور لمبی بحث ہے۔آج کا
موضوع تحریر ہے کہ انسان معصوم بھی اورانتہائی ظالم بھی ۔انسان چاہے کتنا
بھی سخت دل کیوں نہ بن جائے لہودیکھ کرپریشان ہوجاتا ہے ،دوسروں کو تکلیف
میں دیکھ کر دل میں اک لہر سی ضرور اُٹھتی ہے ۔ہوس ولالچ میں آکر دوسروں کو
بے دردی سے کاٹنے والے بھی کہیں نہ کہیں اپنے آپکو شرمندہ شرمندہ محسوس
کرتے ہونگے ، یوں کہوں کہ ہر انسان کے اندر برائی سے بچنے اور اچھائی کو
اپنانے کا جذبہ موجود ہے تو زیادہ مناسب بات ہوگی پرحالات سازگار نہ ملنے
کی وجہ سے اکثریت برائی کی دلدل سے نکل نہیں پاتی،۔دورجدیدمیں انسان کی
معصومیت اس قدر نایاب ہوچکی ہے کہ قتل وغارت گری کے ماحول میں چاروں طرف سے
سسکیوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔نہ قاتل خوش نہ مقتول اور نہ ہی آس پاس بسنے
والے معصوم انسان اس دہشت بھرے نظام میں پرسکون زندگی بسر کرنے کے قابل ہیں
۔ہرطرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ پھر بھی انسان کی معصومیت پکار رہی
ہے۔انسانیت کی اس پکار کی کوئی آواز نہیں پر میں اکثر محسوس کرتا ہوں کہ
جیسے انسانیت سسکیوں کی آواز میں پکاررہی ہوہم نجات چاہتے ہیں سودی نظام سے
،نجات چاہتے ہیں چاروں طرف پھیلی مذہبی اور ریاستی دہشتگردی سے،ہم نجات
چاہتے ہیں قرضہ جات سے،ہم نجات چاہتے ہیں نسل در نسل پھیلی غلامی سے،ہم
نجات چاہتے ہیں دھوکہ دہی سے،ہم نجات چاہتے ہیں انسانیت سوز نظام سے،ہم
نجات چاہتے ہیں جہالت سے، ہم نجات چاہتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام سے،ہم نجات
چاہتے ہیں جاگیر داری سے، ہم نجات چاہتے اس نظام سے جس میں انسان کی کوئی
قدر و قیمت نہیں ،ہم نجات چاہتے ہیں ظلم کی حکمرانی سے ،ہم نجات چاہتے ہیں
بدامنی سے ،ہم نجات چاہتے ہیں بے روزگاری سے ،ہم نجات چاہتے ہیں بے ایمانی
سے ،ہم نجات چاہتے ہیں گمراہی سے ،ہم نجات چاہتے ہیں بے راہ روی سے ،ہم
نجات چاہتے ہیں دنیا کے تما م جھگڑوں سے ،ہم نجات چاہتے ہیں غربت سے ،ہم
نجات چاہتے ہیں ہوس و لالچ سے ،ہم نجات چاہتے ذاتی و اجتماعی بے غیرتی
سے،ہم نجات چاہتے ہیں قتل وغارت گری سے،ہم نجات چاہتے ہیں ناانصافی سے،ہم
نجات چاہتے ہیں خودکشیوں سے،ہم نجات چاہتے ہیں نفرتوں بھرے ماحول سے،ہم
نجات چاہتے ہیں خودکش حملوں سے ،ہم نجات چاہتے ہیں تمام دہشتگرد عناصرسے،ہم
نجات چاہتے ہیں جھوٹ سے،ہم نجات چاہتے ہیں کفر کے نظام سے،ہم نجات چاپتے
ہیں مولویوں کے اسلام کے نام پرذاتی جھگڑوں سے،ہم نجات چاہتے ہیں ظالم
حکمرانوں سے ،ہم نجات چاہتے ہیں،انسانیت کی یہ سسکیاں نجانے اور کن کن
چیزوں سے نجات چاہتی ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان تمام تکالیف سے
انسان کو نجات کون دلا سکتا ہے؟جبکہ یہ تمام مسائل انسان ہی کے پیدا کردہ
ہیں جن کی وجہ سے انسانیت نایاب اور حیوانیت سرعام ہوچکی ہے۔اے انسان سوچ ۔قاتل
کون؟مقتول کون؟دہشتگرد کون؟ دہشتگردانہ حملوں میں جان سے جانے والا
کون؟ظالم کون؟مظلوم کون؟جھوٹاکون؟دھوکے باز کون؟ناانصاف کون؟نفرتوں کے بیج
بونے والا کون؟لالچی کون؟حریص کون؟سرمایہ داری،جاگیرداری سے ناجائز فائدہ
کون اُٹھاتا ہے؟ان تما م سوالات کا ایک جواب ہے (انسان)یعنی انسان خود ہی
ظالم ہے ،خود نفرتوں کے بیج بوتا ہے اور خود ہی لہو کی فصل کاٹتا ہے ۔معصوم
انسان اپنے خالق کی عظیم تخلیق کی تذلیل کرتا ہے جو خالق حقیقی کو پسند
نہیں ہے ۔ انسان ،انسان کا دشمن ہے اور انسان سے اپنی جان بچانے کے لئے
انسان ہی کو اپنا محافظ مقرر کرتا ہے۔کیسی دردناک حقیقت ہے کہ انسان ہی
انسان کی جان کا دشمن ہے اور انسان ہی انسان کا محافظ تصور کیا جاتا ہے ۔انسان
کی وحشت ثابت کرتی ہے کہ انسان معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ظالم بھی
ہے پر اس حقیقت سے انکار کرنا ناممکن ہے کہ انسان پیدائشی طور پرمعصوم ہی
پیداہوتا ہے ۔دنیا کا حرص اور لالچ اسے ظالم اور فسادی بنادیتے ہیں ۔دولت و
عیش کے لئے انسان اپنے وجود پرتشدد کرنے میں اپنی مثال آپ ہے ۔یہ بات اشرف
المخلوقات کے لئے باعث فکر ہی نہیں بلکہ قابل شرم بھی ہے ۔انسان کویہ سوچنا
چاہئے کہ انتہائی نفسا نفسی کے عالم میں بھی ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت پیش
آتی ہے ۔انسان دوسرے انسانوں کے بغیر زندگی بھرتو کیا ایک لمحہ بھی زندہ
نہیں رہ سکتا۔پھر کیوں انسان ،انسان سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے؟میری نظر
میں انسان دنیا کے ہر قبیلے ،ہرگروہ،ہرزبان،ہر علاقے ،ہرریاست،ہر فرقے اور
ہر مذہب سے زیادہ اہم ہے اور ہمیں دنیا کے تمام انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے
جن میں تمام قبیلوں اور مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں۔انسانی فطرت ہے کہ جب
کسی انسان سے اپنا مقصد حاصل ہورہا ہوتا ہے تب وہ دوست ہوتا ہے ،تب اُس کے
قبیلے ،فرقے اور مذہب سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی اورجب کوئی انسان ہمارے
مفادات کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ،تب ہم اُس انسان اس کے قبیلے ،فرقے اور
مذہب کے دشمن بن جاتے ہیں ۔حالات و واقعات ثابت کرتے ہیں کہ انسان کسی
قبیلے ،فرقے یامذہب کی وجہ سے قتل و غارت نہیں کرتا بلکہ اپنے ذاتی مفادات
کی تکمیل کیلئے دوسروں کے گلے کاٹتا ہے ،یایوں سمجھا جاسکتا ہے کہ دنیا کے
طاقتور افراد اور قبیلے عام لوگوں کو قبیلوں ،فرقوں اور مذاہب کی بنیاد پر
ایک دوسرے سے لڑا کر اپنی پوزیشن اور طاقت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔تاریخ
انسانی بتاتی ہے ہر قبیلے ،فرقے اور مذہب کے افراد نے دوسروں کے گھر،کھیت
اور ملک طاقت کے زور پر ہتھیانے میں کسر نہیں چھوڑی ۔یہ حقیقت اس بات کا
منہ بولتا ثبوت ہے کہ پیدائشی معصوم انسان کو طاقت کا نشہ انتہائی ظالم بنا
دیتا ہے اور اسی نشے کی مستی کو قائم رکھنے کی کوشش میں انسان ،انسان کا
گلا کاٹتا ہے ۔ افسوس کہ دنیا بھر کی طاقت حاصل کرنے کے باوجود انسان اپنی
سانسوں پر قادر ہوسکتا ہے اور نہ ہی جسم و روح کے رشتے کو برقرار رکھنے میں
کامیاب ہوسکتا ہے ۔جب موت آتی ہے تب دولت،طاقت،قبیلہ ،فرقہ اور مذہب کوئی
کارگرثابت نہیں ہوتا۔اُس وقت یقینا انسان موت سے نجات چاہتا ہوگا ۔ |
|